مذہب کے نام پر قتل و غارت
تحریر : زاہد حسین
شیعہ نیوز : 65 سالہ خلیل احمد کی قسمت کا فیصلہ اسی دن ہوگیا تھا جب ان پر توہین رسالت کا الزام لگا تھا- یہ ان کی موت کا پروانہ تھا- وہ پولیس کی تحویل میں اپنی گرفتاری کے چند گھنٹوں کے اندر مارے گئے-
ایک اسکول کے طالب علم نے، جس کے نام کی شناخت نہیں کی گئی ہے، مبینہ طور پر پولیس اسٹیشن میں داخل ہوکر پولیس افسروں کی نظروں کے سامنے ان کو قتل کر دیا- اس کم سن نوجوان کو کس جذبے نے اس بہیمانہ قتل کی ترغیب دی؟
شاید توہین مذہب کے دوسرے جتنے قتل ہوئے ہیں اور جس طرح ان کی تشہیر کی گئی اس نے یہ جذبہ بیدار کیا- یا پھر شاید اسے کسی جنونی نے یہ قتل کرنے پر اکسایا-
وہ نوجوان لڑکا ممتاز قادری کو دیکھتے ہوئے جوان ہوا، گورنر سلمان تاثیر کا قاتل جسے لوگوں نے پھولوں کے ہار پہناۓ، جس کے نام پر اسلام آباد میں ایک مسجد کا نام بھی رکھا گیا اور اس کی قد آدم تصویریں بھی اکثر عوامی مقامات پر نظر آتی ہیں-
کیا پتہ اس نوجوان قاتل سے یہ بھی کہا گیا ہو کہ ایسی ہی شہرت اس کا بھی انتظار کررہی ہے-
وہ اسی معاشرے کی پیداوار ہے جو اس طرح کے عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور مذہب کے نام پر قتل کرنے والے کو عزت کا درجہ دیتا ہے اور قانون کے رکھوالے ان ‘مقدس قاتلوں’ کو سزا دینے سے گھبراتے ہیں-
یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں قادری کو سزا دینے کے فیصلے کے بعد جج کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا- کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اسلام آباد کی عدالت آج تک اس فیصلے کی توثیق سے کتراتی ہے-
چند دنوں کے اندر اندر توہین مذہب کے تعلق سے یہ دوسرا قتل ہے- انسانی حقوق کے سرگرم کارکن راشد رحمان کے قاتل آج بھی آزاد پھررہے ہیں اس کے باوجود کہ انہیں دھمکی دینے والوں کے نام کا سب کو علم ہے- افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ اگر گرفتار ہو بھی گئے تو بھی انہیں سزا نہیں ملے گی اور اس طرح یہ ممکنہ ‘مقدس قاتلوں’ کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے گا-
خلیل احمد کے کیس میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قاتل پولیس اسٹیشن کے اندر داخل ہوجاتا ہے اور اسے پولیس کی تحویل میں قیدی کو بھی قتل کرنے سے نہیں روکا جاسکتا ہے-
یہ واقعہ وسطی پنجاب کے ایک گاؤں میں ہوا جو لاہور سے زیادہ دور نہیں ہے- کسی بریکنگ نیوز کا موضوع نہیں بنا اور نہ پرنٹ میڈیا نے اسے زیادہ اہمیت دی، اس کی ممکنہ وجہ شاید یہ ہو کہ مقتول احمدی تھا-
احمد کو تین اور لوگوں کے ساتھ توہین مذہب کے الزام میں ایک دوکاندار سے جھگڑے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا- ایک ستائی ہوئی مذہبی اقلیت، جس کے افراد یوں بھی بہت آسانی سے الٹے سیدھے الزامات کا نشانہ بنتے ہیں، اور جو متعصب عناصر کو قتل عام کا کھلا لائیسنس دیتا ہے- اس قسم کے ماحول میں کم سن قاتلوں کی افزائش بالکل عام اور متوقع بات ہے-
یہ سب اس وقت شروع ہوا جب ریاست نے کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اپنے فرائض کا حصہ سمجھ لیا اور مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنانے کے قوانین رائج کئے-
اس کا منطقی نتیجہ تو یہی نکلنا تھا کہ عام لوگ بھی ذاتی وجوہات کی بناپردوسروں کے مذہبی اعتقادات پر اپنے فیصلے صادر کرنے لگے- مُلّاؤں نے قانون کی پاسبانی کا فرض سنبھال لیا ہے اس لئے کہ ریاست کی بالادستی تیزی سے معدوم ہو رہی ہے-
درحقیقت، توہین مذہب کا قانون جبر کا ایسا ہتھیار بن گیا ہے کہ وہ لوگ جو ملزم کا مقدمہ لڑتے ہیں وہ بھی اس کا شکار ہوجاتے ہیں- کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ سابق وزیر اطلاعات شیری رحمٰن کے خلاف بھی توہین مذہب کا مقدمہ دائر کیا گیا تھا- انہوں نے اس قانون میں طریقہ کار کی کچھ تبدیلیوں کا مشورہ اسمبلی میں پیش کیا تھا-
اس قانون کے غلط استعمال کی ایک بہت نمایاں مثال پچھلے ہفتے سامنے آئی جب 68 وکیلوں کے خلاف توہین مذہب کا الزام اس لئے لگایا گیا تھا کہ وہ ایک پولیس افسر کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے جس کا نام "عمر” تھا-
ہر پاکستانی کے سر پر جبر کی یہ تلوار لٹکی ہوئی ہے، ہماری مذہبی اقلیتوں پر تو اور بھی زیادہ- اگر کسی پر یہ الزام ایک بار بھی لگ گیا تو اسے اس کیلئے موت کا پیغام سمجھئے-
جس طرح سے مخالف چینل میڈیا کی جنگ میں ایک دوسرے کے خلاف توہین رسالت کے مقدمے درج کرارہے ہیں وہ ایک قابل نفرت عمل ہے- بے شمار مواقع پر ‘کرائے کے مُلّاؤں’ کے فتووں کے ذریعہ دوسرے چینل کو غیراسلامی قرار دیاجاچکا ہے-
مُلّاؤں کے مزے آگئے ہیں اور وہ ٹی وی اسکرین پر چھائے ہوئے ہیں- جو بات چینلز نہیں سمجھ پارہے ہیں وہ یہ ہے کہ اس غلیظ جنگ سے کوئی بھی صحیح سلامت باہر نہیں آسکے گا- اور اس وقت جو چیز واقعی خطرے میں ہے وہ میڈیا کی بڑی مشکلوں سے حاصل کی ہوئی آزادی ہے- اور اب تو ڈر یہ ہے کہ مُلّا ہی یہ فیصلہ کریں گے کہ ٹی وی پر کیا دکھایا جائے-
فتووں کی اس جنگ سے کچھ ٹی وی کے میزبانوں اور ملازمین کی جانوں کو بھی خطرہ ہے، جن میں سے کچھ تو چھپ گئے ہیں یا ملک بھی چھوڑ گئے ہیں- یہ ٹوٹی پھوٹی اور غیر فعال ریاست ان لوگوں کو تحفظ نہیں دے سکتی ہے جو گولیوں کی بوچھاڑ میں آجاتے ہیں-
چند سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا اپنے نقادوں کے خلاف حساب برابر کرنے کے مقصد سے نفرت کی مہم بھڑکانے کا عمل قابل ملامت ہے- ریاستی اداروں کا پراکسی جنگوں میں مذہب کا استعمال ایک نہایت خطرناک کھیل ہے جس سے انتہا پسندوں کی ہمتیں اور حوصلے بڑھتے ہیں-
نتیجتاً، انتہا پسند مُلّاؤں کو ایک مرتبہ پھر اس سیاسی دھما چوکڑی میں مرکزی حیثیت حاصل ہورہی ہے- وہ فوج کی حامی ریلیوں میں قیادت کرتے ہوئ
ے دکھائِی دیتے ہیں، ہاتھوں میں فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کی قدآدم تصویریں اٹھائے ہوئے اور ٹی وی پر آکر اپنا زہریلا پروپیگینڈا ناظرین پر تھوپتے ہیں-
وہ یقیناً اس موقع سے فائدہ اٹھانا اور اپنی خدمات سب سے بڑی بولی لگانے والوں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں- سویلین اور فوج کے درمیان تناؤ، اور میڈیا کے ذریعے ان کی پراکسی جنگ نے، ویسے بھی انتہاپسند مذہبی گروہوں اور مُلّاؤں کومزید طاقت بخشی ہے- اس صورت حال کے نتیجے میں معاشرے میں مزید تشدد پھیلے گا-
یہ ماحول نہ صرف یہ کہ مزید کم سن خودکش بمبار بلکہ خلیل احمد کے قاتل کی طرح کے کم عمر قاتلوں کو پیدا کرنے کا سبب ہوگا- مذہبی انتہاپسندی اور بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رویئے نے ملک کو منتشر اور تقسیم کردیا ہے جہاں مذہب یا کسی بھی اہم مسئلے کے بارے میں عقلی بحث کی کوئی بھی گنجائش نہیں ہے-
مزید خرابی یہ ہے کہ اس انتہائی خطرناک صورت حال سے نمٹنے میں ناکامی کی وجہ سے ہم ریاست کو بکھرتا ہوا دیکھ رہے ہیں- مذہب کا اور انتہاپسند ملاؤں کا طاقت کے اس کھیل میں پراکسی کے طور پر استعمال ایک ایسا تباہ کن رجحان ہے جس نے ملک کی وحدت کو داؤ پر لگا دیا ہے-