دہشت کا ٹرائیکا
تحریر: ندیم سعید
شیعہ نیوز: پاکستان سے لیکر عراق اور صومالیہ سے نائجیریا تک تنگ نظر اسلام کے پیروکاروں نے دہشتگردی اور بربریت کا جو بازار گرم کر رکھا ہے وہ سرد جنگ میں سوویت یونین اور دنیا بھر کی ان سیکولر حکومتوں کے خلاف عالمی جہاد کا شاخسانہ ہے جو امریکی سامراجیت کے خلاف تھیں۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ اس بین الاقوامی جہاد کا معمار، سعودی عرب مالی معاون اور پاکستان بیس کیمپ رہا ہے، اور تمام باہمی بدگمانیوں اور اختلافات کے باوجود دہشت کا یہ ٹرائیکا اب بھی ہمرکاب ہے۔
تینوں کا شدت پسندوں سے کوئی جھگڑا نہیں اگر وہ حسب سابق صرف ان کے اشاروں پرناچتے رہیں اور ان کے لیے کوئی خطرہ نہ بنیں۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی اپنے ہی پیدا کردہ جہاد سے اس وقت گھبراتے ہیں جب انہیں یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ ان کے اپنے مسلمان شہری اس سے متاثر ہو کر کہیں دوبارہ ’نائن الیون‘ یا ’سیون سیون‘ نہ کر دیں۔
سعودی حکمرانوں کو القاعدہ کی صرف اس بات سے اختلاف ہے کہ وہ ان کے اقتدار کوبھی چیلنج کرتی ہے۔عراق میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتی اور سروں کی فصل کاشت کرتی’آئی سس‘ سے انہیں کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ وہ عراق اور شام میں سنی خلافت قائم کرنا چاہتی ہے۔ آئی سس کو اگر آج دنیا کی سب سے امیر دہشتگرد تنظیم کہا جا رہا ہے تو اس کے پیچھے ریال ہیں جو بشارالاسد کا انجام صدام اور قذافی جیسا چاہتے ہیں۔
قذافی اور صدام آمر تھے لیکن کیا ’ہاؤس آف سعود‘ جمہوریت پسند ہے جسے امریکہ خوش رکھنا ضروری سمجھتا ہے۔ قطر میں کونسی جمہوریت ہے جہاں امریکی دفاعی ادارے ’سینٹ کام‘کا آپریشن سنٹر ہے۔مصر میں جنرل السسی کا اقتدار مغربی جمہوریت پسندی پر کئی سوال چھوڑتا ہے۔ مغربی دوہرے معیار کی ایسی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جہاں جمہوریت اور سیکولرازم کے مقابلے میں آمروں اور مذہبی شدت پسندوں سے گٹھ جوڑ کو ترجیح دی گئی۔
اپنے عدالتی ٹرائل کے دوران صدام حسین نے عراقی عوام کو خبردار کیا تھا کہ ’وہ اندھیروں میں رہینگے اور خون کے دریا بہیں گے‘ اگر ملک میں فرقہ پرستی بڑھی۔ اس کی کہی ہوئی بات آج سچ ثابت ہورہی ہے۔ عراق میں پہلے سے موجود سنی شیعہ تفریق کو مزید تیز امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پروردا مالکی حکومت نے کیا۔
عراق کے آخری انتخابات میں سیکولر’العراقیہ‘ پارٹی نشستوں اور پاپولر ووٹ کے لحاظ سے فاتح رہی لیکن اقتدار دوسرے نمبر پر آنے والے مختلف جماعتوں کے اتحاد’ایتلاف دولت القانون‘ کو دیا گیا جس کی قیادت نوری المالکی کر رہے تھے، جن کی سیاست فرقہ واریت پر مبنی ہے۔
بشار الاسد کو منظر سے ہٹانے کے لیے شام میں ان اسلامی شدت پسندوں کی مالی و اخلاقی مدد کی جا رہی ہے جو اس کے خلاف فرقہ وارانہ بغض رکھتے ہیں، حالانکہ بشارالاسد حکومت سیکولر ہے جبکہ مشرف اور السسی جیسے انتخابات بھی باقاعدگی سے کراتی رہتی ہے۔
یہی دوہراپن دہشت کے ٹرائیکا کے تیسرے ملک پاکستان کے مستقل حکمرانوں کا طرہ امتیاز ہے۔انہیں اندرون ملک جس دشمن کا سامنا ہے وہ درحقیقت انہیں کا لگایا ہوا پودا ہے، اور آج بھی اس دہشت کی پرورش گاہیں میڈیا کے خلاف محاذ میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔اسی مذہبی کٹر پن کو پہلے بنگالیوں کے خلاف استعمال کیا گیا اور اب بلوچوں کے خلاف کیا جا رہا ہے، اور کبھی کبھی ہمسایوں کا بازوں مروڑنا ہو تو بھی یہ ہتھیار کارگر ثابت ہوتا ہے۔
لیکن انہیں میں سے اگر کوئی پلٹ کر جی ایچ کیو، کامرہ یا کراچی ائیرپورٹ پر پاکستان کا نائن الیون، سیون سیون یا چھبیس گیارہ کردے تو پھر آپریشن ناگزیر ہوجاتا ہے۔
امریکہ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد کپڑے جھاڑ کر افغانستان سے نکل گیا تھا لیکن نائن الیون کے بعد اسے دوبارہ آنا پڑا اور اب تیرہ سال سے وہیں ہے۔ اب پھر جا رہا ہے اور لگتا ہے بعد میں افغانستان بھی عراق کی طرح ’پیراشوٹ جمہوریت ‘ہضم نہیں کر پائے گا اور ملک پشتون اور غیر پشتون علاقوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ پشتون علاقہ طالبان جبکہ غیر پشتون سابقہ شمالی اتحاد کے ’وار لارڈز‘ کے زیر نگیں ہو جائے گا۔
امریکہ کو افغانستان کی طرح اب عراق میں بھی دوبارہ آنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان آرمی بھی حالیہ چند سالوں میں کئی آپریشن اور امن معاہدے کر چکی ہے لیکن دہشت ایک علاقے سے نکل کر دوسرے میں اپنی پناہ گاہ بنا لیتی ہے۔آپ خسارے کی فصل تلف کر دیتے ہیں لیکن بیج وہیں رہنے دیتے ہیں۔
شدت پسندی کی نرسریاں اگر لشکر طیبہ، جیش محمد، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور تبلیغی جماعت کی شکل میں کام کرتی رہیں تو دہشت گرد طالبان یا کسی اور نام سے پاکستان کو بھی مکمل اندھیروں میں دھکیل دیں گے۔
بشکریہ: آر یو وی آر