مضامین

لشکر جھنگوی کے خلاف کاروائی کی سفارش مگر؟

تحریر: طاہر یاسین طاہر

قتل چھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب تو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کے بیچ

شیعہ نیوز: محسن نقوی نے یہ شعر یقیناً کسی دہشت گرد گروہ کی سفاکانہ قتل گری کو سامنے رکھ کر ہی لکھا ہوگا۔ صرف لکھا ہی ہوگا؟ نہیں بلکہ اس شعر میں طرح دار سید زادے نے قاتلوں کو تاریخ بھی یاد کرائی کہ ان کے آباء بھی ایسی ہی قتل و غارت گری کو پسند فرماتے تھے، مگر وہ لاشوں کا مثلہ کرنے کے بجائے زندہ انسانوں کو دیواروں میں چنوا دیا کرتے تھے۔ آج کے قاتل مگر اپنے آباء کی قاتلانہ و سفاکانہ روایت کو درندگی کے نئے نئے زاویوں سے روشناس کرا رہے ہیں۔ شعر اپنی جگہ بہت عمدہ مگر تاریخ ایسی بھی درخشاں نہیں کہ ہم آج کے بجائے ماضی کے قاتلوں کو ’’رحم دل‘‘ کہیں۔ ہماری تاریخ کے دامن پر کربلا کے واقعہ کا داغ بھی ہے اور فرات کے بہتے پانی میں پیاسوں کے لہو کی بوندیں بھی۔ قاتل کا شجرہ گھوم پھر کر شمر و یزید تک ہی جائے گا۔ مقتول مگر مظلوم امامؑ کی سنت کو اپنے لہو کی بوند بوند سے زندہ رکھے ہوئے ہے۔ کربلا میں بھی ایک لشکر تھا، یزید کا لشکر، آج بھی ایک لشکر ہی ہے، لشکرِ جھنگوی۔

قاتلوں کا ایک پورا قبیلہ، جو شیعہ مسلمانوں کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہے، یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے ہر قاتل کو یہ کہہ کر قتل کے لیے روانہ کرتے ہیں کہ تم جوں ہی کسی شیعہ کو قتل کرو گے، اس کے بدلے میں تمہارے لیے جنت میں ایک عالی شان محل تعمیر کر دیا جائے گا۔ یہ اپنے خودکش حملہ آوروں کو یہ کہتے ہیں کہ جوں ہی تم بم کے ساتھ ہوا میں اڑو گے، سیدھے جنت میں حوروں کے پاس چلے جاؤ گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کون سی جنت؟ وہی جنت جس کے ایک سردار کا نام حسن ؑ اور دوسرے کا نام حسین ؑ ہے؟ جیسا فہمِ اسلام ہوگا ویسا ہی جنت کا فہم بھی ہوگا۔ تنگ نظر، کج فہم، قاتل اور ظالم نہ تو اسلام کی کسی روایت کے امین ہوسکتے ہیں اور نہ ہی وہ اسلام کی روح اور اس کی تعلیمات کو درست طرح سمجھ سکتے ہیں۔

جن کا فکری منتہا ہی یہ ہو کہ حسین ؑ کے نام لیواؤں کا قتل ہی اصل اسلام اور جنت میں جانے کا پروانہ ہے، ان کی فتنہ پروری پر کسی بھی طرح کی دلیل نہیں دی جاسکتی، کیا ظالم کے ظلم کا بھی کوئی جواز ہوا کرتا ہے؟ ایک فکری کجی ہے، جو ان کے لہو میں بسی ہوئی ہے۔ آبائی روایات کو جب تصورِ دین کے ساتھ گڈ مد کر دیا جائے تو فتنہ پھوٹتا ہے۔ اسلام مگر صرف اور صرف سلامتی کا دین ہے، رواداری اور اخوت کا۔ طالبان ہوں یا داعش والے، لشکرِ جھنگوی ہو یا لشکرِ طیبہ، یہ نہ تو اسلام کے نمائندے ہوسکتے ہیں اور نہ ہی انسانیت کے۔ تمام مذاہب انسان کو اخلاقیات سکھاتے ہیں، عبادات تو ملائک بھی کرتے ہیں۔ ان لوگوں نے مگر اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیا۔ کیا واقعی چھوڑ دیا؟ نہیں، ان کے ہاتھ اخلاقیات کا دامن تھا ہی نہیں، جو بہت کریدنا چاہے گا، تاریخ اس کے سامنے آئینہ لئے کھڑی ہے۔

موضوعات کی روانی ایسی کہ ہر موضوع پر ایک کالم ممکن ہے۔ گرچہ طبیعت ساتھ نہیں دے رہی، حبس، گرمی اور لوڈشیڈنگ، لیکن موضوع کو چھوڑا نہیں جاسکتا۔ انٹرنیٹ پر ’’جہاں گردی‘‘ کر رہا تھا کہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے صٖفحے پر نظر پڑی۔ ایک بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم کی سفارش، کہ پاکستانی حکومت لشکرِ جھنگوی کے خلاف کارروائی کرے۔ سوال مگر یہ ہے کہ حکومت اس کے خلاف کارروائی کیوں کرے؟ اس سوال کا جواب بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے دیا ہے۔

بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان میں شیعہ مسلمانوں بالخصوص ہزارہ برادری کے قتل پر اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’حکومتی افسران اور سکیورٹی فورسز کو سمجھنا چاہیے کہ لشکر جھنگوی کے مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے یہ بات 62 صفحوں پر مشتمل اپنی رپورٹ ’’ہم زندہ لاشیں ہیں‘‘ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں شیعہ ہزارہ ہلاکتیں میں کہی ہے۔ ہیومن رائٹس کے ایشیا کے ڈائریکٹر بریڈ ایڈمز کا کہنا ہے: حکومتی افسران اور سکیورٹی فورسز کو سمجھنا چاہیے کہ لشکر جھنگوی کے مظالم کے خلاف کارروائی کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ ہزارہ اور دوسری شیعہ برادری کے قتلِ عام پر بے عملی نہ صرف اپنے ہی شہریوں سے بے حسی اور بے وفائی ہے بلکہ اس کا مطلب جرائم کیجاری رہنے میں حصہ دار بننا ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ 1947ء میں پاکستان کے قیام کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ اموات کے حوالے سے سب سے زیادہ خونریزی جنوری اور فروری 2013ء میں ہوئی، جب شیعہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 180 افراد کا قتل ہوا۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ اموات محض دو حملوں میں ہوئیں، جن میں سے ایک سنوکر کلب کا واقعہ تھا اور دوسرا سبزی منڈی حملہ۔ ان دونوں حملوں کی ذمہ داری کالعدم تنظیم لشکرِ جھنگوی نے قبول کی تھی۔ ہیومن رائٹس واچ نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان تمام عسکری گروہوں، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں، بالخصوص لشکر جھنگوی، ان کا احتساب کیا جائے اور ان کو غیر مسلح اور منتشر کیا جائے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق بلوچستان میں متعین فوجی اور غیر فوجی سکیورٹی فورسز نے ہزارہ برادری پر حملوں کی تفتیش کے سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا اور نہ ہی آئندہ کے لیے کوئی حفاظتی اقدامات کی
ے ہیں۔

بلاشبہ لشکرِ جھنگوی اپنے دیگر فکری ہم نواؤں کے ہمراہ شیعہ مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث ہے، خصوصاً زائرین کی جس طرح ٹارگٹ کلنک کی جا رہی ہے یہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے لمحہء فکریہ ہے، لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس حوالے سے حکومتی زعماء چند ایک بیانات سے آگے نہیں جاتے۔ کیا ریاستی اداروں کو ملک اسحاق اور مولانا احمد لدھیانوی نظر نہیں آرہے؟ لیکن ہم انھیں رانا ثناء اللہ کے ساتھ پھولوں میں لدا ہوا دیکھتے ہیں۔ ایک وزیر قانون کے ساتھ جو بے شک اب سابق ہوچکے ہیں۔ کیا ملک اسحاق قتل اور دہشت گردی کے مقدمات میں سے ’’باعزت‘‘ بری نہیں ہوا؟ کیا یہ لوگ اپنی رہنمائی میں شیعہ کافر کے نعرے نہیں لگواتے اور اس وقت ریاستی تحفظ کے ضامن اداروں کے اہلکار ان کے جلسوں کو سکیورٹی مہیا کر رہے ہوتے ہیں۔

ریاستیں جب اپنے حکومتی معاملات چلانے کے لیے دہشت گرد تنظیموں کے سربراہوں کی طرف دیکھنے لگیں تو ٹوٹ پھوٹ ان ک مقدر ہو جایا کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شمالی ویرستان میں ’’غیر ملکی دہشت گردوں‘‘ کے خلاف شروع کیا گیا آپریشن ضربِ عضب شمالی وزیرستان سے جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں ان ملکی دہشت گردوں کے خلاف بھی کیا جائے جو ’’غیر ملکی دہشت گردوں کے میزبان‘‘ اور ریاست کو کمزور کرنے کا اصل سبب ہیں۔ طالبان و لشکرِ جھنگوی اور ایسی ہی دیگر تنظیموں کے خلاف جب تک ایک گرینڈ اور فیصلہ کن آپریشن نہیں کیا جائے گا ملک میں اس وقت تک دائمی امن ممکن نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button