پاکستان میں انقلاب؟ (خصوصی کالم)
تحریر: ثاقب اکبر
آج کل پاکستان میں ’’انقلاب‘‘ کا شوروغوغا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر، بریکنگ نیوز میں، پریس کانفرنسوں میں، دھرنوں اور مظاہروں میں غرض انقلاب ہی انقلاب ہے۔ یہ انقلاب طرح طرح کا ہے۔ تحریک انصاف کا انقلاب ہے۔ شیخ الاسلام کا انقلاب ہے، قاف لیگ کا انقلاب ہے۔ ملتوی ہوجانے والے ٹرین مارچ کا انقلاب ہے۔ انقلاب ہے کہ کہیں تھمتا نہیں۔ تاریخ نے گذشتہ صدی میں کئی ایک انقلابات کا مشاہدہ کیا ہے۔ فوجی اور آمریت کے انقلاب آئے اور چلے گئے۔ اسے معاشرے کا انقلاب کہنے کے بجائے قبضہ گروپ کی ’’تبدیلی‘‘ کا انقلاب کہہ سکتے ہیں۔ گویا اقتدار کی کرسی کو الٹا کرکے اور جھاڑ کر نئے قبضہ گروپ کا لیڈر بیٹھ گیا، اس طرح انقلاب آگیا۔ ابھی حال ہی میں مصر میں جنرل سیسی کا انقلاب ایسے ہی انقلاب کا ایک زرّیں نمونہ ہے۔ زرّیں اس لیے کہ اسے بیرونی مال و زر کی بھی فوری ضرورت تھی جو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پوری کر دی اس طرح یہ ایک زرّیں انقلاب بن گیا۔
ایک انقلاب لیبیا میں بھی آیا۔ اسے ’’آسمانی طاقت‘‘ کے ذریعے قوی کیا گیا کیونکہ پہلا کرسی نشیں انقلاب بھی فوجی تھا۔ اسے تبدیل کرنے کے لیے آسمانی فوج کی ضرورت تھی۔ ایک اور انقلاب کی داغ بیل شام میں ڈالی گئی۔ خون چوسنے والی آکاس بیلیں ہر طرف سے بُوٹوں اور پودوں پر چڑھ آئیں لیکن مالی ذرا سخت مزاج اور ’’ہٹ دھرم‘‘ واقع ہوئے۔ انھوں نے بہت سی آکاس بیلیں کاٹ پھینکیں۔ بیرونی مالیوں نے پانی کی طرح پیسہ بہایا اور بارود کی ہوا اُڑائی لیکن کام بنتا دکھائی نہ دیا۔ پھر آکاس بیلیں، اے کاش بیلوں میں بدلنے لگیں اور ایک دوسرے پر پل پڑی۔ ان دنوں شام سے ناکام پلٹنے والے انقلاب نے عراق سے سینگ نکالے ہیں۔ دیکھئے پروانوں پر کیا گزرے سحر ہونے تک۔
ان حالیہ انقلابی ہواؤں نے حقیقی انقلابات کا چہرہ بھی دھندلا دیا۔ ایک انقلابِ فرانس تھا جس نے فرانس ہی نہیں مغرب کا سماجی، سیاسی اور معاشی رُخ تبدیل کر دیا۔ ایک انقلابِ روس تھا۔ ستّر برس تک مغربی سرمایہ داری سے سر پٹختا رہا۔ ایک دنیا کو اس نے گرویدہ کر لیا۔ غریبوں اور مزدوروں کو اس نے نئی امیدوں اور ولولوں سے سرشار کیا لیکن اپنی داخلی بوسیدگی کی طرف متوجہ نہ ہوسکا، آخر کار یہی بوسیدگی جب حد سے بڑھی تو اپنے ہی قدموں پر آ گرا۔ ایک انقلاب 1979ء میں امام خمینی کی قیادت میں ایران میں وقوع پذیر ہوا۔ اس نے لاشرقیہ لا غربیہ، اسلامیہ جمہوریہ کا نعرہ بلند کیا۔ ستم شاہی کے دور کا خاتمہ کیا۔ اس کی بنیاد معاشی نہیں روحانی تھی۔ عالمی سامراج نے اسے پلٹنے کے لیے سو حیلے کئے لیکن یہ ابھی تک نہ فقط مستحکم ہے بلکہ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے البتہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ یہ امتحاں داخلی بھی ہیں اور خارجی بھی۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کس طرح کے انقلاب کی طرف بڑھ رہا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے چند پہلو قابل غور ہیں۔
’’انقلابی راہنماؤں‘‘ کی فکر کیا ہے۔؟ ان کا تصور انقلاب کیا ہے،؟ انھوں نے کیا راہ انقلاب انتخاب کی ہے،؟ ان کے ساتھی کیسے ہیں،؟ ان کی اپنی زندگی کیسی ہے، شاہانہ یا عوامی،؟ ان کے ذرائع و وسائل کیا ہیں،؟ ان کا ماضی کیا ہے،؟ وغیرہ۔ کیا واقعی یہ ضمنی موضوعات اہم ہیں یا نہیں؟
دنیا میں جن عظیم شخصیات نے زمان و مکان، فکر و روح، فرد و معاشرہ کو بہت زیادہ متاثر کیا اور ان کی تاثیر زمان و مکان کی سرحدوں کے اُس پار مسلسل اپنا اظہار کر رہی ہے، ان میں سے ایک بہت بڑا نام حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے۔ وہ جب ’’اتر کر حرا سے سوئے قوم آئے‘‘ تو اللہ کے حکم سے کوہِ صفا پر بلند ہوئے۔ اس سرزمین میں رائج طریقے سے لوگوں کو پکارا۔ مکہ کے لوگ اکٹھے ہوئے تو اپنا پیغام انقلاب دینے سے پہلے اپنی شخصیت کے بارے میں دریافت کیا۔ مجھے کیسا سمجھتے ہو؟ تفصیلات سے قطع نظر سب نے آپ کی صداقت کا اعتراف کیا۔ سب نے آپ کو ’’صادق‘‘ قرار دیا۔ آپؐ کا پیغام قبول کیا یا نہ کیا، آپ کا ’’آسمانی کلمہ‘‘ پڑھا یا نہ پڑھا، آپ کی ’’صداقت‘‘ کا کلمہ ضرور پڑھا۔
استاد مرتضٰی مطہری پیرس میں امام خمینی سے ملاقات کرکے واپس تہران پہنچے۔ انقلاب کی چاپ نمایاں ہوتی جا رہی تھی۔ 1978ء کی بات ہے۔ انھوں نے واپس پہنچ کر اپنے ایک انٹرویو میں بانئ انقلاب کے بارے میں جو باتیں کیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ ’’میں ایسے شخص سے ملاقات کرکے آرہا ہوں کہ وہ جو بات بھی کرتا ہے اس پر ایمان رکھتا ہے۔‘‘آج کل پاکستان میں’’انقلاب‘‘ کا شوروغوغا ہے۔ اگر ہمارے قارئین کو ٹی وی چینلوں، بریکنگ نیوز، پریس کانفرنسوں، دھرنوں اور مظاہروں سے کچھ فرصت ملے تو ہماری گذارش پر بھی غور فرمائیں۔
انقلاب کے بہت سے داعیوں کے ماضی پر نظر ڈالیں۔ ان میں ’’صداقت‘‘ کا عنصر تلاش کریں۔ یہ کتنے سچے ہیں۔ چلیں اس سخت پیمانے کو چھوڑیے کتنے خود کو بدلنے پر آمادہ ہیں۔ کتنے اپنی ذات میں انقلاب کے قائل ہیں۔ کتنے اپنی کہی ہوئی بات پر ایمان رکھتے ہیں۔ کس کی بات ابہام سے خالی صریح اور دو ٹوک ہے۔ ہم کسی کا نام لیتے ہیں اور نہ کسی کے جذبۂ انقلاب کی نفی کرتے ہیں۔ ہم صرف یہ تمنا کرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انقلاب، انقلاب کے اس شور اور ہنگامے کے نتیجے میں ہم منزلِ انقلاب ہی سے دور ہوجائیں، ہم فریب کھا کر انقلاب ہی متنفر نہ ہوجائیں۔ ہم جس دوراہے
پر آج کھڑے ہیں اور انقلاب کا راستہ ہمیں پکار رہا ہے، کہیں ہم کسی اور سمت میں ہی نہ چل پڑیں۔ جب ہر طرح کے لوگ انقلاب انقلاب کہہ رہے ہوں اور ہر طرف ہنگاموں اور دھرنوں کی دھول اُڑ رہی ہو تو حقیقی انقلاب کا چہرہ بھی دھندلا جاتا ہے۔
وہ لوگ جو ہر ہنگامے کی رونق بڑھانے کے لیے اس لیے پہنچ جاتے ہیں تاکہ میڈیا میں اِن (IN) رہیں، انھیں کیمروں کے سامنے رہنے کا ہنر آتا ہے۔ خاص طرح کے عنوان اور بہروپ اختیار کرکے فوراً وہاں پہنچ جاتے ہیں، جہاں بریکنگ نیوز کے متلاشی کیمرے اکٹھے ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا فقرِ فکر، غربت دانش، افلاسِ حکمت اور آوارگئ آرزو کا جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ اگر کسی کے اپنے دامن میں دانش کے موتی ہیں تو وہ دوسروں کے چمکتے سنگریزوں کی طرف للچائی ہوئی نظر سے کیوں دیکھے گا۔
پاکستان میں انقلاب سے کیا مراد ہے؟ ہر صاحب فکر اور اہل درد کو تنہائی میں بیٹھ کر پہلے اس سوال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ زبان و بیان، رنگ اور جغرافیے، فرقے اور مسلک کی بنیاد پر لوگوں کو اپنے گرد جمع کرنے والے اس ملک میں انتشار و افتراق کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہیں کریں گے۔ کسی خاص گروہ یا خاندان کو اپنی پارٹی یا جماعت پر مسلط کر دینے والوں سے انقلاب کی توقع نہیں کی جاسکتی، دوسروں کے لیے احتساب کی آواز بلند کرنا، اسے زیب دیتا ہے جو اپنے آپ کو سب سے پہلے احتساب کے لیے پیش کرے۔
ایک آزاد و خود مختار پاکستان، جس کی قسمت کے فیصلے اس سرزمین پر ہوں، ایک ایسا ملک جہاں قانون سب کے لیے مساوی بھی ہو اور نافذ بھی ہو۔ ایسی دھرتی جہاں کے وسائل پر اس کے سب بسنے والوں کا برابر کا حق ہو، ایسا وطن جہاں کے لوگ آزادی سے اور بغیر کسی دباؤ یا لالچ کے اپنے لیے حکمرانوں کا انتخاب کرسکیں، جہاں ہر مذہب و ملت اور ہر مسلک و مرام کے لوگ اپنی جان، مال اور آبرو کو محفوظ محسوس کریں اور اپنے امور میں آزاد ہوں، جہاں قانون سازی ایک گروہ یا حکمران طبقے کے مفاد میں نہیں بلکہ سارے ہم وطنوں کے مفاد میں ہو، ایسا ملک جہاں مظلوم کی داد رسی ہو اور ظالم کے خلاف بلا خوف قانون حرکت میں آتا ہو، جس کی خارجی پالیسی بھی ظالم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت کے اصول پر استوار ہو۔۔۔ ایسے ملک کا خواب دیکھنے والے، ایسے ملک کے لیے جدوجہد کرنے والے، اپنے وطن کو ان بنیادوں پر تعمیر کرنے کے لیے بے قرار رہنے والے اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے آمادہ شخص۔۔۔ جو قول و فعل میں یکسانیت کا حامل ہو، تو اسے انقلابی جانیے۔ اس کا ساتھ دیجیے۔ حق کو باطل سے نہ ملائیے۔ حق ضرور غالب آئے گا اور باطل رسوا ہوجائے گا لیکن اس کے لیے تماشا گروں سے بچ کر حقیقی انقلاب کا شعور رکھنے والوں کی شناخت ضروری ہے۔ ہر معاشرے میں ایسے افراد ضرور مل جاتے ہیں جو یہ کہنے میں حق بجانب ہوتے ہیں کہ:
ہم نے جھیلے ہیں اپنے سینے پر
آپ نے انقلاب دیکھے ہیں