بہادر فوج کا بزدل جرنیل ۔۔۔۔؟
تحریر: تصور حسین شہزاد
پاک فوج کے سابق ترجمان جنرل اطہر عباس نے سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ فوج نے شمالی وزیرستان میں 2010ء میں ہی فوجی آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، مگر آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی ہچکچاہٹ کا شکار ہوگئے اور یوں دہشت گردوں کے خلاف یہ کارروائی نہ ہوسکی۔ جنرل اطہر عباس کے بقول قبائلی علاقے میں موجود فوجی کمانڈروں کی متفقہ رائے تھی کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہر طرح کے شدت پسند علاقے میں جمع ہوچکے تھے مگر اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی تذبذب کا شکار رہے، کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ آپریشن کی اس کارروائی کو ان کا ذاتی فیصلہ تصور کر لیا جائے گا، سابق آرمی چیف کی اس گومگوں پالیسی کے سبب بدقسمتی سے بہت سا وقت ضائع ہوگیا، جس سے شدت پسند قوت پکڑ گئے۔ ملک، قوم اور فوج کو اس سردمہری کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔
آئی ایس پی آر کے سابق سربراہ جنرل اطہر عباس کا یہ تہلکہ خیز انکشاف سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے خلاف ایک طرح کی چارج شیٹ ہے، جس پر جنرل کیانی کو عوام کی عدالت کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر قانون کی عدالت میں بھی طلب کیا جاسکتا ہے۔ بالخصوص اس امر پر کہ جب عسکری ہائی کمان متفقہ طور پر 2010ء میں شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے حق میں ہی رائے دے چکی تھی اور اس وقت کی سیاسی حکومت کو بھی انہی ملکی مفاد میں دہشت گردوں کے خاتمہ کا کہہ چکی تھی تو پھر انہوں نے دروغ گوئی سے کام لے کر حکومت سے یہ کیوں کہا کہ کامیابی کے امکانات محدود ہیں۔ جنرل اطہر عباس کے بیان سے یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی ملک و قوم کے مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد کے تابع فیصلہ سازی کرتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے عہدے کی میعاد میں بھی 3 سال کی توسیع قبول کر لی تھی جسے اس وقت بیش تر حلقوں میں پسند نہیں کیا گیا۔ اس تناظر میں جنرل کیانی کے کردار کی کمزوریاں ابھر کر سامنے آئی ہیں اور انکے شخصی تاثر کو سخت ٹھیس پہنچی ہے کہ وہ ایک پرعزم، خالصتاً پیشہ وارانہ سپاہی تھے۔
تازہ ترین انکشاف سامنے آنے کے بعد جنرل کیانی کی شخصیت کا خاکہ ایک کمزور، عاقبت نااندیش اور محدود سوچ رکھنے والے خود پسند اور خود غرض جرنیل کے طور پر ابھرے کر سامنے آتا ہے اور شاید یہی وہ خوبیاں تھیں جو انہیں اپنے پیش رو جنرل مشرف کے قریب کئے ہوئے تھیں۔ 2010ء میں آپریشن کی تیاریوں کے باوجود اسے عملی جامہ نہ پہنانا افسوسناک امر ہے۔ جنرل کیانی کی اس مسئلے پر ہچکچاہٹ ملک و قوم کے لئے ہی نہیں بلکہ پاک فوج کے لئے بھی زبردست نقصان کا باعث بنی، جس میں بہت سے قیتمی فوجی جوان اور افسر بھی شہید ہوئے، جنرل کیانی کے ذاتی تحفظات سے جہاں ملکی سلامتی متاثر ہوئی، وہاں ملکی سلامتی کے ضامن ادارے کی عزت و توقیر پر بھی حرف اور پوری دنیا کی بہادر ترین فوج کی جگ ہنسائی ہوئی۔ ساتھ ساتھ ملک وقوم کا اربوں روپے کا نقصان بھی ہوا، جس پر جنرل کیانی سے جواب طلبی کی جانی چاہیے، جنہوں نے اپنے ادارے کی تیار کردہ مبنی برحقیقت رپورٹ کے برعکس اس وقت کی حکومت اور سیاسی قیادت کو گمراہ کیا۔
وقت آگیا ہے کہ فوج کے سابق ان تمام جرنیلوں کا محاسبہ کیا جائے جن کے ذاتی فیصلوں نے ماضی میں ملک و قوم اور فوج کے باوقار ادارے کی پیشہ وارانہ حرمت کو پامال کیا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک ان جرنیلوں کی مجرمانہ غفلتوں اور جاہ پرستیوں کے سبب آج پاکستان معکوس ترقی کا شکار کوناگوں مسائل کے سیلاب میں گھرا ہوا ہے۔ اگر ماضی میں جرنیل فوج کی ہیئت حاکمیہ کا ناجائز فائدہ اٹھا کر من پسند فیصلے لے کر اس ملک پر حکومت نہ کرتے تو ملک میں عدم برداشت کا وہ کلچر فروغ نہ پاتا جس نے آج پاکستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ بنایا ہوا ہے۔ لسانی، مذہبی، گروہی منافرتیں نہ پنپتیں، صوبائی تعصب پیدا ہو کر قومی یکجہتی اور وحدت کی ٹھیس نہ پہنچاتا۔ اگر آج بلوچستان میں اتفراتفری ہے، سندھ میں انتشار ہے، کے پی کے میں شدت پسندی فزوں تر ہے، پنجاب میں بے چینی ہے، قومی ادارے ایک دوسرے سے بدگمان ہیں، سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں اور عوام اپنے حالات کے ہاتھوں مایوسی کے عالم میں زندگی اجیرن کر دینے والے بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں، تو یہ سب ماضی میں نام نہاد فوجی انقلابات کا شاخسانہ ہے، جو چند جرنیلوں اور حکمران اشرافیہ کی باہمی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا نتیجہ تھے۔
جنرل اطہر عباس کے تازہ ترین انکشاف کے بعد تو یہ ضروری ہوگیا ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ساتھ جنرل کیانی کو بھی عدالتی کٹہرے میں کھڑا کرکے ان سے ان سارے اقدامات کی توجیہ و جواب طلبی کی جائے جن کی وجہ سے ملک و قوم اور خود فوج کےادارے کی ساکھ کو زبردست نقصان پہنچا، جس میں ایبٹ آباد واقعے، جنرل ہیڈ کوارٹرز پر جنرل کیانی کی موجودگی میں دہشت گردوں کے قبضہ، اعلٰی فوجی افسروں کی دہشت گردانہ حملوں میں شہادت سرفہرست اور اہم توجہ طلب امور ہیں۔ جنرل اطہر عباس کے بیان کے بعد سپریم کورٹ کو اس پر ازخود نوٹس لینا چاہیے، تاکہ قوم کو پتہ چل سکے کہ جن ہاتھوں میں قوم کی تقدیر کے فیصلے دیئے جاتے ہیں وہ اپنی نااہلیت، غفلت اور پیشہ وارانہ بددیانتی سے ملک اور قوم کو خسارے کی دلدل میں کیوں دھکیلتے ہیں۔ پاکستان
میں ملکی سلامتی کے منافی فیصلے کرنے والوں کا محاسبہ ضروری ہے۔ قوم جہاں جنرل اطہر عباس کے بیان کی روشنی میں شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کو فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے جرات مندانہ کردار پر انہیں بجا طور پر خراج تحسین پیش کرتی ہے تو وہیں پر جنرل کیانی کے ذمہ بھی اس سوال کا جواب دینا تاریخی فریضہ ہے کہ 2010ء میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن نہ کرنے کا فیصلہ انہوں نے کہیں طالبان کے حمایت کے طور پر تو نہیں لیا، یا طالبان کے کسی متوقع ردعمل کے خوف سے، ویسا ہی ردعمل جس کا شکار سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہوئے۔ دونوں صورتوں میں جنرل کیانی کو ایک ایسی فوج کا کمان دار رہنے کا کوئی حق نہیں تھا جس کا موٹو ۔۔۔۔ایمان ۔۔۔۔ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔