امریکا کیخلاف جہاد کا دم بھرنے والے تکفیری طالبان امریکی مصنوعات کے دلدادہ
رپورٹ: ایس اے زیدی
وطن عزیز پاکستان کا امن و امان تہہ و بالا کرنے والی دہشتگرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف اور نعرہ رہا ہے کہ وہ امریکہ سمیت دیگر کفری طاقتوں اور ان کے حواریوں کے خلاف ’’جہاد‘‘ کو اپنا مشن سمجھتی ہے، تاہم مختلف مواقع پر ان کے اس موقف میں تضاد پایا گیا، اور بعض اوقات ریٹائرڈ اعلٰی فوجی افسران اور انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس سے بھی یہ باتیں ثابت ہوئیں کہ طالبان کے کئی گروہوں کی پشت پناہی میں امریکہ بھی ملوث رہا ہے۔ حال ہی میں ایک غیر ملکی ادارے نے ٹی ٹی پی سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکہ کے خلاف جہاد کا دم بھرنے والے طالبان روز مرہ استعمال کی امریکی مصنوعات کو ہی پسند کرتے ہیں۔ شمالی وزیرستان، جہاں آج کل طالبان دہشتگردوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے، کے تاجر اپنے طالبان گاہکوں سے انتہائی خوش تھے، کیونکہ وہ ان سے اعلٰی اور مہنگی امریکی مصنوعات کی سب سے زیادہ خریداری کرتے تھے۔
میرانشاہ سے تعلق رکھنے والے تاجروں نے غیر ملکی میڈیا ادارے کو بتایا ہے کہ امریکہ سے نفرت کا اعلان کرنیوالے طالبان کی پسند ’’سیکریٹ لو اور بلو لیڈی پرفیوم، ڈوو صابن اور اولے کریم‘‘ ہیں۔ تاجر رشید الرحمان کا کہنا ہے کہ طالبان زیادہ تر ’’سیکریٹ لو اور بلیو لیڈی پرفیوم کے علاوہ رساسی کے باڈی سپرے پسند کرتے ہیں، اُنہیں پاکستان کی بنی ہوئی مصنوعات پسند نہیں آتیں، وہ صابن میں امریکی برانڈ ڈوو، کریم میں اولے جبکہ شیمپو میں ہیڈ اینڈ شولڈر اور ’کلیئر‘‘ پسند کرتے ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ طالبان کبھی یہ نہیں کہتے کہ ان چیزوں کی قیمت میں کمی کر دو، وہ منہ مانگی رقم دیتے ہیں، 1،500 سے 2،000 روپے تک کے پرفیوم خریدتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان گو کہ عوام کیلئے خوف کی علامت ہیں لیکن غیر ملکی مصنوعات فروخت کرنے والوں کیلئے طالبان جیسے گاہک پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق رشید الرحمان نے بتایا کہ طالبان خواتین کے زیر جامے بھی خریدا کرتے ہیں، ایک دفعہ استفسار کرلیا کہ کیا وہ خواتین کے لیے زیر جامے یا پرفیوم کیوں خرید کرتے ہیں۔؟ تو اُنہوں نے شرماتے ہوئے کہا کہ اس کا تو پتہ نہیں۔ ایک مسیحی نوجوان کا کہنا تھا کہ شہر میں مہنگی خریداری زیادہ تر طالبان ہی کرتے ہیں۔ وہ سیاہ شیشوں والی گاڑیوں میں آتے ہیں اور دل کھول کر خریداری کرتے ہیں۔ اور وہ ایسی ایسی چیزیں خریدتے جن کے بارے میں وہ صرف سوچ سکتے ہیں۔ طالبان پہننے میں چیتا جاگرز پسند کرتے ہیں جبکہ ہنڈا 125 موٹر سائیکل کو پسندیدہ سواری قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بعض اوقات طالبان خریداری ڈالرز میں کرتے تھے، اور اگر کوئی تاجر ڈالر کے عوض خریداری کا قائل نہیں ہوتا تھا تو اس کو دھمکیاں ملتی تھیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ سے قبل مسلح طالبان میر علی اور میران شاہ میں آزادانہ گھومتے پھرتے نظر آتے تھے اور جس شخص پر شبہ ہوتا اس کو حراست میں لے لیا جاتا۔ تحریک طالبان کے ایک طرف امریکہ سے دشمنی کے نعرے اور دوسری طرف سب سے زیادہ امریکی مصنوعات میں دلچسپی ان کے موقف میں تضاد اور جہاد کے کھوکھلے نعرے کو واضح کر دیتی ہے اور وقت کیساتھ ساتھ طالبان کو اپنا بھائی کہنے اور ان کیلئے شہروں میں دفاتر کھولنے کے مطالبات کرنے والے اپنے موقف تبدیل کرتے اور منہ چھپاتے پھرتے نظر آرہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے دوران طالبان کے ٹھکانوں سے برآمد ہونے والی نازیبا اشیاء نے بھی اسلام کے ان نام نہاد ٹھیکیداروں کی حقیقت پوری دنیا کے سامنے آشکار کر دی ہے۔