مضامین

رہبر انقلابِ اسلامی کا ۲۹؍ جون کو قاریان و حافظان قرآن سے اہم خطاب کا مکمل متن

ترجمہ : مولانا صادق رضا تقوی

شیعہ نیوز: خدا وند عالم کے شکرگزار ہیں کہ اُس نے ہمیں زندگی دی اور توفیق مرحمت کی کہ ہم اِس سال ماہ رمضان کو تلاوتِ قرآن کی نورانی محفل سے آغاز کریں۔آپ تمام قاریان و حافظان قرآن اورقرآن دوست افراد کو خوش آمدید کہتا ہوں خصوصاً ان برادران کو کہ جنہوں نے یہا ں قرات کی۔اللہ تعالیٰ انشاء اللہ آپ سب دنیا وآخرت میں قرآنی اصحاب میں محشور ہوں۔

محفلِ قرآن سے اُنس قرآن میں اضافہ ہونا چاہیے!

آج ہمارے ملک میں قرآن جو کام انجام دے رہا ہے وہ ایک رہنمائی کام ہے ۔صحیح ہے کہ قرآن سے اُنس ‘قرآن کی تلاوت کرنے اور اُس سے اُنس رکھنے والے کیلئے درجات میں بلندی اورمعرفت میں عمق و گہرائی کا سبب بنتا ہے،یہ بات اپنی جگہ محفوظ ہے لیکن یہ وہ فیض ہے کہ جو آپ قاری قرآن اپنے ساتھ لے کرجائیں گے اور یہ بہت اہم نتیجہ ہے ۔لیکن اِس کے پیچھے ایک اور اہم نتیجہ ہے کہ جس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور وہ اسلامی معاشرے کو فہم قرآن اور قرآن سے انس اور قرآن سے نزدیک کرناہے اور یہ بہت ہی اہم بات ہے ۔آج ہمارا قرآنی معاشرہ ،قاری ،حافظ اور ترتیل سے پڑھنے والوں سمیت اِس راہ میں کوششیں کرنے والے دوسرے تمام افراد درحقیقت ایک رہنما کام انجام دے رہے ہیں۔یہ بہت ہی اہم بات ہے اور ہمیں اِس کی قدر کرنی چاہیے۔

قرآنی مفاہیم کا عام فہم ہونا اوراُس کی جانب رجوع ‘مطلوبہ منزل ہے!

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے قرآنی معاشرے نے گزشتہ چند سالو ں میں بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ہم ہر سال ایک مرتبہ محفل قرآ ن برپا کرتے ہیں اورمیں عوام ، نوجوانوں اور قرآن سے دوستی و محبت کرنے والوں میں قرآن سے اُنس اور اُس کی تلاوت کو روز بروز زیادہ ہوتا ہوا محسوس کر رہا ہوں۔یہ شکرگزار ی کامقام ہے لیکن ہم اُس مطلوب منزل سے ابھی بہت پیچھے ہیں۔اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارے قاریوں کی سطح ذاتی اور نوعی طور پر نیچے یا بہت زیادہ نیچے ہے،ہماری مراد ہرگز یہ نہیں ہے۔ الحمد اللہ ہمارے پاس بہترین قاری ہیں جو تلاوت ، ترتیل اور صوت و لحن، معنیٰ کی طرف توجہ اور تلاوت سننے والے مستمع میں تلاوت کے ذریعے قرآنی معنیٰ کو زندہ کرنے کے لحاظ سے اعلیٰ سطح پر ہیں۔اِن جہات میں ہم نے بہت پیش رفت کی ہے۔لیکن معاشرتی سطح پر ہم مطلوبہ سطح تک نہیں پہنچیں ہیں اور وہاں تک پہنچنے میں ابھی کافی فاصلہ موجود ہے ۔ہمارے ملک ومعاشرے میں ایسی تربیت کا انتظام ہونا چاہیے کہ تمام افراد قرآن سے انس حاصل کریں اور قرآنی مفاہیم اُن کیلئے قابل فہم ہوں، وہ قرآن کی طرف رجوع کریں اور قرآن کو سمجھ سکیں خواہ اجمالی طورپر ہی کیوں نہ ہو!یہ ہے وہ منزل کہ جہاں ہمیں پہنچنا چاہیے۔جن ممالک کی زبان عربی ہے وہ یہ مرحلہ آسانی سے طے کر لیتے ہیں لیکن ہماری زبان عربی نہیں ہے لہٰذا ہم ذرا مشکل سے یہ مرحلہ طے کریں گے ۔یہاں خوشی کی بات یہ ہے کہ قرآنی الفاظ و کلمات ہماری قوم کیلئے آشنا ہیں اور اُن کے معانی سمجھنا اُن کیلئے چنداں مشکل نہیں ہے۔ تھوڑا سا اُنس اور مشق ہمارے’’ مطلوب‘‘ کو ہمارے معاشرے میں وجود میں لا سکتی ہے !

قرآن سے اُنس کے انفرادی و اجتماعی فوائد

آپ برادران کو اِس اساسی نکتے کی جانب توجہ رکھنی چاہیے کہ ہمارا اسلامی نظام اور اسلامی معاشرہ ‘قرآن سے روز افزوں اُنس کے ہی نتیجے میں اندرونی استحکام حاصل کر سکتا ہے ۔اندرونی استحکام وہ چیز ہے جو معاشرو ں کو اُن کی مطلوبہ منزل کی جانب حرکت کرنے میں طاقت دینے کے ساتھ اُنہیں بحرانوں سے مقابلہ کرنے کی قدرت دیتا ہے۔اندرونی سطح میں مضبوط و مستحکم ہونا نا گزیر ہے اور یہ استحکام قرآن سے اُنس کی برکت ہی کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے ۔یہ قرآن سے اُنس ہی ہے جو ایمان کی تقویت کرتا اور اُسے مضبوط بناتا ہے ، خدا پر توکل کو زیادہ کرتا ہے اور اِسی کے ذریعے سے انسان کا اللہ کے وعدو ں پر اعتماد بڑھتا ہے ۔ جب انسان قرآن سے مانوس ہو جائے تو یہ مادی مشکلات کے خوف و ڈر کو انسان میں کم کر دیتا ہے ،انسان کو روحی تقویت عطا کرتا ہے ،اعتمادِ نفس کو بڑھاتا ہے اورخدا کے تقرب کی راہوں کو واضح اور روشن کرتا ہے ۔یہ ہیں قرآن سے اُنس کے فوائد!

قرآن‘ہدایت کو زیادہ کرنے اور گمراہی کو کم کرنے والا ہے !

قرآن کتابِ معرفت اور کتابِ نور ہے،نہج البلاغہ خطبہ 176 میں امیر المومنین ؑ سے منسوب کلا م ہے کہ جس میں آپ کا ارشاد ہے:
’’ وَ مَا جَالَسَ ھَذَا الْقُرَآنَ اَحَدٌ اِلا قَامَ عَنۃُ بِزِیَادَۃٍ اَوْ نُقْصََانٍٍ ، زِیَادَۃٍ فِی ھُدًی اَوْ نُقْصَانٍ فِی عَمًی‘‘

’’کوئی بھی قرآن کے ساتھ نہیں بیٹھے گامگر یہ کہ جب کھڑا ہوگا تو یا زیادہ کے ساتھ یاکمی کے ساتھ، اُس کی ہدایت میں اضافہ ہوگا یا گمراہی میں کمی! ‘
یعنی قرآن کے ساتھ نشست و برخاست یا ہدایت و رہنمائی میں اضافے کا سبب بنے گی یا گمراہی و اندھے پن میں کمی اور اُس کی بے معرفتی کو کم کرنے کاباعث بنے گی۔قرآن کے ساتھ نشست و برخاست ایسی ہی خصوصیت کی حامل ہے کہ ہدایت میں اضافہ یا گمراہی میں کمی صرف قرآن میں تدبر اور توجہ ہی کے ذریعے حاصل ہو گی۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ قرآن کو توجہ کے ساتھ پڑھیں۔اِس جانب بھی توجہ رہے کہ صرف اچھی آوازمیں ہی تلاوت کرنامطلوب نہیں ہیں بلکہ معانی کی طرف توجہ اور قرآن کے حقیقی مراد و خواہش کی جانب توجہ کے ساتھ قرآن کو پڑھنا چاہیے۔ اگر ایسا ہو
تو اُس وقت اسلامی معاشرہ اپنا حقیقی رستہ پا لے گا،’’ اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ‘‘اُس وقت انسان ‘خرافات، گمراہی ، خوف اور توھمات کی تاریکیوں سے باہر نکل جا تاہے اور’’ اِلی النُّوْرِ‘‘یعنی نورِ ہدایت ، نورِ معرفت، خدا کے تقرب کے نور اور پروردگار عالم سے انس کے نور کی جانب قدم اٹھاتا ہے ۔یہ وہ خصوصیات ہیں جو قرآ ن سے نشست اور اُنس کے نتیجے میں انسان کو حاصل ہوتی ہیں اورہم سمیت پوری امتِ اسلامیہ کو اس کی اشد ضرورت ہے ۔

مشکلا ت کا مقابلہ ہماری ذمہ دایوں کو روشن و مشخص کرتا ہے !

دورِ حاضر میں اُمتِ مسلمہ کو بہت سے بحرانوں کا سامنا ہے۔ہم نے مکرر عرض کیا ہے کہ اِن بحرانوں اور مشکلات کی جانب توجہ کا معنیٰ یہ نہیں ہے کہ ہم دشمن کو مضبوط اور مستحکم سمجھیں کہ وہ ہم پر غلبہ حاصل کر لے گا اور ہم محکوم ہو جائیں گے، ایسا نہیں ہے !یہ ایک حقیقت ہے کہ اُمتِ مسلمہ آج بحرانوں اور مشکلات کا شکار ہے ا ور اِن مشکلات اور بحرانوں کی جانب توجہ ہمیں یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ اسلام اپنی حرکت کے مراحل طے کرتے ہوئے ایک بلند منزل ، نئے مرحلے اور بلندزینے کی جانب بڑھے۔ہم نے اسلامی انقلاب اور اسلامی بیداری سے قبل دنیائے اسلام کو غفلت میں غرق دیکھ رہے تھے لیکن آج دنیا ئے اسلام آگاہ و بیدار ہے ۔آج جو کچھ واقعات‘ اُمتِ مسلمہ میں رونما ہو رہے ہیں وہ اُمتِ مسلمہ کو آگاہ اور بیدار کر رہے ہیں اورساتھ ہی ہمارے وظائف اورذمہ داریوں کو بھی مشخص اور روشن کر رہے ہیں!دشمنان اسلام ‘اہل ایمان اور اُمتِ مسلمہ کی اِس بصیرت سے خائف ہیں اور ہمیں چاہیے کہ ہم اِس بصیر ت کو روز بروز زیادہ کریں اور اِس کا پہلا مرحلہ یہی ہے کہ ہم اِن مشکلات کو پہچانیں۔

امریکی اسلام کی نشانیاں

آج دنیائے اسلام کو جن مسائل کا سامنا ہے اُن میں سے ایک یہ ہے کہ دشمنان اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام سے مقابلہ کر رہے ہیں اور امام خمینی ؒ کی تعبیر کے مطابق امریکی اسلام بمقابلہ محمد ی ؐ اسلام!امریکی اسلام ایسا اسلا م ہے جو طاغوت سے دوستی کرتا ہے، صہیونیت سے اُس کے اپنے خاص مراسم ہوتے ہیں اور وہ امریکی اہداف و مقاصد کی راہ میں اُن کی خدمت کرتا ہے ۔ایسے اسلا م کا ظاہری حلیہ اسلامی ہی ہوتاہے، نام بھی اسلام کا مستعار لیا گیا ہے اور بظاہر یہ لوگ کچھ اسلامی مراسم کو بھی انجام دیتے ہیں۔ جب انسان یہ خبریں سنتا ہے کہ یہ تمام افراد جواسلام اور تعصب کے نام پر کچھ ممالک میں اورابھی عراق میں اور اُس سے قبل کچھ اور ممالک میں ظاہر ہوئے ،اسلامی احکام و شریعت کے بہت پابند نہیں ہیں لیکن جو چیز اِن کی حرکات سے مسلَّم صورت میں سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ افراداسلام کے ۱۸۰؍ درجے مخالف سمت حرکت کررہے ہیں۔

طاغوت کی خدمت کرنے والے اسلام کے پیچھے دشمن کاواضح ہاتھ موجود ہے!

اسلام نے دشمنان دین کا ساتھ دینے اور اسلام دشمن اور طاغوتی طاقتوں کی ولایت کو قبول کرنے کو اُن چیزوں میں سے قرار دیا ہے کہ جن سے ایک مسلمان کو ہر صورت میں کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے۔سورہ نساء آیت ۷۶ میں ارشاد ہے:
’’وَ اَلَّذَیْنَ آمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِی سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ‘‘
’’جو لوگ ایما ن لائے وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں اور جو لوگ کافر ہیں وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں!‘‘
(اے اسلا م کے نام لیوا افراد !)اگر تم لوگ اسلام کا نام لے کر طاغوت کی راہ میں قدم اُٹھا رہے ہو تو جان لو کہ یہ صحیح اورحقیقی اسلام نہیں ہے ،اِس میں کہیں نہ کہیں عیب ضرور موجود ہے ۔البتہ انسان ‘دشمن کی سازشوں کو اچھی طرح دیکھ سکتا ہے اور ہمیںیہ یقین کرلینا چاہیے کہ اسلام دشمن حکومتو ں کی خفیہ ایجنسیوں کے ناپاک ہاتھ مسلمانوں میں اِس قسم کے بلوو ں اور شورشیں برپا کرنے کیلئے بالواسطہ یا بلا واسط حتماًملوث ہیں۔یہ افراد ہیں جو بیٹھ کر حالات کو نچارہے ہیں اور جیسا کہ انسان مشاہدہ کر رہا ہے کہ اِس بات کی واضح نشانیاں اور دلائل بھی موجود ہیں!اگراُمتِ مسلمہ قرآنی معارف سے انس رکھتی ہو تو وہ زیادہ آگاہ ہو گی اور ایسے واقعات کم پیش آئیں گے ۔ دلوں کاخدا سے مستحکم رابطہ اور تعلق اِس بات کا سبب بنے گا کہ یہ دل ‘خدا کی راہ سے خیانت کے مرتکب نہ ہوں اور ہمیشہ صحیح سمت میں آگے بڑھیں!

قرآن دوستی پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہیے!

قرآن سے محبت کرنے والے آپ قرآنی نوجوان اور وہ تما م افرا د جوراہِ قرآن میں اپنی عمر، جوانی اور اپنی طاقت کو خرچ کر رہے ہیں تو آپ کو اِس عظیم توفیق پر خدا کا شکر گزار ہونا چاہیے ۔یہ بہت بڑی توفیق ہے کہ خدا وند عالم نوجوانوں اور جوانوں کو اِس بات کی توفیق دے کہ وہ قرآن سے اُنس حاصل کریں اور راہِ قرآن کا انتخاب کریں ۔ گزشتہ زمانے میں یہ چیز ہر گز موجود نہیں تھی ، قرآن ‘نوجوانوں میں اجنبی تھااوراُن کے درمیان اُس کی ترویج نہیں ہوتی تھی۔لیکن الحمد للہ آج قرآن نوجوانوں میں موجود ہے اور اُس کی ترویج ہوتی ہے اور آپ اِس ترویج کے عامل اور اثر گزار افراد ہیں۔اِس نعمت کی قدر کریں!

قرآنی میدان میں فعالیت کرنے والوں کو اپنے عمل سے قرآنی تعلیمات کا عملی درس دینا چاہیے!

قرآنی میدان میں فعالیت کرنے والے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ عمل کے میدان میں’’کُوْنُوْا دُعَاۃَ النَّاسِ بِغَیْرِ اَلْسِنَتِکُمْ‘‘کی حدیث کا مصداق بنیں اور اپنے
عمل سے ثابت کریں کہ وہ دین کی پابندی کرنے والے خاص افراد میں شامل ہیں۔وہ اِس بات کوثابت کریں تا کہ قرآ ن اُن کے عمل میں اپنی تاثیر کو دکھائے اور اُن کے سلوک عرفانی اور باطن میں اپنی حقیقت کو ثابت کرے ۔ اُنہیں چاہیے کہ وہ اسلامی شریعت کی پابندی اور تعلقات میں اِن چیزو ں کی رعایت کریں کہ جسے سورہ انفال کی آیت ۲میں بیان کیا گیا ہے :
’’اَلَّذَیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِِمْ آیتُہُ زَادَتْھُمْ اِیْمَاناً‘‘
’’جب اُن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتاہے تو اُن کے دل دھل جاتے ہیں اور جب اُ ن پر اُس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو اُن کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ‘‘
قرآ ن سے زیادہ مانوس ہمارے برادرا ن کو چاہیے کہ وہ اِس قرآنی صفت کو ظاہر کریں۔آج آپ جو کچھ بھی انجام دے رہے ہیں وہ نوجوانوں ، جوانوں اور مستمعین کیلئے ایک آئیڈیل اُسوہ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ سے سیکھیں۔آپ کوشش کریں کہ لوگ جو کچھ آپ سے سیکھیں وہ اُنہیں خد اسے قریب کرنے کا سبب بنے۔
پرودگارا! ہم تجھے محمد ؐ وآل محمد ؑ کی قسم دیتے ہیں کہ ہمیں قرآ ن کے ساتھ زندہ رکھ ،ہمیں قرآن کا ہم نشنین قرار دے ،ہماری زندگی اور موت ‘راہ قرآ ن میں ہی ہو،ہمیں قرآن کے ساتھ محشور فرما اور قرآن کو ہم سے راضی فرما۔خداوند ا!بحق محمد ؐ و آل محمد ؑ اس نورانی محفل اورتلاوتِ قرآن کا ثواب بہترین ہدیہ کی صورت میں امام خمینی ؒ اور ہمارے شہداء کی ارواح تک پہنچا۔بارِ الٰہا !بحق محمد ؐ و آل محمد ؑ ہمیں اسلام، قرآن، شہداء اور مجاہد ین کے راستے میں ثابت قدمی عطا فرما۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button