داعش کا نقشہ بھی نقشہ ہی ہے!! دلچسپ تحریر
تحریر: ڈاکٹر مجاہد مرزا
شیعہ نیوز: کوئی خوش ہے تو کوئی پریشان کہ "دولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام” نے "اسلامی ریاست” تشکیل دیتے ہی نقشہ دے (جاری کر)دیا کہ کہاں سے کہاں تک اپنی "اسلامی ریاست” کو وسیع کرنا ہے۔
بظاہر لوگ تشویش کے عالم میں اس "نقشہ سیاہ” کو سوشل نیٹ ورکس پہ پوسٹ اور شیر کر رہے ہیں لیکن لگنے یوں لگا ہے کہ یہ نفسیاتی جنگ کا ویسا ہی حصہ نہ ہو جیسے ایک زمانے میں منگول اپنے وارد ہونے سے پہلے اپنے آنے کی خبر پہلے پہنچا اور پھیلا دیے کرتے تھے تاکہ لوگ افراتفری کا شکار ہو کر پہلے ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھیں۔ تاحتٰی اضمحلال اور راضی بہ رضا ہونے کا یہ عالم ہو جاتا تھا کہ بقول ابن خلدون کے اس نے اپنے گھر کی کھڑکی سے دیکھا، ایک نہتا منگول درجن بھر بغدادی مسلمانوں سے نالاں ہوا اور انہیں ہدایت کر کے چلا گیا کہ جب تک وہ نہ آئے زمین پر اوندھے پڑے رہیں۔ یہ بھی بتا گیا کہ وہ چھری لینے جا رہا ہے تاکہ ان کے سر تن سے جدا کرے۔ ابن خلدوں کہتا ہے کہ وہ ویسے ہی پڑے رہے جبکہ تقریبا” نصف ساعت کے بعد وہ منگول چھرا لے کر پہنچا اور ایک ایک کرکے ان سب کو موت کی نیند سلا دیا۔
یا پھر اس قسم کا پرچار لگتا ہے جو ایک زمانے میں بہت زیادہ سجیدہ پرچار ہوا کرتا تھا۔ وہ ہوتا تھا "روسی آ رہے ہیں” ۔ یہ نعرہ ہمارے مربّی مغرب کا دیا ہوا تھا تاکہ روسیوں کے خلاف نفرت اور ان سے خوف کو فزوں تر رکھیں اور یوں کمیونسٹوں کو پنپنے نہ دیں۔ روسیوں نے نہ آنا تھا نہ وہ ماسوائے افغانستان کے کہیں اور آئے۔ وہاں سے بھی انہیں اپنی غلطی کا خمیازہ بھگتتے ہوئے جانا پڑا تھا لیکن وہ جاتے جاتے افغانستان کے لیے انفراسٹرکچر بناتے گئے تھے جو پھر سے مغرب نے آ کر تباہ کر دیا۔
جب سیموئیل ہنٹنگٹن کی کتاب "تہذیبوں کی لڑائی” عام یا بدنام ہوئی تو ایک اور نقشہ سامنے آیا تھا جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ "نئی عالمی ترتیب” یعنی "نیو ورلڈ آرڈر” کا دائرہ کہاں تک وسیع کیا جانا ہے۔ نئی عالمی ترتیب کیا تھی اور کیا ہے؟ یہ ایک متنازعہ بحث ہے تاہم امریکہ تو افغانستان اور عراق کے بعد ہی ہانپنے لگا تھا اور باقی رنگین انقلابات کو اس نے نہ صرف ملکوں کے اندر فرینچائز کیا بلکہ باہر کے سپانسر تک فرینچائز کر دیے تھے۔ نیو ورلڈ آرڈر پورے کا پورا ڈگمگاتا ہوا دکھائی دینے لگا ہے۔
داعش کا نقشہ بھی نقشہ ہی ہے، جسے وہ شاید فرینچائز کرنے کی خاطر مشتہر کر رہے ہوں۔ ان ملکوں میں جن پر نئی عالمی ترتیب والوں کی نگاہیں تھیں اور ہیں، اس کے ردعمل میں "اسلامی ریاست” کے نقیب بھی ان ہی علاقوں پہ اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے علاقوں پہ بھی امید بھری نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔
معاملہ نئی عالمی ترتیب اور اسلامی ریاست والوں میں کس کی جیت اور کس کی ہار کا معاملہ نہیں ہے بلکہ معاملہ یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی ابتداء بہت سوچ سمجھ کر پاکستان سے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے سے کی گئی تھی۔ خود تخلیق کی گئی بلا جتنی بھی خودسر اور خونخوار کیوں نہ ہو گئی ہو لیکن اسے تخلیق کرنے والے اس سے کام لینے کے گر پھر بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ اپنا اسلحہ جائز اور ناجائز طریقے سے ملکوں اور گروہوں دونوں کو ہی بیچتے ہیں۔ اپنے ملکوں کے عوام کو متفاخر بھی رکھتے ہیں اور متذبذب بھی تاکہ ان پہ اچھی طرح حکومت بھی کرتے رہیں اور وہ ان کے مطیع بھی رہیں۔ دنیا پہ اپنا رعب بھی جمائے رکھتے ہیں اور اپنی اہمیت بھی منوائے رکھتے ہیں۔
ان کی یہ سرگرمی اور کارروائی یکسر یک طرفہ نہیں ہے بلکہ اس کی بڑی وجہ متاثرہ ملکوں کی سرکاروں کا منفعل رویہ ہے۔ یہ سرکاریں بادشاہتوں کی شکل میں ہوں یا نیم جمہوری نظام کی شکل میں یا خالص آمرانہ شکل میں، ان سب نے اپنے اقتدار کو مذہب کی بنیاد پر استوار کیا ہوا ہے۔ کسی نے بھی مذہبی طور پر سرگرم افراد اور تنظیموں پر نظر رکھنے کی کوشش نہیں کی ماسوائے سعودی عرب سمیت کچھ عرب ملکوں نے جنہوں نے مذہب کی سرکاری شکل کو ہی پھلنے پھولنے کی اجازت دی ہوئی ہے اور دوسری سوچ کو سر ہی نہیں اٹھانے دیتے۔ ایک ملک اسرائیل ہے جہاں کی حکومت کا مذہب یہودیت نہیں ہے لیکن پھر بھی میرے سمیت ہم سب اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔اس کے برعکس نام نہاد اسلامی ملکوں میں مقتدر اور اقتدار حاصل کرنے والوں سبھوں نے اسلام کو جس طرح چاہا استعمال کیا۔ اور تو اور یہاں سیاسی پارٹیوں کی ایک نئی قسم مذہبی سیاسی جماعتیں تک وجود میں آ گئیں۔ ایسی ہی جماعتوں نے یا تو اپنے عسکریت پسند بازو تشکیل دے لیے یا پھر خالصتا” عسکریت پسند گروہوں کی حمایت کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ "اسلامی ریاست” کے نقیب اپنی حکمت عملی ہی ایسی بنائیں کہ اسلامی ریاست کو وسیع کرنے کی ابتداء کئی نقاط سے کی جائے، جیسے پاکستان، یمن اور نائیجیریا سے جہاں ایسے لوگوں کا منظم انفراسٹرکچر اور سلیپنگ پارٹنرز موجود ہیں۔ وزیرستان میں کی جانے والی کارروائی اگر کسی طرح بھی ناکام ہوتی ہے، عسکری حوالے سے یا سماجی حوالے سے یعنی آئی ڈی پیز کا مناسب خیال نہ رکھے جانے اور ان کی بحالی کے کام میں رکاوٹیں آنے کی صورت میں تو بہت ممکن ہے کہ یمن اور مغرب سے پہلے پاکستان سے ہی ایسی ممکنہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کی ابتدا کر دی جائے گی۔
نقشے تو دیے جاتے رہتے ہیں، سندھو دیش سے پختونستان اور خالصتان تک کے ل
یکن ایجنسیوں اور اداروں نے کن کے خلاف سخت رویہ روا رکھا، کن کے بارے میں ٹھوس معلومات حاصل کیں اور کن کی سرکوبی کی، یہ زیادہ اہم ہوتا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ ہم منگول کے سامنے بے دست و پا لیٹے ہووں کا سا انداز نہیں اپنائیں گے۔