پاکستانی سیاست انتہائی نازک موڑ پر۔۔۔!
شیعہ نیوز: پاکستان میں سیاست ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے اور نواز حکومت کی کشتی عوامی طوفان کی طغیانی کے باعث لہروں کے رحم و کرم پر ہچکولے کھا رہی اور اکثر مبصرین کے مطابق حکومت بچنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ کہتے ہیں کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ موجودہ حکمرانوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں اقتدار میں آنے کے بہت سے مواقع ملے لیکن انہوں نے ان مواقعوں سے فائدہ اٹھایا اور نہ تاریخ سے سبق سیکھا۔ یہ حکمران عوام کو ہمیشہ سبز باغ دکھا کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے اور تخت ملتے ہی فرعون بن گئے۔ ماضی میں بھی 2 دور ان کو مل چکے ہیں جن میں بھاری مینڈیٹ بھی ملا، لیکن یہ اسے سنبھال نہ سکے اور اقتدار ہاتھ سے جاتا رہا۔ اب جب میاں نواز شریف خود ساختہ جلا وطنی کاٹ کر پاکستان لوٹے تو عوام نے یہی سمجھا کہ پردیس میں رہ کر ان میں وطن کی محبت جاگ چکی ہوگی لیکن عوام کا یہ خیال خام ہی رہا اور رسی جلنے کے باوجود بل نہ جاسکے۔
میاں نواز شریف نے ڈیڑھ سال قبل الیکشن سے پہلے عوام سے بہت سے وعدے کئے، لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ البتہ حکومت نے میٹرو بس منصوبہ فلائی اوور اور پل ضرور بنائے، جن میں ان کے ہی دوستوں کی فیکٹریوں سے سیمنٹ، اتفاق فونڈری کا سریا اور دیگر میٹریل استمعال ہوا۔ عوام تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم رہے۔ تین ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے عوام کی بھلائی کے لئے کچھ بھی نہ کیا اور عوام بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب مسلسل جھیل رہے ہیں۔ شریف برادران کی حکومت میں ہمیشہ اہل تشیع کے لئے قیامت برپا ہوتی ہے اور بقول ڈاکٹر طاہرالقادری کہ شریف برادران خود دہشت گردوں کے سرپرست ہیں، انہوں نے دہشت گرد پالے ہوئے ہیں اور ان سے کام لیتے ہیں، حالیہ آپریشن ضرب عضب بھی پاک فوج نے زبردستی شروع کیا تھا۔ ان کے دور حکومت میں دہشت گردی کو فروغ ملا، صرف لاہور میں اہم ترین شیعہ شخصیات کو نشانہ بنایا گیا، جن میں اہم اور قابل ترین ڈاکٹر اور معروف ذاکر اور پروفیسرز شامل ہیں۔
ایسی صورت حال میں جب ملت جعفریہ اپنے آپ کو سیاسی طور پر بے یارو مدد گار سمجھ رہی تھی، ڈاکٹر طاہرالقادری نے ان کی ڈھارس بندھائی اور انقلاب کے لئے تعاون طلب کیا۔ ملت جعفریہ کی جانب سے علامہ طاہرالقادری کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور مجلس وحدت مسلمین نے ملت جعفریہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ اتحاد کا اعلان کر دیا۔ 14 اگست کو لاہور سے شروع ہونے والا انقلاب مارچ اس وقت اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ماڈل ٹاؤن اور لاہور کے داخلی و خارجی راستوں پر لگائی گئی رکاؤٹیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے اعلان کے بعد مارچ نے اپنی منزل کی جانب قدم بڑھائے تو پولیس بھی ہٹ گئی اور رکاؤٹیں بھی قائم نہ رہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس میں فوج نے کردار ادا کیا ہے اور فوج کی جانب سے پنجاب حکومت کو واضح اور کھلا پیغام بھجوایا گیا کہ ہم خون خرابہ نہیں چاہتے اس لئے ڈاکٹر طاہرالقادری کو محفوظ راستہ دے دیا جائے۔
پنجاب پولیس نے بھی وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف کو یہی تجویز دی تھی کہ اگر پولیس انقلاب مارچ میں رکاؤٹ بنتی ہے تو یہ 17 جون سے زیادہ خون خرابہ ہوسکتا ہے۔ فوج کے دباؤ اور پولیس کی تجویز پر وزیراعلٰی نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو راستہ دے دیا اور انقلاب مارچ خیر و عافیت سے اسلام آباد پہنچ گیا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے چارٹرڈ آف ڈیمانڈ بھی پیش کر دیا ہے، جس میں وزیراعظم اور وزیراعلٰی پنجاب سے استعفٰی طلب کیا گیا ہے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث وزراء کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پارلیمنٹ اور اسمبلیاں بھی تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ یہ جس سسٹم کے ذریعے قائم ہوئی ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری اس الیکٹوریل سسٹم کو ہی تسلیم نہیں کرتے۔ طاہرالقادری نے چارٹرڈ آف ڈیمانڈ میں مطالبہ کیا ہے کہ نئی قومی حکومت قائم کی جائے جو جمہوری اصلاحات کرے۔ چارٹرڈ آف ڈیمانڈ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ کرپشن کرنے والوں کا کڑا احتساب کیا جائے اور قوم کے مجرموں کو سرعام سزائیں دی جائیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ ان کا دس نکاتی ایجنڈا نافذ کیا جائے، جس میں عوام کو تمام حقوق حاصل ہوں گے، غربت، بے روز گاری، افلاس اور بحرانوں کا خاتمہ ہوگا، عام آدمی کو روٹی کپڑا اور مکان ملے گا، اور تعلیم وصحت کی بنیادی ضرورتیں بھی عوام کو میسر آئیں گی۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے چارٹرڈ آف ڈیمانڈ میں سب سے اہم نقطہ جو اٹھایا ہے وہ نئے پاکستان میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا ہے کہ ملک سے تکفیریت کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے، آئین میں ترمیم کرکے قانون بنایا جائے گا کہ کوئی کسی کو کافر نہیں کہہ سکے، فتویٰ بازی کی فیکٹریاں بند کر دی جائیں گی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے گا۔ دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے والوں کا بھی کڑا احتساب ہوگا، امن برداشت اور رواداری کا مضمون تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے گا، تاکہ فرقہ واریت کی حوصلہ شکنی ہو۔ اقلیتیوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں گے اور نئے صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے یہ چارٹرڈ آف ڈیمانڈ دیا ہے اور حکومت سے مطالب
ہ کیا ہے کہ اس کی منظوری تک وہ اسلام آباد میں احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے جس ریاست کا تصور پیش کیا اور ریاست مدینہ کا مکمل عکس ہے۔ حقوق کی اس جنگ میں پاکستان کی ملت تشیع اور اہل سنت متحد ہوچکے ہیں۔ انقلاب سے پہلے انقلاب یہ ہے کہ تکفیری اور دہشت گرد بے نقاب ہوچکے ہیں اور محب وطن اہل سنت اور اہل تشیع اپنے وطن کے بقا کے لئے سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ شیعہ سنی اتحاد نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان بنانے اور پاکستان بچانے والے شیعہ اور سنی ہی ہیں، باقی جتنے اقتدار کے لالچی ہیں انہیں وطن سے کوئی غرض نہیں۔ اس حوالے سے پوری پاکستان قوم ڈاکٹر طاہرالقادری کے انقلاب کی کامیابی کے لئے دعاگو ہے۔ قوم کا اتحاد ملک میں انقلاب کی دستک دے رہا ہے اور اسی دستک کی آواز سے حکمرانوں کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں، کچھ فرار ہوچکے ہیں اور کچھ فرار ہونے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ملک میں ایک تبدیلی بہرحال آنے والی ہے، انقلاب کی صدا نے پاکستانی سیاست کو ایک انتہائی نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ اب مسائل کے بھنور میں پھنسی ہوئی پاکستان کی کشتی کو آس لگ گئی ہے کہ کنارے پر ضرور پہنچے گی۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو