امریکی سعودی نواز تکفیری دہشتگرد گروہ ’داعش‘ کا منشور پشاور میں تقسیم
عراق اور شام میں خلافت کا اعلان کرنے والی امریکی سعودی نواز تکفیری دہشتگرد تنظیم دولت اسلامی المعروف داعش نے بظاہر اب عرب ممالک سے باہر بھی اپنی حمایت بڑھانے کیلئے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں امریکی سعودی نواز تکفیری دہشتگرد تنظیم داعش کی طرف سے ایک کتابچہ شائع کیا گیا ہے جس میں عام لوگوں سے نام نہاد اسلامی خلافت کی حمایت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ’فتح‘ کے نام سے پشتو اور دری زبانوں میں شائع شدہ بارہ صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ پشاور شہر کے افغان پناگزین کیمپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ اشاعت پشاور میں افغان امور پرکام کرنے والے بعض صحافیوں کو بھی بھیجی گئی ہے۔ کتابچے میں کہا گیا ہے کہ خلافت کو خراسان یعنی پاکستان، افغانستان، ایران اور وسطی ایشیا کے ممالک تک پھیلایا جائے گا۔ کتابچے کے آخری صفحے پر مدیر کا نام بھی لکھا گیا ہے جو بظاہر ایک فرضی نام معلوم ہوتا ہے جبکہ ان کا ای میل پتہ بھی دیا گیا ہے۔ تاہم اشاعت میں اس بات کو واضح نہیں کیا گیا ہے کہ یہ کتابچہ کہاں سے شائع کیا گیا ہے۔ پشاور میں افغان امور پر کام کرنے والے سینیئر صحافی تحسین اللہ کا کہنا ہے کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ امریکی سعودی نواز تکفیری دہشتگرد تنظیم داعش کی طرف سے شائع کردہ کتابچہ افغانستان کے بعض سرحدی صوبوں میں بھی تقسیم کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بظاہر اس اشاعت کا مقصد اس خطے میں نام نہاد اسلامی خلافت کیلئے حمایت حاصل کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی سعودی نواز تکفیری دہشتگرد تنظیم داعش کی جانب سے یہ اپنی نوعیت کی پہلی ایسی کوشش ہے جس میں عام لوگوں سے نام نہاد تکفیری اسلامی خلافت کی حمایت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تحسین اللہ نے مزید کہا کہ افغانستان اور پاکستان میں بعض شدت پسندوں تکفیریوں نے تکفیری تنظیم داعش کے نام نہاد امیر المومنین ابوبکر بغدادی کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے۔
عراق اور شام میں تقریباً دو ماہ قبل جب داعش کی جانب سے خلافت کا اعلان کیا گیا تو پاکستان میں بھی تحریک خلافت نامی ایک غیر معروف تنظیم نے اس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ یہ تنظیم خود کو طالبان کا ایک دھڑا قرار دیتی ہے۔ پڑوسی ملک افغانستان میں بھی بعض سلفی طالبان نے ابوبکر بغدادی کو اپنا امیر المومنین تسلیم کر لیا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قریب رہنے والے دو شدت پسند علماء عبدالرحیم مسلم دوست اور مولوی عبد القہار کی طرف سے کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو پیغام جاری کیا گیا تھا جس میں انھوں نے دولت اسلامیہ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں بھی داعش کے حق میں وال چاکنگ دیکھی گئی ہے جبکہ لوگوں نے اپنی گاڑیوں میں دولت اسلامیہ کے حمایت میں پوسٹرز بھی لگائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی خلافت کا قیام اس علاقے کیلئے کتنا اہمیت کا حامل ہے اور کیا یہاں کی شدت پسند تنظمیں اس کا حصہ بن سکتی ہے؟ پشاور میں شدت پسندی اور عسکری تنظیموں پر تحقیق کرنے والے تجزیہ نگار اور مصنف پروفیسر ڈاکٹر خادم حسین کا کہنا ہے کہ چونکہ اس خطے میں شدت پسند تنظیموں کے لیے پہلے سے ایک بھر پور خلا موجود ہے اسی وجہ سے دولت اسلامیہ المعروف داعش کو یہاں سے حمایت ملنے کا امکان زیادہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ تکفیری انتہا پسند تنظیموں کے مرکزی دھارے سے چھوٹی موٹی تکفیری عسکری گروہ یا کمانڈرز اختلافات کے باعث کٹ جاتے ہیں اور موجودہ حالات میں ایسی ہی تنظیمیں دولت اسلامیہ المعروف داعش کی طرف جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے تکفیری شدت پسند گروہوں کو اپنی نظریات کے تکمیل کے لیے ایک آئیڈیل کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو ابوبکر بغدادی کی شکل میں انھیں ایک ’ماڈل‘ مل چکا ہے۔
ان کے مطابق ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ یہاں کی بعض تکفیری عسکریت تنظیمیں داعش سے منسلک ہو سکتی ہے کیونکہ دولت اسلامیہ بھی خراسان کا استعارہ استعمال کر رہی ہے اور یہاں سرگرم تکفیری عسکریت پسند بھی وسیع تر خلافت کے قیام پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان میں حال ہی میں وجود میں آنے والی تکفیری شدت پسند تنظیم جماعت الااحرار بھی خراسان کے نظریے پر یقین رکھتی ہے یعنی وہ خلافت کا قیام پاکستان، افغانستان، ایران اور وسطی اشیا کے ممالک تک وسعت دینے کو اپنا مقصد سمجھتے ہیں۔ تاہم اس تنظیم نے ابوبکر بغدادی کو اپنا امیر المومنین تو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن ان کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین ضرور پیش کیا ہے۔ تکفیری جماعت الااحرار افغان طالبان کے سرغنہ ملا عمر کو اپنا امیر المومنین قرار دیتے ہیں۔