سلیم صافی گھٹیا سازشی مفروضوں سے نواز شریف اور تکفیری سیاست بچا نہیں سکیں گے
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں میاں محمد نواز شریف کے اتحادی دیوبندی مولوی فضل الرحمان اور پشتون دیوبندی ممبران قومی اسمبلی و سینٹرز بشمول محمود خان اچکزئی نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح سے ایوان ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی اتحادی جماعتوں کے حامی مظاہرین کے خلاف فوج کو آپریشن کا کہیں اور اگر فوج یہ نہ کرے تو اپنی سول ایڈمنسٹریشن کو کہیں اور اگر یہ سب بھی ناممکن ہو تو پھر ان کو اجازت دیں کہ وہ اپنے لوگوں کو اپنے علاقے سے بلاکر ان کے خلاف جنگ کریں۔ میاں نواز شریف کے اتحادیوں کی جذباتیت کے پیچھے آئین ، پارلیمنٹ اور جمہوریت سے محبت کارفرما نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ان کا مسلکی تعصب اور فرقہ وارانہ تنگ نظری کا عمل دخل زیادہ ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کو تیسرے دن کے لیے جیسے ہی ملتوی کیا گیا تو چیو ثی وی پر سلیم صافی اور جے یو آئی ایف کے رکن قومی اسمبلی حافظ حمداللہ کو بلایا گیا۔ سلیم صافی جن کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ نہ صرف دیوبندی ہیں بلکہ وہ دیوبندی تکفیریوں کے حامی بھی ہیں اور انھوں نے جیو ٹی وی پر صاف صاف بات کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری، صاحبزادہ حامد رضا اور علامہ ناصر عباس جعفری اور چودھری برادران کے درمیان اتحاد اور ان کو عمران خان کے قریب لانے کی کوشش کرنے والے شاہ محمود قریشی کے بارے میں یہ سازشی تھیوری پیش کی کہ ان کو امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی قریب لائے اور یہ اصل میں ایک طرف تو شیعہ اور صوفی اہل سنت کو سلفی دیوبندیوں کے خلاف کھڑا کرنے اور پاکستان میں عراق و شام کی طرز پر فرقہ وارانہ جنگ کرنے کی امریکی سازش ہے اور دوسری طرف اس اتحاد کا مقصد پاکستان کی فوج کو سیاست میں ملوث کرتے ہوئے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے فوج کو دباؤ میں لاکر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے۔
سلیم صافی نے جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی کو پاکستان تحریک انصاف کے آزادی مارچ کے ابتک کے ہونے والے واقعات کا زمہ دار قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ یہ دونوں وہ کردار ہیں جن عالمی طاقتیں جنھوں نے موجودہ مبینہ سکرپٹ لکھا ہے سے اصل سکرپٹ شئیر کیا جا رہا ہے اور سلیم صافی کے بقول خيبرپختونخوا کی جو پی ٹی آئی کی قیادت ہے وہ اس سارے عمل سے بے خبر ہے۔ اس کا صاف صاف مطلب سلیم صافی کے ہاں یہ ہے خیبر پختونخوا کے جو دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور پیٹی آئی میں ہیں وہ اس اسکرپٹ کا حصّہ نہیں ہیں اور شاہ محمود اور جہانگیر ترین چونکہ بریلوی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے وہ اس سکرپٹ کا حصّہ بن گئے ہیں۔ سلیم صافی، حامد میر، انصار عباسی اور دوسرے تمام کمرشل لبرلز جو اس وقت نواز شریف کے اقتدار کو بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں کی جانب سے حقائق کو مسخ کرتے ہوئے یہ مفروضہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کے اندر شیعہ اور صوفی سنّیوں کے درمیان اس وقت جو قربت بڑھ رہی ہے اور ان کے درمیان تکفیری دھشت گردی کے خلاف جو اتفاق بڑھا ہے اس کے پیچھے فوج، امریکہ ،اور اس کے مغربی اتحادی ملوث ہیں اور یہ تھیوری اور بے سروپا کہانی یہ تاثر دینے کی کوشش بھی ہے کہ پاکستان کے صوفی اہلسنت شیعہ اور دیگر متاثرین تکفیریت اصل میں نہ تو پاکستان کے حامی ہیں، نہ ہی وہ اپنے اوپر تکفیری دھشت گردی سے ٹوٹ پڑنے والی قیامت کے باعث میدان عمل میں نکلے ہیں بلکہ وہ تو سیدھی سادھی امریکی ایجنڈے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ یہ جو سلیم صافی، حامد میر، انصار عباسی اور نام نہاد کمرشل لبرل کی فوج ظفر موج ہے اس قدر بے شرم ہے کہ قوم کے سامنے یہ جھوٹ بولتی ہے کہ اس ملک کی اکثریت شیعہ اور صوفی سنّی کسی فرقہ وارانہ غیر ملکی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور یہ بڑے دھڑلے سے دیوبندی مکتبہ فکر کی سیاسی اور تکفیری فرقہ پرست جماعتوں کی تکفیری مہم اور ان کی جانب سے کی جانے والی صوفی سنّی نسل کشی اور شیعہ نسل کشی پر پردہ ڈالتی ہے اور آج تک سلیم صافی سے لیکر ديگر پشتون دانشوروں نے تکفیری دیوبندی دھشت گردی کا نشانہ بننے والے پشتون صوفی سنّی اور پشتون شیعہ کے قتل عام اور ان کی نسل کشی پر کوئی آواز تک بلند نہ کی ہے جبکہ سلیم صافی تو اعلانیہ ان دیوبندی دھشت گردوں کو مجاہدین اسلام قرار دیتا رہا ہے اور آج بھی حقائق کے منافی بات کررہا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری، صاحبزادہ حامد رضا اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے سیاست کے ڈسکورس کو بریلوی-شیعہ تکفیری ڈسکورس قرار دیا جا رہا ہے اور زبردستی ان کو ایک فسادی کے طور پر پوز کیا جا رہا ہے اور ان کو زبردستی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ نتھی کیا جارہا ہے۔
یہی سلیم صافی، حامد میر اور دیگر کئی ایک پاکستان میں ان تینوں رہنماؤں پر ایرانی ایجنڈے پر کام کرنے کے الزامات بھی عائد کرتے ہیں اور ایک منصوبے کے تحت صوفی اہلسنت اور شیعہ کی مضبوط سیاسی پاور اور بیس رکھنے والی جماعتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ پاکستان عوامی تحریک، سنّی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین کا سیاسی ڈسکورس اینٹی تکفیری ہے اور براہ راست اس تکفیری آئیڈیالوجی کی علمبردار جماعتوں اور اس کے جملہ حامیوں کو ایکسپوز کررہا ہے۔ صوفی اہلسنت و اہل تشیع کے باہمی الائنس سے پاکستان کے اندر پہلی مرتبہ تکفیری، جہادی، وہابی دیوبندی مذھبی سیاسی ڈسکورس کے مقابلے میں ایک نیا ڈسکورس سامنے آیا ہے اور اس ڈسکورس نے تکفیری آئیڈیالوجی سے قربت رکھنے والی سیاسی و مذھبی جماعتوں کو حقیقی چیلنچ دیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے درمیان جو ب
عد تھا اور عمران خان کا جو ٹی ٹی پی کی جانب رجحان تھا اس کو ایک طرف تو نواز شریف کے دیوبندی انتہا پسند اتحادیوں اور خود نواز شریف کے وزیروں اور مشیروں نے ختم کرنے اور عمران خان کو اینٹی تکفیری سیاسی ڈسکورس کے قریب کردیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری، عمران خان، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، صاحبزادہ حامد رضا کا باہمی اتحاد جہاں اینٹی تکفیری سیاست پر مبنی ہے وہیں یہ اتحاد ان رہنماؤں کی سیاسی حماعتوں کی طبقاتی پرت کے جذبات اور خیالات کا عکاس بھی ہے جو کہ بڑی حد تک مڈل کلاس ہے اور اسے زیادہ جامع طور پر ہم عاصم جان، عامر حسینی، ڈاکٹر ریاض سمیت کئی ایک مارکسی دانشوروں کی اصطلاح ميں پیٹی بورژوازی پرتوں کے جذبات کا عکاس بھی کہہ سکتے ہیں جو اصلاح پسندی کے راستے سے سٹیٹس کو کے خلاف بھی ہے۔ تعمیر پاکستان ویب سائٹ نے اس سے قبل بھی پاکستان میں شیعہ، سنّی، عیسائی، ہندؤ برادریوں کے باشعور حلقے کے درمیان اینٹی تکفیری سیاست کے ڈسکورس کو خوش آئند قرار دیا تھا اور تکفیری سیاست کے ڈسکورس کے حامیوں کو بے نقاب کیا تھا۔ سلیم صافی کی جانب سے اس ڈسکورس کے بارے میں گھٹیا سازشی تھیوریز اور مفروضے پیش کرنے سے یہ سمجھتا ہے کہ اس کی سوچ اور خیال ٹھیک ثابت ہوا ہے۔ پاکستان کے اندر اس وقت سیاسی تاریخ بہت اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے کہ ایک طرف تو اس ملک میں معاشی اور سیاسی میدان میں اشراف نواز سٹیٹس کو کے حامی کھڑے ہیں جن کی اکثریت تکفیری دیوبندی دھشت گردی اور آئیڈیالوجی کی حامی بھی ہے تو دوسری جانب اس سیاسی و معاشی سٹیٹس کو کو للکارنے اور اینٹی تکفیری سیاسی ڈسکورس متعارف کرانے والے کھڑے ہیں اور عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس سمت جائیں گے تو ایسے موقعہ پر سلیم صافی جیسے تکفیری نظریہ سازوں کے حامی اور نواز شریف کے ہاتھ بکے ہوئے کسی گریٹر لندن پلان اور کسی امریکی ایجنڈے کا شور مچائیں تو کوئی اچھنبھے کی بات نہیں ہے۔
ادارہ تعمیر پاکستان سمجھتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا یہ وہ اہم ترین موقعہ ہے جب ایک طرف تو نواز شریف کے دیوبندی تکفیریت کے سیاسی چہرہ ہونے کے عملی ثبوت دیکھنے کو مل رہے ہیں تو دوسری جانب اس ڈسکورس کے سبھی حامی ایک، ایک کرکے بے نقاب ہوتے جارہے ہیں اور ہم اس ایکسپوز کرنے کے عمل کو جار رکھیں گے۔ تکفیری سیاسی ڈسکورس کے حامی سلیم صافی جیسے نام نہاد دانشور ذرا صبر کریں۔ ڈاکٹر طاہر القادری، صاحبزادہ حامد رضا اور علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے ساتھ جہاں عمران خان، چوہدری شجاعت و پرویز الٰہی کی آواز ملی ہے، وہیں کوئی دن جاتا ہے جب ایم کیو ایم بھی عملی طور پر اعلانیہ اس کے ساتھ ہم آواز ہوگی۔ ہم پاکستان پیپلز پارٹی سے بھی کہتے ہیں کہ وہ تذبذب اور درمیان کی راہ سے ہٹے کیونکہ تکفیری ڈسکورس کے خلاف اس کے خیالات صوفی سنّی اور اہل تشیع سے زیادہ مختلف نہیں ہیں اور اس کو بھی پاکستان سے تکفیری سیاست کے طرز کے خلاف آواز بلند کرنا چاہئیے لیکن اس پارٹی کی قیادت میں ایسے سٹے باز سرمایہ دار موجود ہیں جن کو عمران و قادری کی اینٹی اسٹیٹس کو سیاست سے ڈر لگتا ہے۔ ہم بہت واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ اس ملک کے دیوبندی مکتبہ فکر کے تکفیری ٹولے اور ان کے حامیوں کی کوشش ہے کہ اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر ریاست صوفیہ اہل سنت، شیعہ کے خون سے ہولی کھیلے شاید تبھی تکفیریوں کے سینے میں انتقام کی آگ ٹھنڈی پڑے گی اور اس وقت فضل الرحمان، طاہر اشرفی، احمد لدھیانوی، مفتی نعیم، محمود اچکزئی وغیرہ یہی چاہتے ہیں اور وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں؟ وجوہات ہم نے اوپر بیان کر ڈالی ہیں۔
بشکریہ: ادارہ تعمیر پاکستان