مضامین

سراج الحق لدھیانوی: تکفیری سیاست کے بچاؤ کی کوشش

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے 9 ستمبر 2014ء کو پنجاب میں ضلع جھنگ کا دورہ کیا اور یہ دورہ انھوں نے سیلاب متاثرین کی مدد اور ان سے اظہار یک جہتی کے طور پر کیا وہ جھنگ پہنچ کر سیدھے جامعہ محمودیہ پہنچے جہاں انھوں نے سب سے پہلے سپاہ صحابہ پاکستان کے مرکزی صدر محمد احمد لدھیانوی سے ملاقات کی اور پھر ان کے ساتھ ملکر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا

اس سے قبل بھی امیر جماعت اسلامی پاکستان نے سپاہ صحابہ پاکستان کی مرکزی قیادت سے ملاقاتیں کیں اور ایک مرتبہ سپاہ صحابہ پاکستان کی مرکزی قیادت منصورہ گئی اور وہاں پر جماعت اسلامی کی قیادت سے ملاقات کی جماعت اسلامی پاکستان کے دیوبندی مکتبہ فکر کی تکفیری جماعت سے ان تازہ رابطوں سے یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی کہ جماعت اسلامی پاکستان ان روابط کو اپنے لیے سود مند خیال کرتی ہے لیکن جماعت اسلامی پاکستان خیبرپختون خوا ، کراچی ، اندرون سندھ ، بلوچستان ، پنجاب ، گلگت بلتستان کے اندر سپاہ صحابہ پاکستان جوکہ اہل سنت والجماعت کے ووٹ بینک میں اضافہ اور اس کی طاقت میں اضافے کے رجحان سے یقینی طور پر واقف ہے اور وہ اسے جمعیت العلمائے اسلام کے موثر توڑ کے طور پر بھی دیکھ رہی ہے اور اس کی پوری کوشش ہوگی کہ یہ اہل سنت والجماعت کو اپنے ساتھ جوڑے رکھے

اہل سنت والجماعت کی تکفیری اور انتہا پسند سرگرمیوں کی وجہ سے ملک بھر میں جمہوری حلقے اور شیعہ و صوفی سنّی حلقوں کی جانب سے اس تنظیم پر پابندی لگانے کا مطالبہ جیسا دباؤ بھی ہے اور اس دباؤ کو کاؤنٹر کرنے کے لیے اہل سنت والجماعت بھی جماعت اسلامی جیسی جماعتوں کی حمائت کو اپنے لیے ضروری خیال کرتی ہے اور اہل سنت والجماعت ، جماعت اسلامی کے مابین نظری طور پر یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ پولیٹکل ریڈیکل اسلام جو اصل میں تکفیری دیوبندی-وہابی نظریات کا ملغوبہ ہے کے مقابلے میں اعتدال پسندی پر مبنی صوفی اسلام کے خلاف فکری اور عملی طور پر سرگرم ہونا ضروری ہے اور وہ اسے امریکی براںڈ قرار دیتے ہیں

دفاع اسلام کونسل جماعت اسلامی کی جانب سے ریڈیکل وہابیت و دیوبندی ازم پر مبنی خیالات رکھنے والی سیاسی مذھبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے کرنے کا منصوبہ تھا جس میں سپاہ صحابہ پاکستان بھی شامل تھی اور یہ اتحاد ابھی تک چل رہا ہے
موجودہ اشتراک ایک اور تناظر میں بھی بہت اہمیت کا حامل ہے تاور وہ تناظر ہے پاکستان کی سیاسی ، عدالتی اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے اپنے اندر ایک بڑی تقسیم نظر آرہی ہے اور یہ تقسیم تکفیری و غیر تکفیری کیمپ کی ہے

تکفیری کیمپ میں سابق آرمی چیف جنرل کیانی ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی ناصر جاوید ،سابق آرمی چیف اسلم بیگ، تزویراتی گہرائی کی پالیسی سازی کے اہم کلیدی کردار حمید گل اور کئی ایک پاکستان آرمی ، نیوی ،فضائیہ اور خفیہ ایجنسیوں کے درمیانے اور نچلے درجوں کے اہلکار شامل ہیں اور پاکستان کی سب سے بڑی سنٹر رائٹ کی پارٹی مسلم لیگ نواز اور جوڈیشری اسٹبلشمنٹ کے کئی اہم اور موثر لوگ بھی اس کیمپ میں شامل ہیں اور اس کیمپ کے لوگوں کے خیال میں ملٹری اسٹبلشمنٹ کی موجودہ قیادت نے ماضی کی ریاستی گہرائی ڈھونڈنے اور جہادی و تکفیری عناصر کو بطور پراکسی استعمال کرنے کا حربہ بہت ہی کم کرڈالا ہے اور اس طرح سے اس کیمپ کی ساری ایمپائر کے دھڑام سے گرنے کے امکانات پیدا ہوتے جارہے ہیں

اسی لیے نام نہاد جہادی اور دیوبندی-وہابی ریڈیکل نظریات کی حامل جماعتوں کے درمیان اشتراک ترقی کرتا نظر آتا ہے
جماعت اسلامی کا سپاہ صحابہ پاکستان سے اشتراک بڑھائے جانے کا ایک سیاسی مصلحت پر مبنی مقصد بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ مستقبل میں وہ ایک طرف تو خيبرپختون خوا میں اس قدر سیٹیں لے کہ وہ خیبرپختون خوا کی چیف منسٹر شپ کی اہل ہوسکے اور اس کے لیے اسے اپنی سب سے بڑی حریف سیاسی جماعت جے یو آئی کے اثر کو اور کم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام اس کے لیے سپاہ صحابہ پاکستان ہی آسان بناسکتی ہے اور اگر سپاہ صحابہ پاکستان اس کا ساۃ جاری رکھتی ہے تو جماعت اسلامی کو یہ بھی امید ہے کہ یہ بلوچستان کی پشتون اور بلوچ بیلٹ میں زیادہ بہتر پوزیشن میں آجائے گی اور اسی طرح سے کراچی بھی جماعت اسلامی کا سپاہ صحابہ پاکستان سے اشتراک ان کے ووٹ بینک کو بڑھائے گا

جماعت اسلامی جو اپنے قیام سے لیکر ابتک یہ دعوی کرتی آئی ہے کہ و ہ ایک غیر فرقہ وارانہ ، مسالک سے ماوراء اسلام پسند پارٹی ہے پہلے سنٹر رائٹ کی مسلکی بنیادوں پر قائم سیاسی مذھبی جماعتوں کے ساتھ اپنے دعوے کی عملی طور پر نفی کرتی رہی ہے ،جیسے اس نے 77ء میں پاکستان قومی اتحاد جائن کیا اور پھر 88ء میں اسلامی جمہوری اتحاد اور 2002ء میں متحدہ مجلس عمل جبکہ اب اس کا حال یہ ہے کہ ایک طرف اس کے موجودہ امیر نے حکیم اللہ محسود کو خط لکھ کر بتلایا تھا کہ
آپ کی اور ہماری منزل ایک ہے مگر راستہ مختلف ہے

اور وہ اب ایک دھشت گرد ، انتہا پسند ، فرقہ پرست مذھبی شاؤنسٹ جماعت کے ساتھ پوری طرح سے شیروشکر ہوگئے ہیں
جماعت اسلامی پاکستان کی حمائت کا سب سے بڑا مرکز پشتون علاقے ہیں اور یہاں پر پشتون نوجوانوں میں تکفیری سوچ کی مقبولیت نے جماعت پر کافی سخت دباؤ ڈالا ہوا ہے اور جماعت اسلامی یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ کراچی کے مہاجر علاقوں میں اس کی پاکٹس کے خاتمے جیسا عمل خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں
جنوبی پشتون خوا میں ہوتا دیکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتی اور اسی لیے انھوں نے نظریات اور اپنے غیرفرقہ وارانہ پوسچر کو ایک طرف رکھ کر سپاہ صحابہ سے روابط بڑھالیے ہیں

جماعت اسلامی پاکستان کی انتہا پسند فرقہ پرست دیوبندی تکفیری جماعت کے ساتھ چلنے اور باہمی تعاون کرنے کی روش ایسی ہے جس کی مثال ان کی دیگر ملکوں میں موجود برادر اسلامی تنظیموں میں نہیں ملتی ہے مصر ، انڈونیشیا ، ملائشیا ، تیونس ، بھارت میں جماعت اسلامی کی برادر تنظیمیں اخوان المسلمون سمیت سب نے اپنے آپ کو تکفیری دیوبندی- وہابی دھشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں سے فاصلے پر رکھا ہے اور تکفیری فلاسفی کو رد کیا ہے بلکہ تیونس کی راشد الغنوشی کی حکمران پارٹی نے تکفیری دھشت گردوں کے خلاف ایک طرف ملک کے سیکولر ڈیموکریٹک سیاسی مراکز سے ملکر اتحادی حکومت بنائی ہے تو دوسری طرف تکفیری دھشت گردوں کے خلاف فوجی کاروائی شروع کی ہوئی ہے

اور یہ امر بھی غور کے قابل ہے کہ سید مودودی ، حسن البناء کے نظریات پر کھڑی سنّی اکثریت کی حامل مڈل ایسٹ ، افریقہ ، مشرق بعید اور جنوبی ایشیا کی سیاسی اسلام پسند جماعتوں کے شیعہ اسلام پسند جماعتوں سے گہرے روابط ہیں اور ان کے درمیان سیاسی اور سٹریٹجک اشتراک میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے

جماعت اسلامی پاکستان کی طرح اگر کسی اور ملک کی جماعت اسلامی نے دھشت گردوں ، صوفی سنّی اسلام پر حملہ کرنے اور تکفیری دھشت گردوں کے ساتھ روابط بڑھانے کو ترجیح دی وہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش ہے جس پر موجودہ حکومت نے پابندی لگآرکھی ہے اور اس کے بہت سارے رہنماؤں کو 71ء میں بنگالی قوم کے خلاف جرائم کی پاداش میں مقدمے چلاکر سزائے موت سنائی ہے

جماعت اسلامی پاکستان کی موجودہ روش خود افغانستان میں ان کی برادر اسلامی تنظیم حزب اسلامی کی روش سے الگ ہے ، جہاں حزب اسلامی نے اپنے آپ کو افغان طالبان سے فاصلے پر رکھا ہے اور وہ ان کے سول مقامات پر فدائی یا خودکش حملوں کی تائید نہیں کرتی اور نہ ہی اینٹی شیعہ پالیسیوں کو پسند کرتی ہے اور خلافت کی بجائے پارلیمانی سیاست پر یقین رکھتی ہے

جماعت اسلامی پاکستان کے اندر بھی اس حوالے سے کچھ اختلافات موجود ہیں کیونکہ جماعت اسلامی میں کراچی کے اندر معراج الھدی کا گروپ ہے جو تکفیریوں کے ساتھ سیاسی اشتراک کا قائل نہیں ہے لیکن اس گروپ کا اس وقت جماعت اسلامی کی اوپر سے نیچے کی ھیرارکی پر زیادہ اثر نہیں ہے اور یہ اختلاف جماعت اسلامی کو اپنی موجودہ روش بدلنے پر مجبور نہیں کرپائے گا
جماعت اسلامی پاکستان مذھبی جماعتوں کے باہمی اتحاد کے زریعے سے اقتدار میں آنے کی جس حکمت عملی پر مشرف دور سے عمل پیرا ہوئی اس میں اہلسنت بریلوی اور شیعہ کی جن جماعتوں نے شرکت کی ان کو اس اتحاد سے کوئی فاغڈہ ہونے کی بجائے الٹا نقصان ہوا اور خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں تو ان کی سیاست بالکل ہی دب کر رہ گئی خود سندھ کے شہری علاقوں اور پنجاب میں بھی ان کی سیاست کو ناقبال تلافی نقصان اٹھانا پڑا

اہل سنت بریلوی میں جے یوپی نورانی گروپ جو اب مزید دو دھڑوں ميں بٹ گیا ہے پہلے متحدہ مجلس عمل کا حصّہ بنا اور اب وہ دفاع اسلام کونسل کا حصّہ ہے لیکن ان دونوں اتحادوں میں صرف دیوبندی ، وہابی اور جماعتی سیاست نمایاں رہی یہی حال علامہ ساجد علی نقوی کی جماعت کا ہوا ہے اور جب یہ دونوں جماعتیں اہل سنت بریلوی اور شیعہ برادری کے مفادات اور ان کے احساسات کی مکمل ترجمانی میں ناکام نظر آئیں تو سنّی اتحاد کونسل ، پاکستان عوامی تحریک ، پاکستان سنّی تحریک اور مجلس وحدت المسلمین جیسی سیاسی جماعتوں کو سنّی بریلوی اور شیعہ کے اندر مقبولیت ملنا شروع ہوئی

میں اہل سنت بریلوی کی اس وقت کی تمام سیاسی تنظیموں جن میں سنّی اتحاد کونسل ، نظام مصطفی پارٹی ، پاکستان سنّی تحریک ، جے یو پی نورانی ، جے یوپی صاحبزادہ ابوالخیر ،پاکستان عوامی تحریک کے درمیان اتحاد کا حامی ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ ان کو اپنا سیاسی الائنس بنانے کے بعد شیعہ سیاسی جماعتوں اور ملک کی ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ اشتراک اور تعاون کی فضاء پیدا کرنی چاہئیے جو تکفیری لابی اور اس کی علامت سیاسی جماعتوں کو چیلنج کررہی ہوں ،کیونکہ اسی سے اہل سنت بریلوی کا مین سٹریم پاور پالیٹکس میں وزن بنے گا

جو شیعہ اور سنّی بریلوی سیاسی و مذھبی رہنماء اس وقت مسلم لیگ نواز ، دیوبندی سیاسی جماعتوں ، جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد میں کھڑے ہیں یا ان کے ساتھ تعاون کررہے ہیں وہ سنّی بریلوی اور شیعہ کا اجتماعی نقصان کررہے ہیں اور تکفیری سیاست کو آکسیجن فراہم کررہے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button