نیکی کا لبادہ اوڑھے رکھا آمر ضیاء دور کا نام نہاد جہادی (عبرت ناک حقیقت)
گجرات کے محلہ خالد آباد کی گلی نمبر 7 میں اپنی چھوٹی سے فیملی اور والدین کیساتھ مقیم غلام مرتضیٰ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا۔ بارہ سال قبل انہوں نے گھر سے ملحق دکان کرایہ پر قصور کے علاقہ چونیاں کے رہائشی پچاس سالہ باریش افتخار عرف مجاہد کو دی، جس نے مجاہد کے نام سے محلے میں پی سی او قائم کر لیا۔ لمبی داڑھی، موسیقی سے نفرت، صرف خبرنامہ سننے اور نماز پنجگانہ ادا کرنے کی عادت کے باعث اُس نے غلام مرتضیٰ سمیت باقی محلے داروں پر بھی اپنا اعتماد جمایا۔ اس دوران مجاہد نے دکان کے مالک غلام مرتضیٰ سے راہ و رسم بڑھائی۔ وہ غلام مرتضیٰ کے دو سالہ بیٹے حسنین کو کھلایا بھی کرتا جسے وہ ’’نینی‘‘ کے نام سے پکارتا۔ مختصر یہ کہ ننھا حسنین اس سے بہت مانوس ہوگیا اور مجاہد کے پاس جانے کی ضد کرتا۔ اس دوران کئی برس گذر گئے اور حسنین چودہ سال کا ہوگیا۔ مجاہد کو غلام مرتضیٰ کی والدہ نے اپنا بیٹا بنا کر گھر کا فرد قرار دے لیا۔ مجاہد کی خواہش پر اُس کا گھر بھی 2008ء میں بسا دیا گیا۔ اُس کی شادی محلہ امین آباد کی ایک طلاق یافتہ خاتون ناہید سے کروا دی۔ شادی میں مجاہد کا شہ بالا نینی (حسنین ) بنا تھا۔ مجاہد اکثر حسنین کو گھمانے موٹر سائیکل پر لے جایا کرتا لیکن 11 اگست 2014ء کو حسنین نے مجاہد کے ساتھ سیالکوٹ جانے کی ضد کی۔ ماں نے تو اجازت نہ دی البتہ دادی نے اجازت دے دی اور دن کے 12 بجے کے قریب افتخار عرف مجاہد کی ساتھ موٹر سائیکل پر تیار ہو کر چل دیا۔
دوران سفر مجاہد جگہ جگہ سے نینی کے والد غلام مرتضیٰ کو فون کرکے معلوم کرتا رہا کہ وہ گھر پہنچا ہے یا نہیں۔ غلام مرتضیٰ گھر پہنچا تو بیٹے کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ مجاہد کے ساتھ سیالکوٹ شادی پر گیا ہے۔ غلام مرتضیٰ نے شام 7 بجے مجاہد کو فون کیا لیکن جب دوسری طرف سے کال اٹینڈ نہ کی گئی تو تشویش کا شکار ہوگیا مگر 8 بجے کے قریب رابطہ ہوگیا۔ مجاہد نے بتایا کہ وہ وزیر آباد کے قریب پہنچ چکے ہیں، جلد ہی گھر پر ہوں گے مگر 10بج گئے اور نہ پہنچے، جس پر باپ نے پریشان ہو کر مجاہد سے پھر رابطہ کیا تو اُس نے بتایا کہ وہ دونوں گھر سے چند گز کے فاصلے پر اسٹاف گلہ کے قریب موٹر سائیکل کو پنکچر لگوا رہے ہیں لیکن غلام مرتضیٰ کو تسلی نہ ہوئی اور وہ مجاہد کے گھر جاپہنچا۔ وہاں دیکھا تو تالہ پڑا تھا۔ اس نے اسے اور بھی پریشان کر دیا۔ وہ اس کے سسرال جا پہنچا، جہاں مجاہد کی بیوی ناہید اپنے بھائی کو لے کر حسنین کے والد کے ساتھ گھر آئی۔ اب مجاہد کو اُس کی بیوی کے نمبرسے کئی مرتبہ کال کیا گیا مگر کال اٹینڈ ہونے پر بعد میں نمبر بند کر دیا گیا۔ اسی تشویش اور پریشانی میں رات کے سوا ایک بجے ناہید کو پٹھان لہجے میں ایک کال موصول ہوئی کہ دس سے پندرہ منٹ بعد تم لوگوں کو مجاہد کی نعش مل جائے گی اور نمبر بند کر دیا گیا۔ رات گئے غلام مرتضیٰ کو بھی اسی لہجے میں فون آیا کہ مجاہد کو قتل کر دیا گیا ہے اور بچہ ہمارے پاس ہے جس کی بازیابی کیلئے 20 لاکھ روپے تاوان ادا کرنا ہوگا اور اگر پولیس کو آگاہ کیا گیا تو بچے کو بھی قتل کر دیا جائے گا لیکن غلام مرتضیٰ نے فوراً پولیس چوکی شاہین کو آگاہ کیا۔ 12 اگست 2014ء کو تھانہ سول لائن میں افتخار عرف مجاہد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
ڈی پی او گجرات رائے اعجاز نے تھانہ سول لائین کے ایس ایچ او انسپکٹر ملک عامر، کرائم سین یونٹ کے انچارج حسن عسکری، اسپیشل یونٹ کے اے ایس آئی دلدار اور چوکی شاہین کے انچارج انور سرلہ پر مشتمل چار رکنی ٹیم تشکیل دی، جس نے پہلے مرحلے میں مجاہد کی بیوی کا موبائل قبضہ میں لے کر اُسے غلام مرتضیٰ کے گھر رہنے کی ہدایت کی۔ مجاہد کا مکان کھلوایا گیا تو اُس کا سامان بندھا ہوا تھا، جس پر اُس کی بیوی نے پولیس کو بتایا کہ شادی پر جاتے ہوئے مجاہد نے اُسے بتایا تھا کہ آج ہم کسی دوسری جگہ منتقل ہو رہے ہیں تاکہ کاروبار بہتر انداز میں چل سکے۔ اس پر پولیس کا یقین پختہ ہو گیا کہ ملزم مجاہد ہی ہے۔ اسی دوران مجاہد کے ذاتی نمبر سے ایک اور کال ملی جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ 13 اگست کی صبح 9 بجے تک تاوان پہنچایا جائے ورنہ بچے کی جان لے لی جائے گی۔ غلام مرتضیٰ کی منت سماجت پر دوسری طرف سے مجاہد نے اپنے اصلی لہجے میں بولنا شروع کیا اور غلام مرتضیٰ کے بھائی کو تاوان کی رقم نیشنل بینک شاہدرہ میں آن لائن کروانے کا ایس ایم ایس بھی بھیج دیا تاہم غلام مرتضیٰ اور اُس کی بیوی کے بارہا کہنے پربھی پانچ روز تک حسنین کے ساتھ بات نہ کروائی۔ رقم خود لے کر آنے کی کال پر ورثا نے پولیس کی ہدایت کے مطابق ملزم کو یہ کہ کر الجھائے رکھا کہ احتجاجی دھرنوں کی وجہ سے راستے بند ہیں اور وہ شاہدرہ سے واپس گھر جا رہے ہیں۔ اس دوران غلام مرتضیٰ تاوان کی پہلی قسط ڈیڑھ لاکھ روپے ادا کرنے پر اُسے اس شرط پر آمادہ کر لیتا ہے کہ پہلے وہ حسنین سے بات کرائے۔ مجاہد رات ساڑھے 10بجے حسنین سے بات کروانے پر آمادگی ظاہر کرتا ہے اور پھر 16 اگست کو ملزم نے اسکول بیگ میں رقم، سفید کپڑے پہن کر لانے کی تاکید کی جاتی ہے۔ حسب ہدایت بیگ چونگی امرسدھو کی ایک مسجد میں میں پہنچایا گیا مگر اس کے بعد مجاہد کا نمبر بند ہوگیا۔
ادھر پولیس کو یقین ہوگیا کہ مغوی زندہ نہیں رہا۔ ڈی پی او گجرات رائے اعجاز نے صورت حال سے آگاہ ہونے کے بعد موبائل ڈیٹا اور تاوان کی رقم مسجد سے لے کر جانے والے چہرے کو ٹریس کرکے چونگی امرسدھو سے انتہائی خاموشی سے حراست میں لے لیا۔ غلام مرتضیٰ سے شناخت کرائی
گئی تو معلوم ہوا کہ وہ مجاہد کا 45 سالہ بھتیجا کنول شہزاد تھا۔ اس نے دوران تفتیش بتایا کہ اُس نے حسنین کو 11 اگست کے بعد سے نہیں دیکھاا لبتہ اس کے چچا مجاہد نے اُسے تاوان کی رقم میں سے 25 ہزار روپے دیئے اور بتایا کہ بچہ محفوظ ہے اور یہ کہ وہ کچھ عرصے کیلئے پشاور جا رہا ہے۔ ایس ایچ او ملک عامر نے کنول شہزاد کو وعدہ معاف گواہ بنا کر رہائی دلانے کی آس دلائی اور اسے مجاہد سے رابطہ کرکے تاوان کی باقی رقم حاصل کرنے کی ترغیب دینے پر آمادہ کرلیا۔ بھتیجے نے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ مجاہد ساہیوال میں اپنے دوست یعقوب کے ہاں پناہ لیے ہوئے ہے، کنول کے فون پر اس نے پتوکی میں ملاقات طے کی۔ وہ 18 اگست کا دن تھا جب مجاہد پتوکی میں رکشے سے اُتر ہی رہا تھا کہ کنول شہزاد کی نشان دہی پر پولیس نے اسے گرفتار کرلیا لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ افتخار عرف مجاہد کلین شیو تھا، اس نے روپ بدلنے کو کئی برس سے رکھی اپنی لمبی داڑھی صاف کروالی تھی اور سفید بال بھی مہندی سے رنگے ہوئے تھے۔ شقی القلب ملزم نے جلد ہی اعتراف کر لیا کہ اُسے انکل کہنے والا ’’نینی‘‘ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔
مجاہد نے بتایا کہ وقوعہ کے روز اُس نے حسنین کو گھر سے سیالکوٹ لے جاتے ہوئے نیند کی 8 گولیاں پیس کر پکوڑوں، سموسوں اور بوتل میں ڈال کر اسے دیں مگر بے ہوش ہونے کے بجائے اُس نے رونا شروع کر دیا جس پر خوف زدہ ہو کر اس نے نیم بے ہوش بچے کو سمبڑیال نہر میں دھکا دیدیا اور یہ یقین کرنے کیلئے کہ وہ ڈوب چکا ہے کئی کلومیٹر تک نہر کے کنارے کنارے پیدل چلتا رہا۔ بعد ازاں تھانہ اروپ سے 22 اگست کو انہیں معلوم ہوا کہ 16 اگست کو مذکورہ تھانے کو ایک نامعلوم لڑکے کی نندی پور کے مقام سے نعش ملی ہے جہاں بیٹے کی نعش کی تصویر سامنے آتے ہی غلام مرتضیٰ نے شناخت کرلی اور اُسکی آنکھوں سے نہ تھمنے والے آنسوئوں کا سلسلہ شروع ہوگیا زندہ سلامت بیٹے کی بجائے اُسکی نعش کی تصویر تھامے جب غلام مرتضیٰ گھر میں داخل ہوا تو محلے میں جیسے قیامت ہی برپا ہوگئی۔ حسنین کی نعش کی تصویر دیکھ کر کوئی اُسے پھولوں سے تشبہیہ دیتا تو کوئی اُسے فرشتہ اور کوئی اُسے جگر، دل کا ٹکڑا قرار دیتے ہوئے مسلسل چومتا مگر بیٹے کے دیدار کرنے کیلئے ترسی ماں کے راستے میں پہلے تو ظالم مجاہد 8 روز تک اٹکا رہا مگر جب اُسکی ہلاکت کا علم ہوا تو نعش کے حصول میں عدالتی نظام اور قوانین 9 روز تک آڑے آگئے جہاں کئی بے حس چہرے قبر کشائی کرنے اور نعش کی وصولی تک غلام مرتضیٰ سے پیسے بٹورتے رہے اور پھر 17 روز بعد 27 اگست کو قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ماڈل ٹاؤن قبرستان سے بیٹے کا بے جان جسم لیکر غلام مرتضیٰ گھر اور پھر مقامی قبرستان پہنچ گیا اس رقت آمیز مناظر پر ہر شخص کی آنکھ اشک بار تھی۔
دوران تفتیش مجاہد نے انکشافات کئے کہ وہ آمر ضیاء الحق دور میں کالعدم دہشتگرد تنظیم لشکر اسلام کے جھنڈے تلے اڑھائی سال تک جہاد کرتا رہا پھر ایک ادارے کیلئے مخبری کی خدمات انجام دیتا رہا، جہاں سے غلام مرتضیٰ نے اس کی جان خلاصی کرائی۔ اس دوران نینی (حسنین) نے اسے بتایا تھا کہ وہ پندرہ بیس لاکھ روپے میں گاڑی کے گیراج کیلئے اراضی خریدنے والے ہیں جس پر اس نے لالچ میں آکر سارا پلان منصوبہ اور بھتیجے کنول شہزاد کو بھی 5 لاکھ روپے کا حصہ دار بنا لیا۔ اس بھتیجا کنول شہزاد محکمۂ ٹیلی فون سے ریٹائر ہونے کے بعد چکن شاپ چلا رہا تھا، وہ دو بیٹیوں کا باپ ہے۔ مقتول حسنین کے والد غلام مرتضیٰ پولیس کے کردار سے مطمئن ہے تاہم ایک طرف بیٹے کی زندہ رہائی کے بدلے اغوا کار رقم کا مطالبہ کر رہے تھے تو دوسری جانب نعش کی سپردگی کیلئے سرکاری اہلکار اس کی جیبں ٹٹولتے رہے۔