مضامین

تکفیری داعش مخالف عالمی اتحاد کا مقصد خطے پر امریکی تسلط کا احیاء ہے

ڈیلی الرای الیوم کے کالم نگار اور معروف سیاسی تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے حال ہی میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف امریکہ کی سربراہی میں تشکیل پانے والے بین الاقوامی اتحاد کا جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خلیج تعاون کونسل کے 6 عرب ممالک نے اردن، مصر، عراق، لبنان اور ترکی کے ساتھ مل کر مشرق وسطٰی میں ایک ایسی جدید جنگ کے آغاز کا زمینہ فراہم کر دیا ہے جس کے بیج 2003ء میں امریکہ نے عراق پر فوجی حملہ کر کے بوئے تھے۔ عبدالباری عطوان نے لکھا کہ یہ ممکنہ جنگ دو بنیادی مرحلوں پر مشتمل ہو گی۔ پہلے مرحلے پر داعش پر بغیر پائلٹ ڈرون طیاروں اور جنگی طیاروں کے ذریعے ہوائی حملے شروع کئے جائیں گے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق یہ مرحلہ چند ماہ سے تین سال تک جاری رہ سکتا ہے۔ دوسرے مرحلے پر عراق میں فوج اور کرد جنگجووں کو داعش کے خلاف فوجی مدد فراہم کی جائے گی اور وہ زمینی جنگ کا آغاز کریں گے۔ اس مقصد کیلئے 1000 امریکی فوجی مشیروں کو بھی عراق بھیجا جائے گا۔ 
 
عبدالباری عطوان نے لکھا کہ شام میں امریکہ فری سیرین آرمی کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ لہذٰا ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت بھی اردن اور سعودی عرب پوری طرح فری سیرین آرمی سے وابستہ عناصر کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ شام میں داعش کو نابود کر کے ان کی جگہ صدر بشار اسد کے مخالف دوسرے گروہوں کو میدان میں لانا چاہتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے عراق میں جنرل ڈیوڈ پیٹراوس نے القاعدہ کو کمزور کر کے اس کا کردار بیداری کونسلز کو دے دیا تھا۔ عبدالباری عطوان نے اپنے کالم میں امریکہ کی سربراہی میں تشکیل پانے والے داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد میں خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے بنیادی کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس اتحاد کی جانب سے خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کو انتہائی اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک ذمہ داری تمام فوجی آپریشنز کیلئے ضروری اخراجات فراہم کرنا ہے جبکہ دوسری ذمہ داری اس اتحاد کو اپنے فوجی اڈے فراہم کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے داعش کے خلاف ممکنہ فوجی کاروائی کئی سالوں تک جاری رہے جس پر اربوں ڈالر کا خرچہ آئے گا۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے الظفرہ فوجی اڈہ، قطر کی جانب سے العدید فوجی اڈہ اور کویت کی جانب سے السالم فوجی اڈہ بین الاقوامی اتحاد کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ان فوجی اڈوں سے بین الاقوامی اتحاد میں شامل ممالک کے جنگی طیارے داعش کے ٹھکانوں کو اپنی بمباری کا نشانہ بنائیں گے۔ اسی طرح خلیج فارس میں موجود امریکی طیارہ بردار بحری بیڑوں جیسے جرج بش بحری جہاز سے بھی داعش کے ٹھکانوں پر ہوائی حملے کئے جائیں گے۔ 
 
معروف عرب تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد میں ترکی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ چونکہ ترکی نیٹو کا رکن ملک ہے لہذٰا اسے شدید محدودیتوں کا سامنا ہے۔ ترکی اچھی طرح جانتا ہے کہ اس اتحاد میں شرکت اس کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ اتحاد کرد جنگجووں کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے اور کردوں میں ہی موجود ایک گروہ یعنی کردستان لیبر پارٹی اس وقت ترکی کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ لہذا ترکی کو یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں یہ اسلحہ کردوں کی جانب سے اسی کے خلاف استعمال ہونا شروع نہ ہو جائے۔ دوسری طرف عراق میں داعش نے ترکی کے کئی سفارتکاروں کو یرغمال بنا رکھا ہے لہذا ترکی نہیں چاہتا کہ داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد میں شریک ہو کر ان کی جان کو خطرے میں ڈالے۔ اسی طرح ترکی کی سالانہ آمدنی کا بڑا حصہ سیروسیاحت کی صنعت سے حاصل ہوتا ہے جو ایک اندازے کے مطابق 35 ارب ڈالر ہے۔ اگر ترکی داعش کے خلاف تشکیل شدہ بین الاقوامی محاذ کا حصہ بنتا ہے تو اسے ملک میں دہشت گردانہ حملوں کا خطرہ درپیش ہو گا جس کے باعث سیروسیاحت کی صنعت کو شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ 
 
ترک حکومت نے رسمی طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ داعش کے خلاف تشکیل پانے والے بین الاقوامی اتحاد کے فوجی آپریشنز میں حصہ نہیں لے گا لیکن ترکی نے بین الاقوامی اتحاد کو اینجرلیک نامی فوجی اڈے کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے جہاں سے امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جائے گی۔ برطانیہ اور جرمنی نے بھی ترکی جیسا موقف اختیار کیا ہے۔ ان دو ممالک نے اعلان کیا ہے کہ وہ داعش کے خلاف انجام پانے والے ہوائی حملوں میں شریک نہیں ہوں گے۔ اسی طرح فرانس نے اعلان کیا ہے کہ اگر بین الاقوامی اتحاد کی جانب سے رسمی طور پر درخواست موصول ہوئی تو وہ اس اتحاد میں شامل ہونے کا جائزہ لے گا۔ یہ تمام شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ خود مغربی ممالک بھی داعش کے خلاف تشکیل پانے والے اس بین الاقوامی اتحاد کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ وہ امریکہ کی جانب سے عراق اور شام میں فوجی مداخلت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انہیں امریکہ پر اعتماد نہیں۔ 
 
معروف عرب تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے اپنی تحریر کے آخر میں اس نکتے پر تاکید کی ہے کہ داعش کے خلاف انجام پانے والی فوجی کاروائیوں میں ایران اور شام کی عدم موجودگی ان کاروائیوں کے ناکام ہونے کا باعث بنے گی۔ داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد تشکیل دینے سے امریکہ کا بنیادی مقصد مشرق وسطٰی میں ایک جدید پراکسی وار شروع کرنا ہے جس کا واحد ہدف خطے میں امریکی اثرورسوخ اور تسلط کو احیاء کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے امریکہ خطے میں بڑ
ے پیمانے پر فوجی اڈے بنا کر خطے میں موجود انرجی کے ذخائر پر مکمل قبضہ جمانا چاہتا ہے۔ عراق اور یمن میں امریکہ دو قسم کے اہداف رکھتا ہے۔ ایک کم مدت والے اہداف اور دوسرے بلند مدت والے اہداف۔ امریکہ کم مدت میں دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتا ہے لیکن بلند مدت میں مشرق وسطٰی پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔ ماضی میں امریکہ کی جانب سے افغانستان اور عراق پر فوجی جارحیت کا اصلی مقصد بھی یہی تھا لیکن اسے اپنے اہداف حاصل کرنے میں مکمل ناکامی کا شکار ہونا پڑا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button