ایران کیخلاف ہرزہ سرائی کرنے والا جنرل اسلم بیگ، بیان سے معافی تک (خصوصی کالم)
تحریر: عمران خان
مہران بینک اسکینڈل میں سپریم کورٹ آپ کو ملزم قرار دے چکی ہے تو کیا آپ تمغہ جمہوریت واپس کر دیں گے،؟ یہ تھا وہ سوال جس کے جواب میں سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ رپورٹر کے ساتھ انتہائی بداخلاقی سے پیش آئے تھے۔ رپورٹر کو دھمکانے کے لئے ایک اور صاحب بھی بیچ میں آن دھمکے اور مائیک چھین کر اسے زود و کوب کرنے کی کوشش کی۔ عوام پہلے ہی حکومت مخالف جاری دھرنوں سے متعلق اسلم بیگ کے متنازعہ بیان پر حیرت زدہ تھے، اب سوشل میڈیا پر گردش کرتی اس فوٹیج میں رپورٹر کے ساتھ جنرل بیگ کا یہ ’’حسن سلوک‘‘ محفلوں میں موضوع گفتگو بنا ہوا ہے۔ اس سے قبل مرزا اسلم بیگ نے اپنے انٹرویو میں موجودہ حکومت کے خلاف عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنوں کو سازش قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ امریکہ، برطانیہ نے ایران سے ملکر پاکستان میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی۔ دھرنوں کی سازش میں پانچ سال لگے ہیں۔ روزنامہ جنگ کے معروف کالم نویس اور تجزیہ کار نذیر سندھو نے سوشل میڈیا پر اپنے ردعمل کے اظہار میں کہا ہے کہ ’’جنرل بیگ کچھ دیر مختلف اخبارات میں کالم نگاری کرتے رہے، جب انکے قلم سے عقل کی کوئی خوشبو نہ آئی تو اخبارات نے قلم بندی کر دی۔ انہوں نے پارٹی بنائی تو کوئی دوسرا ممبر نہیں مل سکا، موصوف فرماتے ہیں عمران اور قادری دھرنے امریکہ، کینیڈا، برطانیہ کی سازشی تھیوری ہے۔ آئی جے آئی جسے سپریم کورٹ سازشی جرم قرار دیکر جنرل بیگ اور جنرل درانی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے چکی ہے۔ بیگ صاحب کا یہ انٹرویو بھی ایک سازش ہے اور کتنے میں ہے، یہ صیغہ راز میں رہے گا۔ ورنہ جنرل کو اتنا تو علم ہے کہ کینیڈا، جاپان، سویڈن اور ناروے جیسے ملک امیر ضرور ہیں مگر عالمی سیاست کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ ملٹری طاقتیں نہیں ہیں۔ یہ کافی عرصے سے خریدے ہوئے قلمکار ہیں۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کے مالک 84 سالہ جنرل بیگ متعدد اخبارات میں کالم اور رپورٹس لکھتے رہے، لیکن ان کی تحریریں وہ مقبولیت حاصل نہ کرسکیں جو کہ ایک سابق آرمی چیف کے شایان شان ہوں۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جنرل بیگ کی ابتک کی تحریروں اور ان کے حالیہ بیان میں ڈھونڈنے سے بھی ربط نہیں ملتا۔ ان کا لکھا کوئی بھی کالم یا مضمون اٹھالیں تو اس میں امریکہ، اسرائیل، بھارت اور بعض مقامات پر عرب ممالک بھی ہمیشہ ایک صفحہ پر نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان، ایران اور چین دوسرے صفحے پر ایکدوسرے کے مددگار کے طور پر ملتے ہیں۔ ان تحریروں کے برعکس جب ان کے بیانات یا انٹرویوز کا جائزہ لیں تو پاکستان کی تاریخ کے معصوم ترین چیف آف آرمی اسٹاف کے طور پر وہ مسلم لیگ نواز کی حمایت میں پاک فوج سمیت باقی تمام سیاسی جماعتوں کی مخالفت کرتے نظر آئیں گے۔ جنرل بیگ اپنے زبانی بیانات میں ایران کا تعلق امریکہ سے جوڑتے ہیں جبکہ تحریروں میں امریکی سازشوں کا ہدف ایران کو سمجھتے ہیں۔ تحریر اور تقریر میں پایا جانیوالا تضاد ظاہر کرتا ہے کہ یا تو بیگ صاحب کی تحریریں اپنی نہیں ہوتیں یا زبان اپنی نہیں بولتے۔ دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ لکھتے سوچ کر ہیں لیکن بولتے ہوئے سوچتے نہیں، ان کی طویل العمری دوسرے خیال کو زیادہ تقویت فراہم کرتی ہے۔
جنرل بیگ اپنی تحریروں میں لکھتے ہیں کہ ’’امریکی جنگ کا ہدف ایران ہے جسے گذشتہ کئی دہائیوں سے انتہائی خطرناک ظاہر کرکے علاقے کے سنی ممالک کے ذہنوں میں خوف بٹھایا گیا ہے۔ اس خوف کے تحت انہوں نے امریکہ سے تقریباً دو سو بلین ڈالر مالیت کا اسلحہ خریدا ہے۔ سنی ممالک امریکہ سے خریدے گئے اسلحے کے بل بوتے پر پہلے ہی بحرین میں مداخلت کرچکے ہیں اور اب شام کے خلاف جنگ میں شامل ہیں۔ یقیناً امریکہ نے نئی حکمت عملی کے اہداف حاصل کرنے کیلئے سفارتی ہنرمندی اور عسکری ہتھکنڈوں کو اس خوبصورتی سے ترتیب دیا ہے کہ عالم اسلام جہاں میر جعفروں اور میر صادقوں کی کمی نہیں ہے خود اپنے ہی عمل و کردار کے سبب اسیر دام ہوچکا ہے۔‘‘ ایک اور مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کے ساحلی علاقے جیوانی، کوٹ کلمات کے مقام پر متعین امریکی اہلکار بی ایل اے اور جنداللہ کے تعاون سے دہشت گردی کے منصوبوں کو حتمی شکل دیتے ہیں۔ مند کے مقام سے ایران کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ بحیرۂ عرب میں امریکی جنگی بیڑا اور مسقط میں قائم امریکی جاسوسی مراکز ان کارروائیوں کے لئے ہر قسم کی مدد فراہم کرتے ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ ’’چند ماہ میں کئی اہم سعودی شخصیات نے پاکستان کے متعدد دورے کئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران سے بہتر ہوتے ہمارے تعلقات میں وہ گرمجوشی نہیں رہی جو ان دوروں سے قبل تھی، پاک ایران گیس پائپ لائن پر بھی پاکستان کا رویہ نرم پڑ گیا ہے اور اب شاید اس پر کام آگے نہ بڑھ سکے۔ ہمیں پڑوسی برادر ملک سے تعلقات میں بہتری لانی چاہیئے، ایران کے بغیر افغانستان میں امن نہیں ہوسکتا، سعودی عرب اس معاملے میں ہماری مدد نہیں کرسکتا، تاہم ایران ایسا کرسکتا ہے۔‘‘
کچھ عرصہ قبل کی جنرل بیگ کی تحریروں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان اور ایران مشترکہ طور پر امریکہ کے مذموم ایجنڈے کی زد میں ہیں۔ امریکی عزائم کے حصول میں میر جعفر اور میر صادق کا کردار پاکستان یا ایران ادا نہیں کر رہے بلکہ عرب ممالک شام کے قضیئے میں ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان اور ایران برادر اسلامی ملک ہیں، جنکے درمیان میں سعودی شخصیات حائل ہونے کی ک
وشش کر رہی ہیں۔ پھر محض ایک سال کے وقفے میں ایسی کونسی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں کہ بقول جنرل امریکہ، برطانیہ اور ایران کے درمیان تعلقات اس حد تک بہتر ہوگئے ہیں کہ وہ ملکر پاکستان میں انتشار پھیلائیں۔ مرزا اسلم بیگ نے اپنے بیان میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ دھرنوں کی سازش پانچ سالہ ہے۔ ان پانچ سالوں میں ان کی ایک بھی ایسی تحریر منظر عام پر موجود نہیں ہے، جس میں سازش سے متعلق کوئی اشارہ موجود ہو، جبکہ زیر نظر اقتباسات جن کالم و مضامین سے لئے گئے ہیں وہ ان دو سالوں کے اندر لکھے گئے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جنوری 2013ء میں بھی ڈاکٹر طاہر القادری پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف ایک کامیاب دھرنا دے چکے تھے، جس کے راستے میں پنجاب حکومت نے دودھ و چائے کی سبیلیں بھی لگائیں تھیں، اگر یہ واقعی پانچ سالہ سازش تھی تو جنرل صاحب اتنا عرصہ خاموش کیوں رہے۔؟ پھر سابق آرمی چیف کو بجا طور پر یہ تسلیم کرنا چاہیئے کہ خطے میں ہونیوالی تبدیلیوں سے متعلق دھرنوں کی اس گہری ’’سازش‘‘ سے وہ اور ان کا فرینڈز نامی تھنک ٹینک قطعی طور پر لاعلم تھے۔ اگر وہ اپنی لاعلمی خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں تو اسلام آباد دھرنوں کے حوالے سے ان کا حالیہ بیان بھی ان کی لاعلمی اور کم فہمی کے پیرائے میں ہی شمار کیا جائے گا، جس کی بجا طور پر انہیں معافی بھی مانگنی چاہیے۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جنرل بیگ کی یہ کوئی پہلی لاعلمی شمار نہیں ہوگی اور اگر وہ معافی مانگ لیں تو یہ ان کی پہلی معافی بھی نہیں ہوگی۔ اس سے قبل بھی وہ اپنی لاعلمی کا متعدد مرتبہ اظہار کر چکے ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ مجھے افغانستان پر حملہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، مگر بے نظیر بھٹو جلال آباد پر پاکستانی پرچم لہرانے کی خواہشمند تھیں، جس وقت جلال آباد پر حملہ کیا گیا، مجھے اس کا علم نہیں تھا، اگرچہ میں اس وقت آرمی چیف تھا مگر میں ملک سے باہر تھا۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے ملکر لڑی اور جیتی۔ میں اس جنگ میں بھی شامل نہیں تھا۔ جنرل ضیاءالحق، انکے چند لوگ اور ایک مخصوص گروپ اس جنگ میں ملوث تھا۔ میں نے 86 سے 87 تک پشاور ڈویژن کو کمانڈ کیا، لیکن میرا اور فوج کا اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا، آئی ایس آئی مجھے نہیں جوائنٹ سروسز ہیڈ کوارٹر کو رپورٹ کرتی تھی۔ یعنی آرمی چیف ہوتے ہوئے بھی وہ فوج اور امریکہ سے متعلق اہم معاملات سے لاعلم تھے۔ بطور ڈویژن کمانڈر پشاور میں ہونے کے باوجود افغان ایشو پہ ہونیوالی پیشرفت سے لاعلم تھے۔ اگر وہ حاضر سروس رہ کر ان معاملات سے لاعلم ہوسکتے ہیں تو دھرنوں سے متعلق ’’سازش‘‘ سے ان کی لاعلمی برحق ہے۔ جہاں تک ان کی معافی کا تعلق ہے تو مہران بینک سکینڈل میں انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے جب اپنا بیان سپریم کورٹ میں داخل کرایا تو انکے بیان کے ایک پیراگراف پر چیف جسٹس نے اسے عدلیہ کی توہین قرار دیا۔ اس پر انہوں نے باقاعدہ معافی مانگتے ہوئے وہ پیراگراف حذف کرایا۔ وہ اپنے قابل اعتراض بیان پر عدلیہ سے معافی مانگ سکتے ہیں تو حالیہ بیان جس سے ان کے لاکھوں چاہنے والوں کو شدید ذہنی صدمہ پہنچا ہے، معافی مانگنے میں انہیں جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
آخر میں ان کے کالم کا ایک اور اقتباس، لکھتے ہیں کہ ’’اسلام دشمن ہر جگہ فرقہ وارانہ تصادم دیکھنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں بھی اسی فرقہ وارانہ تصادم کو ہوا دی جا رہی ہے، جہاں فرقہ وارانہ تصادم کا حربہ کام نہیں آتا وہاں نسلی عصبیت کو ہوا دی جاتی ہے۔ امریکہ ایک ایسے موقع پر جب وہ افغانستان سے شکست کھا کر نکل رہا ہے تو اس کی خواہش ہے کہ اس خطے میں بدامنی رہے اور یوں وہ اپنی شکست کا بدلہ لے سکے۔‘‘ اب جنرل صاحب خود غور فرمائیں کہ ان کے متنازعہ بیان سے ملک میں کس چیز کو ہوا ملنے کا اندیشہ غالب ہے۔ ایک جانب جنرل بیگ ملک میں فرقہ واریت، نسلی عصبیت کی امریکی سازش کا ذکر کرتے ہیں اور دوسری جانب عوام کے احتجاجی دھرنوں اور وزیرستان میں آپریشن سے متعلق مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق اور کالعدم سپاہ صحابہ کے موقف کی حمایت بھی کرتے ہیں، (واضح رہے کہ جنرل بیگ وزیرستان میں فوجی آپریشن کے شدید ترین مخالف بھی ہیں)۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جنرل بیگ بھی ملک میں امریکی خواہشات کی تکمیل کے واسطے ایسے بیانات دے رہے ہیں۔ ویسے امریکہ نے نواز شریف حکومت کی مکمل طور پر حمایت کی ہے، چنانچہ دھرنوں کے ضمن میں امریکہ، نواز لیگ، کالعدم سپاہ صحابہ مولانا فضل الرحمن اور جنرل بیگ میں مکمل طور پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔