امریکہ اور کالعدم سپاہ صحابہ کی قدر مشترک
رپورٹ: ایس اے زیدی
گزرتے وقت کیساتھ ساتھ عالمی سطح پر یہ حقیقت آشکار ہوتی جا رہی ہے کہ دنیا بھر میں ہونے والی دہشتگردی کا سب سے بڑا ذمہ دار امریکہ اور اس کے بعض اتحادی ہیں، اس حقیقت کا اعتراف بعض امریکی حکام مختلف مواقع پر خود بھی کرتے آئے ہیں، سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کچھ عرصہ قبل یہ اعتراف کیا تھا کہ ’’ہم نے ان لوگوں کو سپورٹ کیا جو آج دنیا میں دہشتگردی کر ریے ہیں، اس کے علاوہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے سے ریٹائرڈ ہونے والے حکام بھی القاعدہ اور طالبان کے حوالے سے اس قسم کے اعترافات کرچکے ہیں، تاہم امریکہ عرصہ دراز سے دہشتگردی کے حوالے سے ایک ایسی پالیسی اپنائے ہوئے ہے جس کے ذریعے وہ اقوام عالم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کرتا اور اپنا اثر و رسوخ کئی ممالک تک بڑھاتا جا رہا ہے۔
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں فرقہ پرستی کو پروان چڑھانے، تکفیریت کا ٹرینڈ متعارف کرانے، فرقہ کی بنیاد پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے اور تعصب کا بیج بونے میں اہم کردار ادا کرنے والی جماعت اہلسنت والجماعت المعروف کالعدم سپاہ صحابہ نے بھی امریکی پالیسی کی پیروی شروع کر رکھی ہے، اس کالعدم جماعت نے پاکستان کی نظریاتی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں لیڈنگ رول ادا کیا، اس جماعت کا پہلا نشانہ اہل تشیع رہے، علاوہ ازیں اہل سنت (بریلوی) اور اب دیوبندی شخصیات بھی اس جماعت کا نشانہ بنی ہیں، جس کا ثبوت مختلف تحقیقات میں سامنے آیا، اس رپورٹ میں امریکہ اور کالعدم سپاہ صحابہ کے مابین پائے جانے والی اس قدر مشترک کا جائزہ لیا جائے گا، سب سے پہلے امریکہ کی دہشتگردی کے حوالے سے اس پالیسی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے۔
امریکہ نے نائن الیون کے واقعہ کے بعد اسامہ بن لادن کو اس سانحہ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس کی تلاش میں افغانستان پر چڑھائی کی، اور اس کی تلاش کا بہانہ بنا کر اب تک اپنے نیٹو اتحادیوں کے ہمراہ افغان سرزمین پر قابض ہے، اسامہ بن لادن کے ڈرامہ کا اختتام ایبٹ آباد آپریشن پر ہوا، تاہم امریکہ اپنے ہی بنائے ہوئے مہرے (اسامہ) کو جواز بنا کر ایک ملک پر حملہ کیا، اسی طرح کی صورتحال عراق میں بھی سامنے آئی کہ جب امریکہ نے اپنے ہی اہم اتحادی صدام حسین کو نشانہ بنانے کا بہانہ بنا کر عراق کی سرزمین پر حملہ کردیا، اور کئی سال تک وہاں سے تیل کی لوٹ مار کی جاتی رہی، طالبان اور القاعدہ کے بعد امریکہ کیلئے اپنی اس پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے دوسرے ممالک پر چڑھائی کا منصوبہ متاثر ہونے لگا تھا، جس کے بعد امریکہ نے ’’داعش‘‘ کا کارڈ استعمال کیا۔
داعش کے دہشتگرد جب عراق کے کئی شہروں پر حملہ آور ہوئے تو عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے یہ جان چکے تھے کہ اب امریکہ داعش کو بہانہ بنا کر عراق پر دوبارہ چڑھائی کرے گا، اسی قسم کی صورتحال شام میں بھی بنانے کی کوشش کی گئی، امریکہ کا اگلہ ہدف عراق پر دوبارہ قبضہ اور شام میں داخل ہونا تھا، جس کیلئے داعش کے خلاف کارروائی کا جواز فراہم کیا جا رہا ہے، یعنی امریکہ پہلے دہشتگرد گروہ خود پیدا کرتا، پھر ان کو اپنے مطلوبہ ملک بھیجتا اور پھر ان کے خلاف کارروائی کا جواز فراہم کرکے اس ملک میں داخل ہوجاتا ہے، اور یوں اس ملک میں داخل ہوکر دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی آڑ میں اپنے مفادات حاصل کرتا ہے۔ امریکہ نے اپنی اس پالیسی کے ذریعے دنیا کے سامنے اپنا اصل چہرہ چھپانے اور دہشتگردی کیخلاف جنگ کا سب سے بڑا علمبردار بننے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان میں اس قسم کی پالیسی کالعدم تکفیری جماعت سپاہ صحابہ نے بھی اپنا رکھی ہے، سپاہ صحابہ کے دہشتگرد کئی اہل تشیع اور اہلسنت (بریلوی) شخصیات کے قتل میں تو ملوث پائے گئے، تاہم اب اس جماعت نے اپنے اقدامات کو جواز فراہم کرنے کیلئے دیوبندی علماء و مذہبی شخصیات اور بالخصوص سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کہ جن کے بارے میں اسے کسی قسم کے شکوک و شبہات ہوں، کو بھی نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، اور ٹارگٹ کلنگ کی ان وارداتوں کے بعد الزام اہل تشیع پر عائد کرتے ہوئے امام بارگاہوں پر حملے اور مقدسات کی توہین کی جاتی ہے، کچھ عرصہ قبل یہ حقیقت سامنے آئی کی کالعدم سپاہ صحابہ کے مابین شدید اخلافات ہیں، جس کا ثبوت گذشتہ برس لاہور میں ہونے والا ایک اجلاس تھا، جس میں اہلسنت والجماعت المعروف کالعدم سپاہ صحابہ کے ملویوں نے ایک دوسرے کی داڑھیاں بھی نوچ ڈالیں، اس اجلاس میں ایک دوسرے کے بارے میں ایجنسیوں کا ایجنٹ ہونے دعوے کئے گئے۔
گذشتہ برس کالعدم سپاہ صحابہ کے مرکزی رہنماء مولانا اورنگزیب فاروقی پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا، جس کی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اس حملہ میں سپاہ صحابہ کے دہشتگرد ہی ملوث تھے، علاوہ ازیں جامعہ بنوریہ کراچی کے تین مدرسین کو نشانہ بنایا گیا، اس کے اشارے بھی کالعدم جماعت کی طرف ہی گئے، اسی طرح گذشتہ برس دسمبر میں کالعدم سپاہ صحابہ پنجاب کے صدر مولانا شمس الرحمان معاویہ کو قتل کیا گیا، جس کے بعد پولیس نے تفتیش کے بعد انکشاف کیا کہ اس قتل میں سپاہ صحابہ کا ملک اسحاق گروپ ملوث ہے، کچھ عرصہ قبل کراچی میں مفتی نعیم کے داماد مولانا مرزا مسعود کو نشانہ
بنایا گیا، اور رواں ماہ سپاہ صحابہ کے ہمدرد سمجھے جانے والے مفتی امان اللہ کو راولپنڈی میں قتل کیا گیا، اس کے علاوہ بھی دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء، مذہبی شخصیات بالخصوص سپاہ صحابہ کے رہنماوں کے قتل کے تانے بانے اسی کالعدم تکفیری جماعت سے جا ملتے ہیں۔
سپاہ صحابہ کی جانب سے اپنی ان کارروائیوں کے بعد الزام اہل تشیع پر عائد کرتے ہوئے امام بارگاہوں پر حملے، مقدسات کی توہین، توڑ پھوڑ، گھیراو جلاو، اور غلیظ نعرہ بازی کی جاتی ہے، جس طرح امریکہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کیلئے پہلے دہشتگرد اپنے ہدف (ملک) بھیجتا ہے، پھر ان کیخلاف کارروائی کا نعرہ لگا کر وہاں جاتا ہے اور پھر وہاں قابض ہو جاتا ہے، اسی طرح پاکستان میں کالعدم سپاہ صحابہ پہلے اپنے ہی ہمدرد اور جماعت کے رہنماوں کو قتل کرتی ہے، پھر اس کے بعد مخالف مکتب فکر پر الزام عائد کیا جاتا ہے اور اسی الزام کی آڑ میں عبادت گاہوں پر حملے، مقدسات کی توہین، توڑ پھوڑ اور مخالف شخصیات کے خلاف مقدمات درج کرا دیئے جاتے ہیں، امریکہ اور کالعدم سپاہ صحابہ کے مابین پائی جانے والی اس قدر مشترک کو اہل دانش کو سمجھنا ہوگا اور ان دونوں کے شر سے وطن عزیز بالخصوص ملت اسلامیہ کو محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔