شام کیخلاف سازشوں کی تاریخ (پہلی قسط)
تحریر: عرفان علی
مشرق وسطٰی کے عرب ملک سوریا جسے اردو میں شام اور انگریزی میں سیریا کہا جاتا ہے، کے بارے میں راقم الحروف نے پہلی مرتبہ تفصیل سے ایک ماہنامہ جریدہ ’’منتظر سحر‘‘ میں ستمبر 2011ء میں لکھا۔ شام کے موجودہ مسائل کے حقیقی ادراک کے لئے جدید شام کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس لئے قارئین کی معلومات میں اضافے کے لئے اس تفصیلی مقالے کی نوک پلک درست کرکے یہ قسط وار سیریز پیش خدمت ہے۔ مقصد یہ ہے کہ شام کی تاریخ اور موجودہ بحران کے پس پردہ قوتوں اور امریکی قیادت میں قائم نام نہاد فرینڈز آف سیریا نے شام کے خلاف طول تاریخ میں جو کردار ادا کیا وہ بھی آشکار ہوجائے۔ اسلام ناب محمدی کے خلاف سازشوں کے وقت بھی بنو امیہ کے بدترین دور ملوکیت کا دارالحکومت شام تھا، لیکن موجودہ ملک شام اہلبیت علیہم السلام کے دوستوں کا ملک ہے۔
موجود شام کی جدید تاریخ پہلی جنگِ عظیم (سال 1914ء تا 1919ء) سے شروع ہوتی ہے۔ پہلی جنگِ عظیم اتحادیوں (Allies) اور سینٹرل پاورز یعنی مرکزی طاقتوں کے درمیان لڑی گئی تھی۔ اتحادیوں میں برطانیہ، بیلجیم، اٹلی، یونان، جاپان، مونٹی نیگرو، روس اور سربیا شامل تھے۔ سینٹرل پاورز میں آسٹریا، ہنگری، بلغاریہ، جرمنی اور ترک سلطنتِ عثمانیہ شامل تھیں۔ فرانس بھی اتحادیوں کی صف میں تھا۔ اکتوبر 1916ء میں روس، فرانس اور برطانیہ کے درمیان روابط کے ذریعے خفیہ سائیکس پیکو معاہدہ طے پاچکا تھا۔ دسمبر1917ء میں روس میں بولشیوک حکومت نے سرکاری اخبار ازویسٹیاء نیوز میں شائع کروا دیا تھا۔ اس کے علاوہ برطانیہ کے مصر میں تعینات ہائی کمشنر ہنری میک میہن نے سلطنت عثمانیہ کے تحت کام کرنے والے حجاز کے گورنر (شریفِ مکہ) حسین بن علی الہاشم سے خفیہ روابط کے ذریعے معاہدہ کیا تھا۔ یقین دہانی کرائی تھی کہ اگر سلطنتِ عثمانیہ جنگِ عظیم اول میں شکست کھا جاتی ہے تو خطہ عرب کے مشرق میں واقع سارے علاقے ان کے خاندان کو دیئے جائیں گے۔ اس معاہدے کے تحت شریفِ مکہ کا خاندان برطانوی فوج کے ساتھ میدانِ جنگ میں اترا تھا۔
1918ء میں ترک سلطنتِ عثمانیہ کا سقوط ہوا۔ 1920ء تک شریفِ مکہ کے بیٹے شاہ فیصل بن حسین الہاشم اول نے شام پر بادشاہ کی حیثیت سے حکومت کی۔ عرب قوم پرستوں نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ 1920ء کے وسط میں فرانس نے سائیکس پیکو معاہدے کے تحت شام پر قبضہ کرلیا۔ بعد میں شام کے علاقوں میں کمی کرکے لبنان نامی صوبہ نما ولایت قائم کی۔ 1924ء میں فرانس کے قبضے میں شام نامی ریاست کا اعلان کیا گیا۔ لیگ آف نیشنز کا مسلط کردہ فرانسیسی انتداب (فرنچ مینڈیٹ) 1946ء تک قائم رہا۔ یاد رہے کہ 1939ء تا 1945ء دوسری جنگِ عظیم لڑی گئی تھی۔ شام مسلسل جدوجہد میں مصروف رہا تھا۔ 1924ء سے 1925ء مسلح بغاوت جاری رہی۔ 1928ء میں مذاکراتی عمل کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک قومی اسمبلی قائم کی گئی لیکن اس میں عرب قوم پرست جماعتوں کے اتحاد نیشنل بلاک کا غلبہ تھا۔
اس اسمبلی کے تیار کردہ آئین میں فرانسیسی انتداب کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔ لہٰذا 1930ء میں فرانس نے آئین تسلیم کرنے کے بجائے اسمبلی تحلیل کرکے اپنا آئین مسلط کر دیا تھا۔ اس آئین کے تحت قائم کردہ قومی اسمبلی بھی فرنچ مینڈیٹ کے ہائی کمشنر سے ایک معاہدے کی شرائط پر متفق نہیں ہوئی تو اسے بھی معطل کر دیا گیا۔ 1936ء کے اوائل تک عوامی احتجاج میں شدت آچکی تھی۔ ہڑتالوں کے نتیجے میں کاروبارِ زندگی7 ہفتوں تک معطل ہوکر رہ گیا تھا۔ فرانس سامراج نے نیشنل بلاک سے مذاکرات کئے لیکن فرانس میں بائیں بازو کی پاپولرفرنٹ کی سیاست کے زیر اثر شام میں بھی پاپولر فرنٹ حکومت قائم کی گئی۔ ستمبر میں ایک معاہدے میں فرانس نے شام کو تین سالوں میں مشروط طور پر آزاد کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ شرائط میں فرانس کے لئے طویل المدت فوجی، سیاسی اور اقتصادی فوائد شامل تھے۔
1939ء میں دوسری جنگِ عظیم کے وقت فرانس نے نیشنل بلاک کی حکومت کو معطل کرکے خود کا مسلط کردہ آئین بھی ختم کر دیا۔ مارشل لاء کے ذریعے حکومت کرنے لگا۔ 1940ء میں ہٹلر کے نازی جرمنی نے شمالی فرانس پر قبضہ کرلیا۔ بعدازاں Vichy مرکزی فرانس میں جرمنی کی حامی حکومت قائم ہوگئی۔ فرانس کے سامراجی تسلط میں جو ممالک تھے انہیں اوورسیز فرانسیسی علاقے کہا جاتا تھا، وہ اس حکومت کے کنٹرول میں آگئے۔ جون 1941ء برطانیہ اور فری فرنچ فورسز نے اس حکومت کو شام اور لبنان کے علاقوں میں شکست دی۔ 1941ء میں بھی شام کو محدود برائے نام آزادی دینے کا اعلان کیا گیا۔ 1943ء میں نیشنل بلاک انتخابات میں کامیاب ہوا۔ 1944ء میں امریکہ اور سابق سوویت یونین نے شام کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ جرمنی سے جنگ کے اعلان کے صلے میں شام کو بھی اقوامِ متحدہ کے قیام کے لئے ابتدائی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔
اپریل 1946ء تک شام پر تسلط کے دوام کے لئے فرانس سرتوڑ کوششوں میں مصروف رہا اور بالآخر انخلاء پر مجبور ہوا۔ 1918ء تا 1920ء شام عرب بادشاہت رہنے کے بعد یہ شام کی آزادی کا دوسرا مرحلہ تھا جو 1920ء میں فرانس کے باقاعدہ تسلط سے شروع ہوا تھا۔ اس دور میں اس علاقے کو فرنچ مینڈیٹ کے نام سے بین الاقوامی سیاست میں پہچانا جاتا تھا۔ 1946ء سے 1958ء تک یہ ملک جمہوریہ شام اور 1958ء سے 1961ء تک مصر کے جمال عبدالناصر کی قیادت میں مصر اور شام پر مشتمل متحدہ عرب جمہوریہ رہا۔ 1961ء سے تاحال اس کا نام عرب جمہوریہ شام ہے۔
1948-49ء جنگِ آزادئ فلسطین میں عربوں کی ناکامی کے بعد شام می
ں فسادات ہوئے، جسے جنگ میں شام کی ناکام شرکت کا عوامی ردِعمل ظاہر کیا گیا۔ مارچ 1949ء میں فوجی بغاوت ہوئی۔ 1954ء تک چھ سال کے دوران مختلف حکمرانوں کے تحت فوجی حکومت غالب رہی، جس کا آخری حکمران ادیب شش کلی تھا۔ ستمبر 1954ء کے انتخابات مشرقِ وسطٰی کے ممالک میں پہلے آزاد انتخابات قرار پائے، جس میں خواتین کو بھی ووٹنگ کا حق دیا گیا تھا۔ ان آزاد انتخابات میں بعث پارٹی سمیت دیگر ریڈکل گروہوں کو تقویت ملی۔
1961ء میں ایک فوجی بغاوت کے ذریعے شام اور مصر کا الحاق ختم کرکے فوجی افسران کے ایک گروہ نے حکومت سنبھالی۔ مارچ 1963ء میں ایک اور بغاوت کے ذریعے پچھلی حکومت برطرف کر دی گئی۔ 1966ء تک اختلافات کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر کار ریڈیکل گروپ کے حق میں معاملہ طے پایا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں ناکامی کا الزام صلاح جدید پر لگایا گیا جو سوشلسٹ ونگ کے سربراہ تھے۔ یاد رہے کہ نومبر 1970ء میں حافظ الاسد غالب آگئے اور 1971ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے صدر منتخب ہوگئے۔ 1972ء میں انہوں نے نیشنل پروگریسیو فرنٹ نامی اتحاد کے ذریعے دوست جماعتوں پر مشتمل سیاست کا آغاز کیا۔ وہ 1973ء کی جنگ میں پہلے جولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے قبضے سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے لیکن بعد میں صہیونی غاصب ریاست کے فوجی دوبارہ قابض ہوگئے۔
حافظ الاسد کے دورِ حکومت کے بارے میں مزید کچھ تحریر کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اب تک بیان کردہ حقائق کی روشنی میں شام اور اس کے معاملات میں غیر ملکی مداخلت کرنے والے چہرے بے نقاب کئے جائیں۔ سوویت یونین، برطانیہ اور فرانس کی کھلی مداخلت بیان کی جاچکی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ، سعودی عرب اور دیگر عرب بادشاہتیں بھی مل جل کر شام کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتی رہی ہیں۔ 1949ء کی بغاوت میں امریکی سفارت خانے کا کردار سامنے آیا تھا۔ 1950ء کی دہائی میں مصر جب نہرِ سوئز کے بحران سے گذر رہا تھا تب امریکہ شام اور لبنان میں اسرائیلی مفادات کا تحفظ کر رہا تھا۔ بظاہر امریکہ نے مصر پر مسلط کردہ فرانس برطانیہ اور غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی جنگ کو ختم کرانے میں کردار ادا کیا تھا، لیکن اس مرحلے میں وہ جمال عبدالناصر کو اپنے حلقہء اثر میں لینا چاہتا تھا۔ اس خطے میں امریکہ نے آئزن ہاور ڈاکٹرائن کے تحت جو کردار ادا کیا، اسی کے نتیجے میں عربوں کی داخلی خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ عرب حکومتوں کے تصادم وقوع پذیر ہوئے۔ امریکی وزیرِ خارجہ جان فاسٹر ڈلس اور اس کے چھوٹے بھائی ایلن ڈلس جو سی آئی اے کا سربراہ تھا، کا سامراجی کردار کھلا راز ہے۔ 15 جولائی 1958ء کو آپریشن بلیو جیٹ کے تحت مصر اور شام کے خطرے سے نمٹنے کے لئے کیمل شمعون کی حکومت کو بچانے کے لئے 14000 فوجیوں کو 70 ستر بحری جہاز اور 40000 بحری سیلرز کی سپورٹ کے ساتھ امریکہ نے ہی لبنان میں اتارا تھا۔ تبھی وہاں پہلی خانہ جنگی ہوئی تھی۔ آج ایران کے اسلامی انقلاب کو عرب بادشاہتوں کے لئے خطرہ قرار دے کر امریکی فوجی موجودگی کو کھوکھلا جواز دیا جاتا ہے۔
شام، مصر اور لبنان کے خلاف سازش کرنے والے امریکی حکومت اور سی آئی اے کے افسرانِ بالا ہی نے ایران میں مداخلت کرکے پہلوی حکومت کو مسلط کیا تھا۔ فرانس، امریکہ اور بعض عرب ممالک لبنان کے معاملات میں بھی مداخلت جاری رکھے ہوئے تھے، جبکہ تاریخی اعتبار سے لبنان اور شام جڑواں علاقے تھے۔ اردن اور عراق میں ہاشمی خاندان کے بادشاہ حکمران تھے۔ اس خاندان اور اس کے حامیوں نے جہاں ایک طرف (اردن میں) آئزن ہاور ڈاکٹرن کے تحت امریکی مداخلت کو کھلی دعوت دی تو دوسری طرف ان کا عراق میں برطانوی سفارت خانے کے ذریعے مداخلت کا سلسلہ پہلے سے چل رہا تھا۔ عراق اور فلسطین کو برطانوی سامراج نے اپنے قبضے میں لے رکھا تھا اور یہ فرانس کے ساتھ کئے گئے خفیہ معاہدے کے تحت تھا۔ اگر زاویۂ نظر کو سو فیصد درست رکھا جائے تو یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ اس ساری مداخلت کے ذریعے ہی فلسطین پر غیر ملکی یہودیوں کو مرحلہ وار آباد کرکے ناجائز و غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو قائم کروایا گیا تھا۔ اس غاصب و ناجائز وجود کو ختم کرنے والے غیرت مند عربوں جن میں مسلمان و عیسائی دونوں شامل تھے، انہیں خانہ جنگی اور ان کے حکمرانوں کو اور عوام کو باہمی تصادم میں مبتلا کرنے کے لئے بعدازاں مداخلت کا سلسلہ جاری رہا۔
1961ء میں شام اور مصر کا الحاق ختم کروانے کے لئے سعودی عرب نے کردار ادا کیا تھا۔ 1957ء ہی میں جان فاسٹر ڈلس نے سعودی حکمران شاہ سعود کو بتادیا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال انتہائی دھماکہ خیز ہے اور اس کے وسط میں جمال عبدالناصر ایک ڈیٹونیٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے سب سے اہم بات تیزی سے اور خاموشی سے حرکت کرکے اسے اقتدار سے نکال باہر کرنا ہے۔ جب سعودی ولی عہد شہزادہ فیصل نے شاہ سعود کا تختہ الٹا تو اس کے بعد شاہ سعود کو مصر میں پناہ لینی پڑی۔ اس دوران شاہ سعود نے خود جمال عبدالناصر کو بتایا کہ عرب بادشاہوں نے سی آئی اے کے ساتھ مل کر شام اور مصر کا الحاق یعنی متحدہ عرب جمہوریہ کو ختم کرایا تھا۔ شام میں داندیشی کیس میں شامی سیاست دانوں پر غداری کا مقدمہ چلا تھا۔ اس کی سماعت کے دوران دستاویزات سامنے آئیں کہ مذکورہ سیاست دانوں کو سی آئی اے اور بغداد پیکٹ کی اسپیشل سکیورٹی کمیٹی کی اعانت اور رہنمائی حاصل تھی۔ شاہ سعود بن عبدالعزیزنے اس مقصد کے لئے ایک کروڑ بیس لاکھ پونڈ ادا کئے تھے۔
(جاری ہے)