دارالعلوم دیوبند کا فرقہ وارنہ انتہاپسندی اور دہشتگردی میں کردار
تحریر: خرم زکی
ہمارے بعض دوست جب تکفیری دیوبندی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمارے ہی بعض دیگر دوست اس پر اعتراض کرتے ہیں خاص طور پر جماعت اسلامی کے بعض احباب کو اس اصطلاح سے کافی الجھن ہوتی ہے۔ میں خود ایک سنی دیوبندی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور اس بات کا معترف ہوں کہ اکثر دیوبندی حضرات کو اپنے مکتب کی مبادیات کے بارے میں بہت ہی کم علم ہوتا ہے۔ میری ایک پھپو عرصہ چالیس برس سے رکن جماعت بھی ہیں۔ لیکن اگر خالص علمی پیرائے میں بات کی جائے تو عوام تو کسی گنتی ہی میں نہیں آتے اور آج اگر مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ عصبیت اور دہشتگردی کے اسباب پر تحقیقی نظر ڈالنی ہے تو اس بات کا ضرور جائزہ لینا پڑے گا کہ وہ کون سے مدارس اور مکاتب ہیں جو زمانہ قدیم سے چلے آنے والے اختلافات کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو فرقہ وارانہ عصبیت اور نفرت کا زہر پلا رہے ہیں اور مسلم معاشروں میں یہی زہر پھیلا بھی رہے ہیں
پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ دہشتگردی کی 95 فیصد سے زائد وارداتوں میں ایک ہی مسلک و مکتب کے لوگ ملوث ہیں۔ شیعہ مسلمان ہوں یا سنی بریلوی، صوفی ہوں یا قادیانی، یہاں تک کے معتدل دیوبندی علما کے قتل میں بھی صرف ایک اور ایک ہی مسلک سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ملوث نظر آئیں گے۔ داتا دربار پر حملہ ہو یا عید میلاد النبی کے جلوس پر، مختلف مزارات پر حملہ ہو، عاشورہ کے جلوس پر، مولانا حسن جان پر حملہ ہو یا قاضی حسین احمد پر، پولیس آفیسر اسلم چودھری پر حملہ ہو یا فاروق اعوان پر، جی ایچ کیو پر حملہ ہو یا آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر پر ان تمام اور ایسی ہی ہزاروں دہشتگردی کی وارداتوں میں صرف اور صرف ایک مدرسہ، ایک مکتب و مسلک سے منسلک دہشتگرد ملوث ہیں۔ نام نہیں لوں گا، اس لیئے نہیں کہ ڈرتا ہوں، بلکہ ان لوگوں کے احترام میں جو اسی مسلک سے وابستہ ہیں لیکن ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت کرتے ہیں۔
لیکن یہاں اپنے تمام دوستوں کو ایک حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہوں گا، اور وہ یہ کہ دیکھیں جو آج سے ہزاروں سال پہلے بیتا اس کو تو ہم تبدیل نہیں کر سکتے لیکن شتر مرغ کی طرح ریت میں سر ڈال لینے سے بھی مسلہ حل نہیں ہوتا اور ہم سب کو اس انتہا پسندی، فرقہ وارنہ عصبیت و دہشتگردی کو ختم کرنے کے لیئے، اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور ایسے مدارس، ایسی تنظیموں، ایسے گروہوں اور افراد کا مکمل بائیکاٹ کرنا ہو گا جو مسلمانوں کے درمیان مسلک و مکتب کی بنیاد پر نفرت پھیلانے کے لیئے کوشاں ہیں۔ میں مذہبی مسائل، افکار، خیالات، نظریات پر علمی تنقید، جرح اور گفت و شنید کا مخالف نہیں بلکہ حامی ہوں لیکن مسلکی اختلافات کی بنیاد پر نفرت پھیلانے اور دوریاں بڑھانے کا شدید مخالف ہوں۔ ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ اپنے مکتب کی تبلیغ کرے، اپنے عقائد و نظریات بیان کرے، لیکن کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے مکتب کے لیئے نفرت پھیلائے اور لوگوں کو دیگر اسلامی مکاتب فکر سے متنفر کرے۔ ذیل میں، میں نے دارالعلوم دیوبند کے فتاوی نقل کیئے ہیں، کسی 100 سال پرانی کتاب سے نہیں، کسی عام دیوبندی عالم کی کتاب سے بھی نہیں، بلکہ دارا العلوم دیوبند کی آفیشل ویب سائٹ سے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ دارالعلوم دیوبند صرف سنی بریلوی اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے خلاف بھی منافرت اور زہر پھیلانے میں بھی آگے آگے ہے اور جماعت اسلامی اور مولانا مودودی رحمہ ﷲ کے افکار کو فتنہ، ضلالت، گمراہی سے تعبیر کرتے ہیں اور جماعت اسلامی کی کتب پڑھنے کو حرام قرار دیتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ ہر مکتب میں ایسے کچھ انتہا پسند لوگ ہو سکتے ہیں جو دوسرے مسلک و مکتب کے متعلق ایسے ہی نفرت انگیز خیالات رکھتے ہوں لیکن جب کسی مکتب اور مسلک کے اصل اور بنیادی ترجمان ہی نفرت، عصبیت اور تکفیر کے داعی بن جائیں تو پھر اصلاح کی امید دم توڑنے لگتی ہے۔ مدرسہ دیوبند کو فوری طور ہر اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے ورنہ متعلقہ حکومتوں کو ایسے مدارس پر فوری پابندی لگا دینی چاہیئے جو نفرت پر مبنی افکار معاشرے میں رائج کر رہے ہوں۔