مضامین

طیب اردوغان – داعش کا اصل قصائی خلیفہ

ترکی کے سرحدی قصبے سروک میں شامی نژاد کرد خاتون مہاجر کا خاندان ان بدقسمت خاندانوں میں سے ایک ہے جو داعش کے دھشت گردوں کے حملے کے وقت بروقت شام میں ترکی کی سرحد کے قریب واقع کوبانی ٹاؤن سے نکل نہ سکا جوکہ عین العرب بھی کہلاتا ہے
شمسہ کا شوہر ایک سال پہلے وہابی -دیوبندی داعش کے دھشت گردوں سے لڑتا ہوا شہید ہوگیا تھا – کوبانی / عین العرب نسلی طور پر کرد اکثریت کا ٹاؤن ہے اور اس ٹاؤن کی اکثریت صحیح العقیدہ سنّیوں پر مشتمل ہے جوکہ تصوف سے بھی گہری دلچسپی رکھتی ہے جن کو شام میں بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے وہابی -دیوبندی دھشت گرد مشرک اور مرتد قرار دیتے ہیں اور ان کو واجب القتل خیال کرتے ہیں جبکہ ان کی عورتوں کو مال غنمیت میں شامل لونڈیاں خیال کرتے ہوئے نام نہاد مجاہدین میں بانٹ دیتے ہیں
شمسہ کا بڑے بیٹے رہبر کو داعش کے سنائپر نے گولی مارکر گذشتہ ہفتے شہید کردیا تھا جبکہ وہ اپنے شہر کوبانی کا دفاع کرنے کے لیے وہاں موجود تھا – شمسہ کے خاندان نے جب کوبانی سے ترکی کا باڈر کراس کرنے کی کوشش کی تو سرحد پر ترکی کے حکام نے اس کے دوسرے بیٹوں کو درجن بھر دوسرے کرد مہاجرین کے ساتھ گرفتار کرلیا اور اس کی وجہ ان کے کرد قومی تحریک میں سرگرم ہونا بتائی
شسمہ داعش کے دھشت گردوں کے کوبانی پر حملے اور وہاں کے باشندوں پر ٹوٹ پڑنے کی داستان سناتی ہے اور اپنے بڑے بیٹے رہبر کی تصویر کی طرف تکتی رہتی ہے – شمسہ کا ایک پندرہ سال کا بیٹا اور ہے جو باڈر تک تو شمسہ کے ساتھ آیا لیکن پھر اس سے آنکھ بچاکر واپس سرحد سے پلٹ گیا اور پیچھے پیغام چھوڑ گیا کہ وہ اپنے وطن کوبانی کا دفاع کرنے جارہا ہے
دولت اسلامیہ جوکہ داعش کے نام سے مشہور ہے وہابی -دیوبندی دھشت گردوں کا سب سے سخت ترین متشدد ، ظالم خونخوار گروپ ہے جس میں القائدہ ، جبہۃ النصرہ ، اسلامک جہاد ، تحریک طالبان پاکستان و افغانستان ، لشکر جھنگوی ، جیش العدل ، انصار الاسلام ، باکو حرام سمیت کئی ایک وہابی – دیوبندی دھشت گرد تنظیموں کے لوگ شامل ہیں اور اس تنظیم نے شام اور عراق کے 40 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کررکھا ہے اور نام نہاد خلافت کے قیام کا اعلان کیا ہے ، جبکہ جہاں جہاں اس تنظیم نے قبضہ کیا وہاں ، وہاں اس نے ایک طرف تو غیر مسلم مذاہب کے ماننے والے پرامن شہریوں کو قتل کیا ، ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنایا تو ساتھ ساتھ اس نے شام اور عراق کے شہروں اور قصبات میں بسنے والے صوفی سنّی مسلمانوں اور شیعہ فرقے کے مردوں ، نوجوانوں کو گولیاں مار کر یا گلے پر چھری پھیر کر زبح کرڈالا اور ان کی عورتوں کو زبردستی اپنے نکاح میں داخل کیا یا ان کو لونڈی بنالیا اور ان کے مال و اسباب کو لوٹ لیا
داعش نے ایک ماہ پہلے کرد سنّی اکثریت کے شہر کوبانی پر حملہ کیا اور اس شہر کا محاصرہ کیا تو اش شہر سے عام کرد شہریوں نے ہجرت کرکے ساتھ ترکی کے سرحدی شہر سروک کی طرف فرار ہونا شروع کردیا ، کوبانی کی آبادی تقریبا 4 لاکھ کے قریب تھی اور اب اس شہر میں صرف کرد مجاہد ہی بچے ہیں جو شہر کو داعش کے ہاتھوں میں جانے سے بچانے کے لیے لڑرہے ہیں جبکہ اس شہر کے لاکھوں باشندے ترکی کے سرحدی شہر سروک میں خیموں ، زیر تعمیر عمارتوں و دکانوں کے شیڈ میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور کوبانی سے آنے والے کرد مہاجروں سے سروک کے چوک اور گلیاں بھری پڑی ہیں
کوبانی سے ہجرت کرکے سروک میں پڑے مہاجر شامی کرد عراق اور شام کے اندر وہابی -دیوبندی دھشت گردوں کے ہاتھوں مصائب اٹھاکر مہاجر ہونے والے ان شامی اور عراقی غریب الوطنوں سے اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی اکثریت وہابی -دیوبندی دھشت گردوں کی خون آشامی سے بچ گئی ہے اور ابھی ان کے گھر اس سرحدی قصبے سے صاف نظر آتے ہیں اور یہ چیز ان کو اذیت میں مبتلاء کرتی ہے اور وہ روز سارے ترکی سے کوبانی سرحد پر امڈ آنے والے ان کردوں کے ساتھ شریک بھی ہوتے ہیں جو شامی کرد مہاجروں سے اظہار یک جہتی کے لیے آرہے ہیں اور ترک حکومت کی دو عملی پر سراپا احتجاج بھی ہیں
سروک کے ایک کیفے سے نکلتا ہوا مروان اسماعیل ایک امریکی اخبار کے رپورٹر کو بتاتا ہے کہ ابھی تک کوبانی میں اس کا گھر سلامت ہے ، جبکہ شہر کے انتہائی شمال کی جانب داعش کے دھشت گردوں نے کئی ایک کار بم دھماکے کئے ہیں
سروک ترکی کا شام کی سرحد پر واقع کوبانی سے متصل شہر ہے جوکہ خود سنّی ترک اکثریت کا شہر ہے اور کوبانی کے اکثر باشندے عام حالات میں بھی سروک شہر میں اپنے رشتہ داروں کو ملنے ، مزدوری کرنے آتے جاتے رہتے تھے لیکن اس مرتبہ وہ سب مہاجر بنکر ، بے سروسامانی کے عالم میں اس شہر میں وارد ہوئے ہیں اور ان کو سروک کے باشندوں نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا ہے
کوبانی سے ہجرت کرکے یا داعش سے لڑائی میں زخمی ہوکر آنے والے شامی کرد باشندے وہابی -دیوبندی دھشت گردوں کی خون آشامی کی خوفناک داستانیں سناتے ہیں ، ایک مہاجر کرد نے بتایا کہ داعش کے دھشت گردوں نے اس کی بھانجی کو اس وقت مرتد کہہ کر مارڈالا جب ان دھشت گردوں نے اس کے کالج پر دھاوا بولا اور اسے کہا کہ وہ اپنے شرکیہ عقائد سے توبہ کرے ، یعنی اسے اشغال تصوف اور اس کے بیگ میں موجود قصیدہ بردہ شریف کو جلانے کو کہا اور انکار پر اسے قتل کرڈالا – داعش نے الیپو شہر کے قریب ایک ٹرپ سے واپس آتے ہوئے اسکول کے کردی طالب علم بچوں کو بھی قید کرلیا تھا اور وہاں ان بچوں کی برین واشنگ کی کوشش بھی کی گئی تھی
داعش ماضی میں جہاں سعودیہ عرب ، کویت ، قطر ، بحرین سمیت وہابی عرب ریاستی حکمرانوں اور ملّاوں کی حما
ئت بھی حاصل رہی وہیں پر ان کو ترکی کی موجودہ حکومت اور طیب اردوان کی بھی بھرپور حمائت حاصل رہی ہے اور ترکی داعش کی جانب سے فروخت کئے جانے والے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور ترکی سے ہی داعش کو اسلحہ اور ديگر اشیاء کی ترسیل ہوتی رہی ہے جبکہ طیب اردوان نے شام سے ملحق ترکی کی سرحد سے شام میں وہابی -دیوبندی دھشت گردوں کو داخلے کی اجازت فراہم کئے رکھی – پاکستانی میڈیا میں بھی ایسی خبریں آئی تھیں کہ پاکستان میں ترکی کا سفارت خانہ دیوبندی تکفیری دھشت گردوں کے شام میں داخلے کے لیے سہولتیں فراہم کررہا ہے – کردستان ڈیموکریٹک پارٹی جوکہ ترکی میں کردوں کی سب سے بڑی پارٹی ہے نے ترکی کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ اس کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے شامی کرد علاقوں پر داعش اور دیگر وہابی -دیوبندی دھشت گردوں نے حملہ کیا اور کردوں پر مظالم کی بالواسطہ زمہ دار ترک حکومت بھی ہے
طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اصل میں ترکی میں اخوان المسلمون سے وابستہ رہنے والے وہابی انتہا پسندوں کی پارٹی ہے اور طیب اردوان ترک عثمانی سلطنت کی طرز پر ایک ایسی ریاست کی تعمیر کی کوشش کررہے ہیں جو ‏عثمان ترک سلطنت کی طرح پڑوس کے شام ، لبنان ، اردن وغیرہ کو اپنی باج گزار کالونیوں کے طور پر باقی رکھے اور وہاں پر وہابی نظریات کے مطابق ایک جدید سرمایہ دار حکومت باقی رہے اور داعش اسی ایجنڈے پر کام کررہی ہے اور مڈل ایسٹ کے غیر جانبدار باخبر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ داعش کا اصل خالق طیب اردوان ہیں اور خلیفہ ابوبکر البغدادی تو ایک ڈمی خلیفہ ہے جس کے پيجھے اصل خلیفہ طیب اردوان ہے
طیب اردوان نے ترکی کو داعش کے خلاف بننے والے عالمی اتحاد کا حصّہ بنانے سے بھی انکار کیا اور دوسری طرف اس نے داعش کے خلاف کوبانی شہر کا محاصرہ کرنے والے داعش کے لڑاکوں کے خلاف بھی فوجی کاروائی کرنے سے انکار کرڈالا ، جس پر ترکی میں کردوں نے سخت احتجاج بھی کیا اور انقرہ شہر میں اس حوالے سے فسادات بھی پھوٹ پڑے
خود ترکی عوام کے اندر طیب اردوغان کی داعش کے حوالے حامی پالیسی کے خلاف ترکی عوام کے اندر سخت ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے اور استبنول یونیورسٹی کے اندر کالج آف آرٹس کے طلباء و طالبات نے مسلم یوتھ نامی تنظیم جوکہ داعش کی حامی تنظیم ہے کو جب کالج میں روکنے کی کوشش کی تو مسلم یوتھ کے مسلح دھشت گردوں نے کالج پر دھاوا بولا اور جب وہاں طلباء و طالبات نے مزاحمت کی تو ترکی سیکورٹی فورسز نے بجائے داعش کی حامی تںظیم کے حملہ آوروں کو گرفتار کرنے والوں کو الٹا مزاحمت کرنے والوں کو گرفتار کیا ، ان پر لاٹھی چارج کیا اور فائرنگ تک کی ،جس سے پتہ چلتا ہے کہ طیب اردوغان کی حکومت ہی داعش کے پیچھے ہے اور سرپرستی کررہی ہے ترکی میں اس ماہ جو مظاہرے مختلف شہروں میں ہوئے اس میں ترکی کی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں 19 افراد ہلاک ، درجنوں زخمی و گرفتار ہوئے
طیب اردوغان جس طرح کی ترکی کو امپریلسٹ ریاست بنانے کی کوشش کررہا ہے ، اس سے کے بن جانے کے امکان تو کم نظر آتے ہیں لیکن اس سے یہ ضرور ہوگا کہ خود ترکی سلامتی ان نام نہاد جہادیوں کے ہاتھوں سخت خطرے میں پڑجائیگی
ایک عرب صحافی کہتا ہے کہ ترکی شام اور ترکی کے درمیان ایک بفرزون بنانے کے جس منصوبے پر کام کررہا تھا اس میں اسے تاحال ناکامی کا سامنا ہے کہ وہ بشارالاسد کے زیر کنٹرول شام اور داعش کے زیر کنٹرول شام کے کی پوزیشن کو باقی رکھے اور کوبانی پر قبضہ اس کی اہم ضرورت تھا ، جسے داعش کے خلاف اتحادیوں کی بمباری اور شامی کردوں کی زبردست مزاحمت نے ابھی تک ناکام بنادیا ہے ، جبکہ خود فرانسیسی حکومت بھی ترکی کے اس منصوبے کی درپردہ حمائت کررہی تھی.
پاکستان کے اندر ایسے بے شرم صحافی ، اینکر ، کالم نگار موجود ہیں جو داعش جیسی وہابی -دیوبندی انسانیت دشمن دھشت گرد تنظیم کو حقیقی اسلامی اور جہادی تنظیم کے طور پر پیش کررہے ہیں جیسے وہ تحریک طالبان پاکستان جیسی فسادی تنطیم کو بناکر پیش کرتے رہے ہیں ان ہی بے شرموں میں سے ایک بے شرم صحافی اوریا جان مقبول بھی ہے – سنّی عوام کو ایسے بے شرم سنّی دشمن بلکہ انسانیت کے دشمن قلم فروشوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ جس طرح سے شام ، عراق میں لاکھوں سنّی مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے ، کئی ہزار قتل ہونے جیسی مصیبتوں کا شکار ان نام نہاد جہادی تنطیموں کی وجہ سے ہوئے ہیں ویسی مصیبت یہ پاکستان میں اہل سنت پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہابی -دیوبندی تنظیمیں خود کو سنّی اسلام کا پیرو بتلاتی ہیں اور ان کے افکار کی سند جب ان سے مانگی جاتی ہے تو جواب میں یہ محمد بن عبدالوہاب نجدی ، شیخ ابن تیمیہ ، حافظ ابن قیم ، حافظ عبدالہادی ، شیخ ابن باز ، صالح العثمین ، اسماعیل دھلوی ، سید احمد بریلوی جیسے وہابی ، نجدی ، دیوبندی تکفیریوں کے اقوال و فتاوے پیش کرتے ہیں اور ان کی احکام اسلام کی غلط تعبیروں کو پیش کرکے اہل سنت کو گمراہ کرتے ہیں ‏‏‎
وہابیت اور تکفیریت ایسی بلائیں ہیں جو عالم اسلام کو جونکوں کی طرح چمٹی ہوئی ہیں اور انھوں نے پورے عالم اسلام کو زخم ، زخم کررکھا ہے خود پاکستان میں اس کے ہاتھوں 70 ہزار سے پاکستانی شہری شہید ہوچکے ہیں اور ان بلاؤں کا ہدف سنّیت اور تصوف ہے جن کی شناخت کو یہ مٹانے کے درپے ہیں چاہتے ہیں کہ ان کی وہابیت و دیوبندی ازم کو سنّی اسلام کا اصل ماڈل مان لیا جائے
عوام اہل سنت کو اس حوالے سے بیدار ہونے کی اشد ضرورت ہے اور سنّی پڑھی لکھی آبادی کو ، سنّی ڈاکٹرز ، انجئنرز ، اسا
تذہ ، دانشوروں ، ادیبوں ، مڈل کلاس اور کاروباری حلقوں کو متحد ہوکر اینٹی تکفیری خارجی فرنٹ تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ سنّی شناخت کا تحفظ ہوسکے وگرنہ یہ دشمن طاقتیں ان کی شناخت کو ویسے ہی ختم کردیں گی جیسے حجاز ، نجد ، قطر وغیرہ میں ختم کردیا گیا اور اب عراق و شام میں ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور پاکستان میں بھی تکفیری لابی یہ کام کرنے میں دن رات مشغول ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button