مضامین

دولت اسلامیہ" افواہیں اور حقائق

قطع نظر اس کے کہ "دولت اسلامیہ” والوں کے ٹھکانوں پر امریکہ کی زیر سربراہی اتحادی فضائی وار کر رہے ہیں، یہ گروہ شام اور عراق میں حملے کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔

بلکہ یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اس طرح کے وار ہونے کے بعد ان کے حملوں میں شدت آ چکی ہے۔

عرب پریس میں گذشتہ دنوں میں "دولت اسلامیہ” کے مظہر پر عموما” بحث کی جانے لگی ہے۔ یہ گروہ 2006 میں بنایا گیا تھا لیکن آخری وقتوں تک اسں نے خود کو کسی بھی طرح ظاہر نہیں کیا تھا۔ اب یہ نہ صرف سامنے آ گیا ہے بلکہ اس نے "القاعدہ” کو گہنا دیا ہے۔ ایسا کیسے ہو گیا؟ اس حوالے سے بہت سی افواہیں اور موقفات ہیں۔ جن میں ایک انتہائی غیر متوقع ہے۔ کسی نے الزام لگایا ہے کہ "دولت اسلامیہ” کی پشت پناہی بشار الاسد یا ایران والے کر رہے ہیں۔

اس کی عجیب و غریب وضاحت بھی ہے۔ اس بارے میں انسٹیٹیوٹ برائے سیاسی و سماجی تحقیق کے مرکز برائے عرب شناسی کے ڈائریکٹر ریاض سعیدوی کہتے ہیں:” ان کی کون حمایت کر رہا ہے؟ ظاہر ہے قطر اور سعودی عرب۔ یہ میری ہی سوچ یا کئی اخبارات اور مبصرین کی ہی رائے نہیں ہے۔ امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ الریاض اور دوہا نے شام میں دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کی تھی۔ اپنی طرف سے میں یہ اضافہ کر سکتا ہوں کہ یہ بادشاہتیں امریکہ کی خیر باد کے بغیر ایسا نہیں کر سکتیں، تبھی تو امریکہ نے برملا اعتراف کر لیا ہے۔ یہ سب شام کو برباد کرنے اور بشارالاسد کی حکومت کو سرنگوں کرنے کی خاطر کیا جا رہا ہے”۔

اگر انتہا پسندوں کے مقاصد پہ بات کی جائے تو ماہرین سے دلیل بازی کی جا سکتی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ مقاصد بہت وسیع ہیں۔ کوئی بھی مخالفت نہیں کرتا کہ "دولت اسلامیہ” کی مالی معاونت کرنے والے موجود ہیں۔ مگر وہ ہیں کون؟

کچھ کو یہ یقین ہے کہ جنگجووں کا سرغنہ ابوبکر البغدادی سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔ اس بارے میں کئی حوالوں سے لکھا جا چکا ہے لیکن اس بارے میں مصدقہ ثبوت یا تصدیقی دستاویزات نہیں ہیں۔ البتہ اس معاملے میں امکانی طور پر امریکہ کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہونے کی تصدیق اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ بغدادی کو کیمپ بکہ کی جیل میں رکھا گیا تھا اور پھر چھوڑ دیا گیا تھا۔ پنٹاگان کی رسمی اطلاع کے مطابق وہ فروری سے دسمبر 2004 تک قید رکھے گئے تھے۔

یہ اطلاع اپنے طور پر سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے، روسی مستشرق ویاچی سلاو ماتوزوو کہتے ہیں:”البغدادی کی کہانی لیبیا کے ایک دہشت گرد عبدالحکیم بالحاج سے بہت مماثل ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے کہ اس نے معمر قدافی کی فوج پر حملوں کی کمان کی تھی اور اس کے بعد طرابلس کا عسکری گورنر بن گیا تھا۔ پھر ترکی کے راستے شام کی سرکاری فوج سے لڑنے کی خاطر شام چلا گیا تھا۔ وہ بھی امریکیوں کی قید میں رہا تھا اور پھر رہا کر دیا گیا تھا۔ لگتا یہی ہے کہ ان دونوں کو قید کے دوران کسی نہ کسی طرح پھنسا لیا گیا تھا۔ اس کے بعد ان میں سے ایک لیبیا میں دہشت گردوں کا رہنما بن گیا تھا اور دوسرا عراق اور شام میں۔
جہاں تک امریکی اتحاد کا تعلق ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ امریکیوں کی خواہش ہے کہ عرب ملکوں اور اسی طرح ترکی اور ایران کو شام کے تصادم میں ملوث کر لیں یوں وہ آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کا خون بہائیں اور اس طرح مشرق وسطٰی می زیادہ ابتری ہو۔ ساتھ ہی میں یہ نہیں سمجھتا کہ امریکیوں کو ہمیشہ اسلامی دہشت گردی سے جڑے رہنے کی خواہش ہوگی۔

جونہی یہ جنگجو اپنا مشن مکمل کر لیں گے یہ پلٹ کر امریکہ کو نشانہ بنانا شروع کر دیں گے۔ اس کی مثال ہم افغانستان میں دیکھ چکے ہیں۔ اس ملک میں سوویت موجودگی کے دوران امریکیوں نے مجاہدین کی مالی مدد کی تھی۔ پھر طالبان سے لڑائی شروع ہو گئی تو امریکی پہنچ گئے۔ امریکہ کا ارادہ ہے کہ جلد ہی اپنے فوجی افغانستان سے نکال لے، جہاں اس اثناء میں تقریبا” دس اڈے بنا لیے گئے ہیں جو لازما” موجود رہیں گے۔ اب یہ کہانی شام اور عراق یں دہرائی جائے گی”۔
بظاہر لگتا یہی ہے کہ خطے کے ملک بھی سمجھتے ہیں کہ انہیں ایک بڑی جنگ میں کھینچا جا رہا ہے اس لیے وہ اتحاد کے ساتھ مل کر کم سے کم سرگرمی کر رہے ہیں۔ اس اثناء میں جنگجو حملے کر رہے ہیں، توقف سے لیکن یقین کے ساتھ ۔ انتہا پسندوں کی خود کفالت کی سطح کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ اکثر بار اہم کھلاڑی ہوتے ہیں۔

بشکریہ: ریڈیو روس

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button