مضامین

پاکستان اور افغانستان میں آئی ایس کا بڑھتا ہوا خطرہ

بشکریہ: ڈان نیوز
ریاست اسلامیہ کی تنظیم نے پاکستان اور افغانستان کے انتہاپسند عناصر کو اپنی جانب متوجہ کرنا شروع کردیا ہے جس سے پریشان انتظامیہ کو پرتشدد سلسلے کے طول پکڑنے کا خدشہ ہے۔

ریاست اسلامیہ کی ‘خودساختہ’ خلافت کے علاقوں یعنی عراق اور شام سے بہت دور حالیہ ہفتوں کے دوران پاکستان اور افغانستان میں متعدد بار جہادی حلقوں میں آئی ایس کا نام ابھر کر سامنے آیا ہے۔

شمال مغربی پاکستان میں آئی ایس سے تعاون کے مطالبے پر مبنی پمفلٹس دیکھے جاسکتے ہیں اور کم از کم پانچ پاکستانی طالبان کمانڈر اور تین کم درجے کے افغان طالبان جنگجوﺅں نے اس تنظیم کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔

آئی ایس کی حمایت پر مشتمل نعرے دونوں ممالک کے متعدد شہروں کی دیواروں میں نظر آئے ہیں اور کابل یونیورسٹی میں تو اس وجہ سے بڑی تعداد میں طالبعلموں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔

عسکریت پسند، سیکیورٹی اور سرکاری ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ مقامی سطح پر انفرادی اقدامات ہیں اور اس وقت آئی ایس کی خطے میں موجودگی ثابت نہیں ہوتی، تاہم مشرق وسطیٰ میں ریاست اسلامیہ کی کامیابی نے پاکستان اور افغانستان میں سرگرم عمل لاتعداد عسکریت پسند گروپس پریشان کردیا ہے۔

پاکستان کے سیکیورٹی تجزیہ کار عامر رانا نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی ایس اس خطے میں پرتشدد اور عدم تشدد پر یقین رکھنے والے دونوں قسم کے مذہبی گروپس کے لیے اہم متاثرکن طاقت بن کر ابھری ہے۔

انتباہی خط
رواں برس کے شروع میں پاکستان کے قومی انسداد دہشت گردی ادارے نیکٹا نے متعدد حکومتی اداروں کو خطوط ارسال کرکے انہیں آئی ایس تنظیم کے حوالے سے خبردار کیا تھا۔

نیکٹا کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی ایس کی کامیابیاں پاکستان کے لیے بہت خطرناک اور خطرے کی گھنٹی ہے جہاں پہلے ہی دو سو سے زائد گروپس کام کررہے ہیں۔

یہ خط اس وقت سامنے آیا جب شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے اہم ترین آپریشن کے نتیجے میں تحریک طالبان پاکستان اور اس کے اتحادی القاعدہ کے جنگجوﺅں کی طاقت کو کمزور کیا جاچکا ہے۔

فوجی آپریشن کے ساتھ ٹی ٹی پی بھی حالیہ ہفتوں کے دوران مخالف دھڑوں کی شکل میں تقسیم ہوگیا جس سے یہ افواہیں زور پکڑ گئی کہ اس تحریک کو آئی ایس سنبھال سکتی ہے۔

ٹی ٹی پی کے کہنا ہے کہ وہ آئی ایس اور القاعدہ کے جنگجوﺅں دونوں کی واضح حامی ہے جبکہ اس نے حالیہ برسوں کے دوران شام میں جہادی جدوجہد کے لیے ایک ہزار جنگجو بھی بھیجے ہیں جس کی پاکستانی حکومتی ذرائع بھی تصدیق کی ہے جبکہ طالبان مزید سات سو افراد وہاں بھیجنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔

تاہم اگر آئی ایس کے عسکریت پسندوں نے پاکستان اور افغانستان میں اپنا اثررسوخ بڑھانا جاری رکھا تو انہیں ان دونوں ممالک میں طالبان تحریک کی مخالف یا مصالحت کے راستے کو تلاش کرنا ہوگا۔

اس وقت ٹی ٹی پی اور افغان طالبان باضابطہ طور پر صرف ایک رہنماءملا عمر کو تسلیم کرتے ہیں اور سنیئر افغان جنگجوﺅں نے اے ایف پی کو بتایا کہ آئی ایس کی جانب سے خلافت کا اعلان غلط ہے۔

ایک طالبان کمانڈر نے آئی ایس کے لیڈر ابوبر البغدادی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طالبان اور ان کے حامیوں کا ماننا ہے کہ امیرالمومنین کا انتخاب پہلے ہی ہوچکا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button