تو پھر یزید کے بچوں میں کھلبلی کیوں ہے! (خصوصی مضمون)
تحریر: عرفان علی
شام غریباں کے بعد نیم شب کو جب یہ تحریر قلمبند کر رہا ہوں تو عصر حاضر کی کربلا کے چند منظر ذہن میں ہیں۔ کربلائے بحرین و حجاز مقدس اور نائیجیریا کا یوم عاشورا وہاں کے عزاداروں کو حقیقی کربلائی بنا کر رخصت ہوا ہے۔ آج یہ خاندان نبوت ہی کی شام غریباں نہیں بلکہ خاندان نبوت کے جانثاروں کی شام غریباں بن کر آئی ہے۔ آل سعود کی اسلام دشمن بادشاہت آل رسول ﷺ کے غمگساروں کے لئے آج کے دور کی یزیدی ملوکیت سے کسی طور کم نہیں۔ یزید بھی خلیفہ کے عنوان سے حکمران بنا تھا اور آج ایسے ہی خائن خلیفہ کی آل نے بحرین میں بادشاہت مسلط کر رکھی ہے۔ شجر ملعونہ و خبیثہ کے کانٹے یعنی یزید کے بچے آج شجرہ طیبہ کی پاک شاخوں پر حملہ آور ہیں۔ یوم عاشور پر حجاز مقدس یعنی عربستان نبوی ﷺ میں نواسہ رسول (ص) کی یاد منانے والے شمع حسینیت کے 7 پروانوں کو شہید کر دیا گیا ہے، 30 سے زائد زخمی کئے گئے ہیں۔ پہلے ہی سنت اسیران کربلا کی پیروی کا سلسلہ جاری ہے۔ عشق حسینی نے آیت اللہ باقر النمر کو سنت میثم تمار دہرانے پر مجبور کر دیا اور انہیں قتل کرنے کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ نائیجیریا میں بھی خونی عاشورا گذرا۔
آل خلیفہ نامی بادشاہت نے شیعہ اکثریتی جزیرہ نما ملک بحرین میں ماہ محرم میں سادات کربلا اور ان کے باوفا و جانثار اصحاب کی یاد میں عزاداری برپا کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ یزیدی احکامات کو کچلتے ہوئے عاشقان اولاد نبی ﷺ و علی ؑ نے عزاداری کے اجتماعات منعقد کئے تو ان پر بحرین کی حکومت نے حملے کروائے۔ کھمبوں پر لگے یاحسین ؑ کے علم اتروالئے گئے۔ منامہ سے قریب نویدرات نامی گاؤں میں یوم عاشورا کے جلوس پر بکتر بند گاڑیاں چڑھ دوڑیں، سوگواران حسینی ؑ پھر بھی لبیک یاحسین ؑ کے نعرے لگاتے ہوئے کھڑے رہے تو فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ خواتین اور بچوں کو بھی ماضی کی طرح یزیدی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ خالد بن احمد آل خلیفہ نے ٹوئٹر پر پیغام نشر کیا کہ مراسم عزاداری خلاف قانون ہے اور حسینی ؑ علم لہرانا سیاسی عمل ہے۔ لیکن بحرین کے ان مظلوم عزاداروں نے غالباً علامہ ذیشان حیدر جوادی مرحوم کے الفاظ میں بادشاہ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ببانگ دہل یہ بتلانے کی کوشش کی ہے:
اپنا یہی ہے ناز، یہی افتخار ہے
عشق حسین ؑ نعمت پروردگار ہے
یہ راز دل تو چہرہ سے بھی آشکار ہے
کس کس کو مصطفٰی (ص) کے نواسوں سے پیار ہے
آل سعود کی بادشاہت یہ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتی کہ یہ تکفیری دہشت گردوں کی کارروائی تھی۔ تکفیری بھی آل سعود کے وہابی مکتب ہی کے پیروکار ہیں۔ خود ایک سعودی دانشور نے لکھا ہے کہ نواف عبید نے نیویارک ٹائمز میں ایک مقالے میں داعش کو خوارج سے تشبیہ دی، لیکن داعش تو خود محمد بن عبدالوہاب نجدی کا لٹریچر پھیلا رہی ہے اور اسی کی آئیڈیالوجی کی پیروی کر رہی ہے اور محمد بن عبدالوہاب نجدی ہی سعودی بادشاہ کے مذہبی بابائے قوم ہیں۔ آل سعود نے عربستان نبوی ﷺ کو عربستان سعودی نجدی میں تبدیل کرکے اسلام کے آثار مٹانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، تکفیری اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ آل سعود اور آل خلیفہ کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ جس اسلام کی محافظت حضرت ابو طالب نے فرمائی اور جس ثنا خوانی کا آغاز انہوں نے کیا، اولاد ابو طالب نے اسی اسلام کو اس طرح پروان چڑھایا اور نظم و نثر کو ایسا رزق عطا کیا ہے کہ من و سلویٰ بھی اس کے آگے ہیچ دکھائی دیتے ہیں۔
فرعون عصر نو کے ان نمک خوار نوکروں کے لئے کوئی شہید محسن نقوی کا یہ منظوم تجزیہ عربی میں ترجمہ کر دے:
جہاں بھی ظالم حکومتیں تھیں وہاں وہ مظلوم چھا گیا ہے
وہ تیرگی کی ردا پہ اپنے لہو سے موتی سجا گیا ہے
کٹے ہوئے سر سے نوک نیزہ پہ بھی وہ قرآں سنا گیا ہے
بس ایک پل میں زمیں کو چھو کر کوئی معلٰی بنا گیا ہے
جہاں جہاں کل یزیدیت تھی، حسینیت اب وہیں وہیں ہے
حسینیت کو مٹانے والو، حسینیت اب کہاں نہیں ہے
بحرین و حجاز مقدس عربستان نبوی کے عزاداروں کی عظمت کو سلام، اور سلام ہو دنیا بھر کے ان محبوں کو کہ جنہوں نے شاید امام جعفر صادق ؑ کی یہ حدیث پڑھ کر عمل کیا: سوکھی روٹی کھا لینا لیکن امام حسین ؑ کی زیارت ترک نہ کرنا۔ یہ زائرین جو بنفس نفیس کربلا پہنچے، ان کی عظمت کو سلام۔ اتنی زحمتوں کو سہتے ہوئے اور جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کربلا میں عاشورا کے دن حرم مطہر امام میں تربت پاک شہیدان کی زیارت کرنا بلاشبہ ایک بہت ہی بڑے اعزاز کی بات ہے، لیکن نائیجیریا کے عظیم عزادار بھی بحرین اور عربستان نبوی ﷺ کے حسینی فدائیوں کے ہم پلہ ثابت ہوئے۔ یوبے ریاست کے علاقے پوٹسکوم میں عاشورا کے جلوس میں خودکش حملے میں کم ازکم 15 عزادار شہید اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔ وہاں کی داعش یا سپاہ صحابہ کا نام بوکو حرام ہے لیکن کام وہی ہے جو یہاں ہے۔
پاکستان کے عزادار بھی شجاعت میں کسی سے کسی طور کم نہیں۔ صوبہ سندھ میں ضلع بدین کے بعض علاقوں میں فائرنگ اور پتھراؤ کرکے جلوس عزا روکنے کی کوشش کی گئی، لیکن عزاداروں نے استقامت کا مظاہرہ کیا۔ کراچی کے علاقے گلشن حدید میں سبیل امام حسین ؑ پر حملہ کیا گیا۔ سنی عزاداروں کو حلیم کی نیاز میں شرکت کی سزا دینے کے لئے دستی بم پھینکا گیا۔ بزدل یزیدیوں نے 9 مہینے کی عزادار بچی بتول کو عزاداری کی مجلس میں د
ستی بم دھماکے میں شہید کیا۔ یوم عاشور کے جلوس میں شرکت کے لئے جانے والے قاسم علی کا گھر صوبہ پنجاب ضلع مظفر گڑھ میں جلا دیا گیا۔ ایسے کئی واقعات رونما ہوئے ہوں گے لیکن تکفیریوں کے گاڈ فادر امریکا اور سعودی نجدی بادشاہت اور ان کے ایجنڈا پر عمل کرنے والوں سے میرا سوال یہ ہے کہ:
اگر حسین ؑ کے ماتم میں کچھ نہیں رکھا
تو پھر یزید کے بچوں میں کھلبلی کیوں ہے!