کوٹ رادھا کشن میں توہین قرآن کے نام پر عیسائی میاں بیوی کو زندہ جلائے جانے کی اصل کہانی
تفصیلات کے مطابق قصور کے نواحی گاﺅں کوٹ رادھا کشن کے چک نمبر 59 میں واقعہ یوسف گجر کے بھٹے پر مارے جانیوالے میاں بیوی میں دیگر بھٹہ مزدوروں کی طرح بھٹہ کے مالک یوسف گجر سے ڈیڑھ لاکھ روپے ایڈوانس لے رکھے تھے اور یہ یرغمالیوں کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہا تھے۔ یہ خاندان بھٹہ خشت کے قریب ہی ایک خستہ حال مکان میں اپنے چار بچوں کے ہمراہ مقیم تھا۔ شمع بی بی کا والد اپنے علاقے میں تعویز گنڈا کرتا تھا اور چند روز قبل جب اس کی وفات ہوئی تو شہزاد اور شمع نے مرنے والے کی آخری رسومات میں شرکت کے لئے بھٹہ مالک اور اس کے منشیوں سے اجازت مانگی مگر انہوں نے میاں بیوی کو جانے کی اجازت دینے سے سختی سے اس لیے انکار کردیا کیونکہ انہیں شبہ تھا کہ اس طرح ان کا مقروض یہ جوڑا فرار بھی ہوسکتا ہے اسی بناء پر مالک کے حکم پر منشیوں نے مسیح میاں بیوی کی کڑی نگرانی شروع کردی اور بعد ازاں انہیں ایک کمرے میں بند کر دیا، باپ کی آخری رسومات میں شرکت نہ کرنے پر شمع بی بی اور شہزاد کا منشیوں سے جھگڑا بھی ہوا۔
حیران کن امر یہ ہے کہ ایف آئی آر میں ایسے کسی شخص کا ذکر نہیں ہے کہ جس نے شمع یا اس کے خاوند کو مقدس اوراق کی بے حرمتی کرتے دیکھا ہو یا پھر ایسے مقدس اوراق کا کوئی ادھ جلا حصہ یا ٹکڑا پولیس کواس کچرے سے ملا ہو جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ شمع بی بی نے مقدس اوراق جلانے کے بعد انہیں کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا تھا۔ مقامی پولیس کے مطابق بھٹہ مالک یا اس کے منشیوں کو اس قدر شدید ردعمل کا قطعی اندازہ نہیں تھا کیونکہ جیسے ہی یہ افواہ پھیلی تو چک نمبر 59 کے علاوہ دیگر تین دیہات کی مساجد میں اعلانات کر دیئے گئے کہ ایک جوڑے نے مقدس اوراق کی بے حرمتی کی ہے اور وہ اس وقت بھٹہ خشت پر موجودہیں، تو 800 کے قریب افراد نے اکٹھے ہوکر بھٹہ خشت پر دھاوا بول دیا، مشتعل افراد دونوں میاں بیوی کو کمرے سے نکالنے کے لئے چھت توڑنے لگے تو منشیوں نے ڈر کے مارے دروازہ کھول کر میاں بیوی کو ان کے سپرد کردیا، غصے سے بپھرے ہوئے ہجوم نے میاں بیوی کو مار مار کر ادھ مواہ کر دیا اور بعد ازاں دونوں کو بھٹہ خشت کی ایک بھٹی کھول کر اندر پھینک دیا جو چند منٹوں میں ہی جل کر راکھ ہوگئے۔
مقامی افراد کے مطابق جب ایک شہری نے 15 پر پولیس کو لوگوں کے ہجوم اور اشتعال کے متعلق آگاہ کیا تو چوکی انچارج محض اپنے چند ساتھی لیکر ہی وقوعہ پر پہنچا اور لوگوں کا اتنا بڑا ہجوم اور غم و غصہ دیکھ کر غائب ہوگیا، اس افسوسناک واقعے کے قریباً ایک گھنٹہ بعد وہاں پر پولیس پہنچی جس کی تصدیق ایک تفتیشی پولیس افسر نے یہ کہتے ہوئے کی کہ دس محرم کے روز کیونکہ پولیس کو کئی جگہ ڈیوٹی دینا ہوتی ہے اس لیے ہمارے پاس مناسب تعداد میں نفری نہیں تھی جو بروقت پہنچ کر اس واقعہ کو ہونے سے روک سکتی۔
ایک اور گاﺅں کے رہائشیوں نے مقامی اخبار کو بتایا کہ یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے، اگر میاں بیوی قصور وار بھی تھے تو انہیں پولیس کے حوالے کرکے عدالتوں سے سزا دلوائی دی جاتی، یہ قتل مذہب کی آڑ میں کئے گئے ہیں اس میں ملوث ملزمان کو سخت سزا ملنی چاہیئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہلاک ہونے والے میاں بیوی کے بھائی شہباز کے گھر صف ماتم بچھی ہوئی تھی اور افسوس کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ وہاں پر موجود خواتین نے بتایا کہ مسیحی برادری کبھی بھی مقدس اوراق کی توہین کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ مقتولین کو محض چند ہزار روپے کی خاطر الزام لگا کر بھٹہ مالکان نے زندہ جلا کر راکھ کر دیا ہے جو کہ کھلی بربریت اور ظلم کی انتہا ہے۔ حکمرانوں کو انصاف کرتے ہوئے ملوث ملزمان کو سر عام پھانسی پر لٹکا دینا چاہیئے تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔
ہلاک ہونے والی خاتون شمع کے والد چند روز قبل وفات پا گئے تھے اور انہوں نے ایک صندوق بھی چھوڑا تھا جو کہ شمع اٹھا کر بھٹہ پر لے گئی اور اس نے صندوق میں موجود قرآن پاک اور بائبل کو سنبھال کر اونچی جگہ پر رکھ دیا تھا۔ گاﺅں والوں کے مطابق منشی افضل نے بھٹہ مالک یوسف گجر کے ساتھ مل کر ایسی چال چلی کہ جو لوگوں کو سمجھ نہ آ سکی اور انہوں نے جذبات میں آکر سوچے سمجھے بغیر انتہائی اقدام اٹھا لیا اور تحقیق کیے بغیر پہلے میاں بیوی پر تشدد کیا اور بعد میں دہکتے ہوئے بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا دیا۔ شہباز کا مزید کہنا تھا کہ مقتولین کے بچے سخت پریشان ہیں اور اپنے ماں باپ کو یاد کر کے زار و قطار رو رہے ہیں، ان کی زندگی کو بھی خطرہ ہے، وزیراعلیٰ
پنجاب کو انہیں خود مل کر انصاف کی تسلی دینی چاہیئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ امر واضح ہے کہ اس حادثے میں بھٹہ کے مالک اور منشیوں کی مجرمانہ غفلت کے ساتھ ساتھ پولیس کی لاپرواہی بھی شامل تھی۔