مضامین

داعش سب سے مالدار دہشتگرد گروہ (خصوصی رپورٹ)

تحریر: سید محمد ثقلین

ماہرین کے مطابق تکفیری دہشت گرد گروپ ” داعش” عراق اور شام کے خاطر خواہ علاقوں پر قبضے کے بعد ان علاقوں کے مالی ذرائع کی لوٹ مار کی وجہ سے اب دنیا کے سب سے مالدار دہشت گرد گروپ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ دہشت گرد گروپ ”داعش” کی مالی حیثیت کا اندازہ لگانا ان کے زیر قبضہ علاقوں کے لحاظ سے مختلف ہے۔ بعض ماہرین اور اعلیٰ عہدیداروں کے مطابق یہ گروپ شام یا عراق میں اپنے زیرقبضہ علاقوں سے ماہانہ کم و بیش 3سے 5 ملین ڈالر کما سکتے ہیں مگر بعض ماہرین اس سے زیادہ کا تخمینہ لگا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ داعش تیل ہی کے ذریعے روزانہ ایک سے دو ملین ڈالرکما سکتی ہے۔ اس طرح اس سلسلے میں مختلف آراء ہونے کے باوجود یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ ذرائع آمدن نے” داعش” کو مالی اعتبارسے خود کفیل بنا دیا ہے جس سے وہ کسی غیر ملکی مالی امداد کے بغیر آپریشن جاری رکھ سکتی ہے۔

دہشت گردی امور کے ماہر ہاشم الہاشمی نے” آناتول خبررساں ایجنسی” سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراق اور شام کے تیل کے ذخائر جیسے مالی ذرائع پر قبضے اور اس میں سے تیل کی اسمگلنگ سے” داعش” نے بین الاقومی مالی حمایت کے حصول میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ انہوں نے” داعش” کے متعدد مالی ذرائع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ گروپ عراق کے گندم کے زیرکاشت رقبوں میں سے پانچواں حصہ اور گندم کے متعدد اسٹوروں پر قبضہ کرکے اسے موصل کی فلور ملوں سے آٹا بناکر بازار میں فروخت کر رہا ہے۔ اسی طرح” داعش” دہشت گردوں نے بغداد کے جنوب شہر بابل میں واقع عراق کے سب سے بڑی مچھلی فارمز کے مراکز پر قبضہ کرکے اپنے دہشت گردی کے کاموں میں اٹھنے والے اخراجات کو پورا کررہی ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ شہریوں سے مختلف ٹیکس اور خراج لگا کر ”داعش” ایک خاطر خواہ رقم اکٹھی کر رہی ہے، اس دہشت گرد گروپ نے اپنے آپ کو ایک حکومت کی حیثیت سے شناخت کروایا ہے، انہیں یقین ہے کہ دوسری حکومتوں کی طرح ہم بھی ان ممالک کے شہریوں سے ٹیکس وصول کرسکتے ہیں۔ الہاشمی نے یاد دہانی کراتے ہوئے کہاہے کہ” داعش” نے موصل کی موبائل ٹیلیفوں کمپنیوں اور بروکرز پر رائلٹی کے عنوان سے بھاری مالی واجبات کو لاگو کیا ہے اسی طرح عیسائیوں پرجزیہ اور تاجروکاروباری افراد پر بھی ٹیکس لاگو کرکے ماہانہ850 ہزار ڈالر کمارہی ہے۔

انہوں نے مزیدکہاہے” داعش” ان ذرائع سے ہرماہ 35 لاکھ سے 50لاکھ ڈالرکما سکتی ہے، یوں اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کو جاری رکھنے کے لئے مالی طور پر وہ خودکفیل ہو چکی ہے۔ یہاں تک کہ اسے بیرونی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ واشنگٹن کے جورج ٹائون یونیورسٹی میں مشرق وسطٰی کے امور کے ماہر” پل سالیوان” کا کہنا ہے ”داعش” اپنے ماتحت علاقوں میں کام کرنے والی مختلف کمپنیوں پر تاوان کے ذریعے ہرماہ پچاس لاکھ پائونڈ کما رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اغوا برائے تاوان بھی” داعش” کے ذرائع آمدنی میں سے ایک ہے۔ اس گروپ نے گذشتہ سال غیرملکی مغویوں کی رہائی کے ذریعے 4 کروڑ پائونڈ حاصل کیا ہے۔

داعش کی مالی خودکفالت کے بارے میں آنے والی رپورٹوں کے باوجود اقوام متحدہ کے سکیورٹی کونسل میں اس گروہ کی مالی امداد کی ممانعت پرمبنی قرارداد پاس ہونے اور عالمی اقتصادی پابندیوں کے لپیٹ میں آنے کے بعد” داعش” کے دہشت گردوں کو ضروی فنڈ کی تیاری کے سلسلے میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ معاشیات کے ماہر عباس الغالبی کا خیال ہے دہشت گرد گروپ” داعش” کاتیل کے فروخت کے لئے کسی ملک سے رابطہ نہیں مگر ایندھن کے بہت سے اسمگلرز کے ان کے ساتھ معاملات چل رہے ہیں مگرعراق میں امریکی فوجی مداخلت کی وجہ سے اب انہیں خدشہ ہے کہ کہیں تیل کی منتقلی کے دوران امریکہ ان پرحملہ نہ کرے۔

دوسری طرف سیاسی امور کے ماہر”مخلد محمد” کا ان سوالوں کے جواب میں کہ کیا ”داعش” عالمی ذرائع کا نظم و نسق چلانے کی اہلیت رکھتی ہے؟ اور کیا غیرملکی مالی امداد منی لانڈرنگ کے نظام جو اکثر ممالک میں لاگو ہیں سے بچ کرحاصل کرسکتے ہیں؟۔ اس قسم کے مالی امداد زیادہ تر انٹیلی جنس اداروں کی نگرانی” داعش” کے حوالے کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مالی ذرائع کے حصول میں داعش کی کامیابی کی وجوہات میں سے ایک وجہ گذشتہ کالعدم بعثی حکومت کی سرکردہ اور بڑی شخصیت کے تجربوں سے استفادہ کرنے کے ذریعے ممکن ہے۔ ترکی کے بروکروں کے ذریعے عراق اور شام کے تیل کے ذخائر سے چوری اور اسمگل شدہ تیل کی دولت دہشت گرد گروپ داعش کی آمدنی کے ذرائع میں سے اہم ذریعہ شمار ہوتا ہے۔

داعش کے پاس شام کے 80 فیصد تیل کے ذرائع موجود ہیں جسے ترکی کے بروکروں کے ذریعے اسرائیل کو فروخت کرکے اسے بہت بڑے مالی ذرائع کے حصول میں کامیابی ملی ہے۔ داعش دہشت گردوں کے درآمدی ذرائع میں سے ایک اور ذریعہ شام میں ہلاک ہونے والے لوگوں کے اعضاء کی فروخت ہے جو دوبارہ ترکی کے فاسد بروکروں کے ذریعے مہنگے داموں اسرائیل کو فروخت کرکے بڑا منافع حاصل کرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button