Uncategorized

لاہور، خانہ فرہنگ میں ’’فلاح انسانیت اور ہماری ذمہ داری‘‘ کے موضوع پر سیمینار

شیعہ نیوز (لاہور) خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران لاہور میں امام حسین علیہ السلام اور مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے افکار کی روشنی میں ’’فلاح انسانیت اور ہماری ذمہ داری‘‘ کے موضوع پر سیمینار منعقد ہوا۔ جس میں پاکستان کی معروف شخصیات کے علاوہ ایران سے اہم شخصیات خصوصی طور پر شریک ہوئیں۔ سیمینار میں تلاوت کلام مجید کی سعادت قاری محمد رفیق نے حاصل کی اور حافظ مرغوب احمد ھمدانی نے اپنے مخصوص انداز میں نعت و سلام پیش کئے۔ تقریب کے مہمان ِ خصوصی  سید مہدی خاموشی سربراہ اسلامک تبلیغات آرگنائزیشن ایران تھے۔ سید مہدی خاموشی نے فکر امام حسین علیہ السلام پر روشنی ڈالی اور اُمت کے درمیان اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ قرآنی تعلیمات پر عمل کر کے ہم کامیاب و کامران ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ روایت میں ہے کہ ایک شخص کہتا ہے کہ جب یزیدیوں نے حضرت امامِ عالی مقام سیدنا امامِ حسین علیہ السلام کے سرِ انور کو نیزے پر چڑھا کر کُوفہ کی گلیوں میں گشت کیا تو آپ کا سر مبارک تلاوت کر رہا تھا۔

اکبر برخورداری ڈائریکٹر خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران، لاہور نے کہا کہ اس سال علامہ اقبال کی ولادت اور آزادی خواہوں کے سردار اور بتول کے فرزند کی شہادت تقریبا ایک ساتھ واقع ہوئی ہے۔ اقبال امام حسین علیہ السلام کے شیفتہ تھے۔ علامہ اقبال ؒ محرم اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی تاریخ میں سب سے زیادہ اس کی پاسداری اور اس کا اہتمام کرتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام سے عشق، اقبال کے قلم اور اشعار میں موجزن ہے۔ علامہ کی خوبصورت شاعری امام حسین علیہ السلام کے عشق سے بھر پور ہیں اور وہ امت مسلمہ کو امام حسین کی جدو جہد سے عشق، وارفتگی، فدا کاری اور آزادی کا درس دیا۔ انہوں نے کہا کہ اقبال کہتے تھے کہ حسین علیہ السلام قرآن کی تفسیر ہیں ، امام حسین کی ظلم کے خلاف جدو جہد اسلام کی حیات نو ہے۔ انہوں نے کہا کہ امام حسین کی جدو جہد، اپنی حقیقت کی پہچان ہے۔

اکبربرخورداری نے کہا کہ امام حسین نے اپنے اور اپنے اصحاب کے خون کے ذریعے قیامت تک امت مسلمہ کی بیداری کا سامان کیا۔ ان کی جدوجہد باطل کے خلاف تھی۔ امام حسین نے اپنی جدوجہد کے ذریعے ہمیں انحرافات اور افراط و تفریط سے نجات دلائی۔ اقبال عاشورا کے واقعہ کی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے عقل و عضق، عبودیت اور حریت کی بات کرتے ہیں۔ اقبال کی نظر میں خدا کی بندگی، عشق اور حریت میں لازم و ملزوم کا رشتہ قائم ہے۔ ان کی نظر میں خدا کی بندگی، عشق کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی اور عشق، حریت و آزادی کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ امامیہ آرگنائزیشن کے چیئرمین لعل مہدی خان نے کہا کہ علامہ اقبالؒ بھی عصرحاضر کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری عقل و شعور اور بلندی افکار و تخیل سے مزّین ہے، لہذٰا یہ ناممکن ہے کہ علامہ اقبالؒ جیسی حساس شخصیت واقعہ کربلا کو نظرانداز کرے۔ پس مشرق کے بلند پایہ شاعر، مفکر اور عاشق رسول (ص) اور اہلبیتؑ، علامہ اقبالؒ جیسی شخصیت کے فکر و فن میں واقعہ کربلا کو بنیادی اہمیت حاصل ہونی چاہیئے تھی جو کہ ہے۔

ڈاکٹر راغب نعیمی سربراہ جامعہ نعیمیہ نے کہا کہ اقبالؒ کی نظر میں امام حسینؑ حق و صداقت کا وہ میزان ہیں جو ہر دور میں حق و باطل کی کسوٹی ہیں تاریخ میں ملتا ہے کہ جب یزید نے مدینہ منورہ کے والی ولید اور مروان کے ذریعے امام حسینؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا تو آپ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا جو حریت پسندی کے لیے ہمیشہ نصب العین بنا رہے گا آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا "مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا”۔ ڈاکٹر احسن محمود، چئیرمین سٹینڈنگ کمیٹی فار پریس اینڈ میڈیا ایف پی سی سی آئی نے اپنے خطاب میں فلاح انسانیت کی جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ہمیں خود کو اور اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا، ہمیں اگر تبدیلی لانی ہے تو اپنے اندر سے لانی ہے، کوئی باہر سے آ کر یہ کام نہیں کرے گا۔ ہمیں احساس ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام کے مختلف پہلوؤں اور اس کو دنیا بھر کے مظلوموں کے لئے آئیڈیل کے طور پر علامہ اقبالؒ نے اظہار خیال کیا ہے، اقبال کی اردو فارسی شاعری میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ علامہ اقبال امام حسینؑ سے روشنی لے کر ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے۔

احمد اعجاز شیخ سیکرٹری پروگرامز روزنامہ جنگ لاہور نے کہا کہ علامہ اقبال نے اپنے کلام کو وسعت اور زندہ و جاوید رکھنے کے لئے جہاں آفاقی نظریات پیش کئے وہاں فارسی زبان میں بھی اظہار خیال فرمایا علامہ کے فارسی کلام کو پڑھے بغیر ان کے نظریات بالخصوص ’’نظر خودی‘‘ سے مکمل آگاہی حاصل نہیں ہو سکتی۔ علامہ اقبال نے رموز بے خودی میں’’درمعنی حریت اسلامیہ وسیر حادثہ کربلا‘‘ کے عنوان سے امام عالی مقام کو خراج عقیدت پیش کیا ہے، اس میں علامہ اقبال اسلام کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کربلا کا تذکرہ کرتے ہیں شروع کے کچھ اشعار عقل وعشق کے ضمن میں ہیں اس کے بعد اقبال جب اصل موضوع پر آئے ہیں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کردار حسینؑ کو کس نئی روشنی میں دیکھ رہے ہیں اور کن پہلوؤں پر زور دینا چاہتے ہیں، حسینؑ کے کردار میں انھیں عشق کا وہ تصور نظر آتا ہے جوان کی شاعری مرکزی نقطہ ہے اور اس میں انھیں حریت کا وہ شعلہ بھی ملتا ہے جس کی تب وتاب سے وہ ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ علامہ اقبا
ل فرماتے ہیں کہ امام حسین (ع) نے کربلا کے میدان میں’’لا‘‘ کی تلوار چلائی اور صحرا ے کربلا میں’’اِلااللہ‘‘ کا نقشہ کھینچ کر ہماری نجات کے لئے راہ فراہم کر دی۔ سید علی رضا کاظمی چئیرمین انٹرنیشنل سیرت کونسل، کاشف انور سابق نائب صدر لاہور چیمبر آف کامرس انڈسٹری، ڈاکٹر جاوید یونس اوپل، معروف سٹرکچر انجینئر اور محمد حسین گولڑوی امام و خطیب جامع مسجد شیر ربانی، نے بھی اپنی تقاریر میں امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کے درس کو فکر علامہ اقبال کی نظر میں پیش کیا اور اس وقت ملت کی جو ذمہ داریاں بنتی ہیں اس پر زور دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button