عقیدہ امامت اور سیکولرازم کی نفی (خصوصی مضمون)
تحریر: محمد طالعی
ولی امر مسلمین آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عید سعید غدیر کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ غدیر خم کا واقعہ سیکولرازم کے بطلان پر واضح دلیل ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ
"ایسے افراد کا جواب واقعہ غدیر ہے جو اسلام اور اجتماعی اور سیاسی امور سے جدا کر کے اسے صرف انسان کی شخصی اور انفرادی زندگی تک محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور درحقیقت اسلام کو سیکولر نگاہ سے دیکھتے ہیں، یہی وہ سوچ ہے جو اسلام دشمن عناصر ایک عرصے سے مسلمان معاشروں میں رائج کر رہے ہیں”۔ اس مضمون میں ہم نے سیکولرازم کی مختصر انداز میں وضاحت کرتے ہوئے ولی امر مسلمین کے خطاب کی تفسیر کرنے کی کوشش کی ہے۔
سیکولرازم کیا ہے؟
سیکولرازم (Secularism) انگلش زبان کا لفظ ہے جو لاطینی لفظ Seculum سے لیا گیا ہے جس کا معنی اخروی زندگی کے مقابلے میں اس دنیا کی زندگی ہے۔ اس سے مراد ہر وہ چیز ہے جو اس مادی دنیا سے تعلق رکھتی ہے اور اس طرح اخروی دنیا اور الوہیت سے دور ہے۔ سیکولرازم کے کئی اصطلاحی معانی ہیں جن میں سے مشہور مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ سیاست اور حکومت سے دین کی جدائی:
یہ سیکولرازم کی مشہورترین تعریف ہے۔ اس تعریف کے مطابق سیاسی اور حکومتی امور میں دین کو مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں۔
2۔ دین اور دنیا میں جدائی:
گذشتہ تعریف میں صرف سیاسی اور حکومتی مسائل میں دین کی نفی کی گئی تھی جبکہ اس تعریف کے مطابق انسان کے تمام معاشرتی، اجتماعی، دنیوی اور حتٰی علمی اور تعلیمی امور سے دین کو حذف کر دیا گیا ہے۔ یہ تعریف اس نقطہ نظر کی بنیاد پر کی گئی ہے کہ دین مکمل طور پر انسان کا شخصی معاملہ ہے اور اس کی اجتماعی زندگی سے دین کا کوئی تعلق نہیں۔
3۔ دین کی نفی:
یہ انتہائی شدت پسندانہ تعریف ہے جس کی رو سے انسان کی زندگی سے دین کو حذف کر دینا چاہیئے، چاہے شخصی ہو چاہے اجتماعی۔ اس نقطہ نظر کے مطابق ہر قسم کے ماورائے طبیعی علوم کا انکار کر دیا گیا ہے، اور چونکہ دین بھی انہیں علوم میں سے ایک ہے لہذٰا دین کو بھی انسانی زندگی سے مکمل طور پر باہر نکال دیا جاتا ہے۔
اسلام اور سیکولرازم:
دین مبین اسلام سیکولر طرز فکر کا نقطہ مقابل ہے۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق انسان کے تمام شخصی امور جیسے شادی، طلاق، خریدوفروش وغیرہ اور تمام اجتماعی امور جیسے سیاست، اقتصاد، ثقافت وغیرہ اسلامی اصولوں اور تعلیمات کے مطابق ہونے چاہیئیں۔ اگر ہم اسلامی احکام پر مختصر نظر دوڑائیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان احکام کے اجراء اور نفاذ کیلئے ایک اتھارٹی کی ضرورت ہے کیونکہ اسلامی احکام کا ایک بڑا حصہ انسان کے اجتماعی اور سیاسی امور سے متعلق ہے اور اسلامی احکام صرف شخصی عبادی امور جیسے نماز اور روزے تک محدود نہیں۔ امام خمینی (رہ) اپنی کتاب "ولایت فقیہ” میں اس بارے میں لکھتے ہیں، "قرآن کریم میں انسان کے اجتماعی امور کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کی تعداد عبادت سے متعلق آیات کے سو برابر ہے۔ مکمل احادیث پر مشتمل کتابوں کے ایک مجموعے، جس میں تقریبا 50 کتابیں شامل ہیں، میں سے صرف تین یا چار کتابیں عبادات سے متعلق ہیں، اور ان میں سے بعض احکام اخلاق کے بارے میں ہیں جبکہ باقی تمام احکام انسان کے اجتماعی امور، اقتصاد، حقوق، سیاست اور معاشرے کی مدیریت سے متعلق ہیں”۔ [ولایت فقیہ، صفحہ 11]۔
امام خمینی (رہ) اپنی کتاب ولایت فقیہ میں بعض اسلامی احکام کو مثال کے طور پر ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ احکام انسان کی اجتماعی زندگی اور معاشرے کی مدیریت کیلئے صادر ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر امام خمینی (رہ) اسلام کے مالی احکام کے بارے میں فرماتے ہیں، "اسلام میں موجود ٹیکس کا نظام اور مالی احکام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد صرف فقیر سادات اور مساکین کی مدد ہی نہیں بلکہ ایک عظیم اسلامی حکومت کے ضروری اخراجات کو پورا کرنا ہے۔ مثال کے طور پر خمس، بیت المال کیلئے آنے والی درآمد کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور حکومتی بجٹ کا بڑا حصہ اس سے حاصل ہوتا ہے۔ واضح ہے کہ اتنی بڑی درآمد کا مقصد اسلامی ملک کو چلانا اور اس کے مالی اخراجات کو پورا کرنا ہے۔ اگر ہم تمام اسلامی ممالک یا پوری دنیا (اس فرض کے ساتھ کہ اسلام پوری دنیا تک پھیل چکا ہو) سے حاصل ہونے والی خمس کی رقوم پر توجہ دیں تو معلوم ہو گا کہ اس قدر عظیم درآمد کا مقصد صرف فقیر افراد اور سادات کی مالی ضروریات کو دور کرنا نہیں بلکہ اصل ہدف اس سے کہیں زیادہ اہم اور بڑا ہے۔ اصل مقصد اسلامی حکومت کو درپیش مالی مشکلات کو دور کرنا ہے۔ اگر ایک اسلامی حکومت تشکیل پا جاتی ہے تو اس کا بجٹ اور مالی ضروریات انہیں رقوم یعنی خمس، زکات، جزیہ اور خراج کے ذریعے پوری ہوں گی۔ صرف فقیر سادات کو تو اتنی بڑی رقم کی ضرورت نہیں۔ صرف بغداد کے بازار سے حاصل ہونے والی خمس کی رقم ہی تمام مسلمان فقراء کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی ہے چہ جائیکہ تہران کے بازار، استنبول کے بازار، قاہرہ کے بازار اور دیگر مسلمان ممالک کے بازاروں سے حاصل ہونے والے خمس و زکات کی رقم کو بھی سامنے رکھا جائے۔ اس قدر عظیم بجٹ کی فراہمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں یہ نظام ایک حکومت چلانے کیلئے ب
نایا گیا ہے۔ اسلامی حکومت اسی بجٹ کے ذریعے عام شہریوں کی بنیادی ضروریات جیسے صحت، ترقی، تعلیم، دفاع اور ثقافت کو پورا کر سکتی ہے”۔ [ولایت فقیہ، صفحہ 2 سے 31]۔
لہذٰا ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی احکام صرف شخصی عبادات کی حد تک نہیں بلکہ دین مبین اسلام نے شخصی امور اور عبادات پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ انسان کے اجتماعی امور پر بھی توجہ دی ہے اور سیاست، اقتصاد اور دوسرے معاشرتی امور کے بارے میں بھی احکام بیان کئے ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات قرار پایا ہے۔
آیات و روایات کے ذریعے سیکولرازم کا بطلان:
قرآنی آیات اور احادیث معصومین علیھم السلام کے ذریعے سیکولر ازم کو باطل ثابت کیا جا سکتا ہے۔ قرآن و احادیث میں انسانی معاشرے کے حاکم اور امام کیلئے اسلامی احکام کو بیان کرنے کے علاوہ اور بھی کئی اہم ذمہ داریاں اور فرائض بیان کئے گئے ہیں۔
1۔ آیہ اولی الامر:
سورہ نساء کی آیہ 59 "آیہ اولی الامر” کے نام سے معروف ہے۔ اس آیہ کریمہ سے اہلبیت اور آئمہ معصومین علیھم السلام کی عصمت کو ثابت کیا جاتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے، "یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا اللَّهَ وَ أَطیعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْکُم”۔ "اے ایمان والو، خدا کی اطاعت کرو اور رسول خدا اور اولی الامر کی اطاعت کرو”۔ اس آیہ کریمہ سے آئمہ معصومین علیھم السلام کی عصمت کو یوں ثابت کیا جاتا ہے کہ خداوند متعال نے اس آیہ میں ہر حالت میں (مطلق طور پر) اولی الامر کی اطاعت کو واجب قرار دیا ہے۔ لہذٰا اگر اولی الامر معصوم نہ ہو اور جائز الخطا ہو تو وہ کبھی نہ کبھی غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ اس غلطی میں اس کی اطاعت ایک طرف تو شرعاً واجب ہو گی اور دوسری طرف عقلاً قبیح ہو گی۔ لہذٰا حکیم ایسے کام کا حکم نہیں دے سکتا جو عقلاً قبیح ہو۔ پس اولی الامر کا معصوم ہونا ضروری ہے۔ اہلسنت کے معروف مفسر فخر رازی نے اسی آیہ کریمہ کے ذریعے اولی الامر کے معصوم ہونے کو ثابت کیا ہے۔ البتہ وہ اولی الامر کا مصداق مشخص کرنے میں غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔ [مفاتیح الغیب (تفسیر کبیر)، بیروت، دار احیاء تراث العربی، جلد 10، صفحہ 113]۔
اس آیہ کریمہ میں ایک اور اہم تفسیری نکتہ یہ ہے کہ رسول خدا (ص) کی اطاعت کو خدا کی اطاعت سے علیحدہ کیا گیا ہے۔ یہاں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول خدا (ص) کی اطاعت اور خدا کی اطاعت دو مختلف چیزیں ہیں اگرچہ رسول (ص) کی اطاعت آخرکار خدا کی اطاعت پر ہی ختم ہوتی ہے۔ مزید وضاحت کیلئے عرض ہے کہ اگر رسول خدا ص کی اطاعت سے مراد ان کے ایسے فرامین اور شرعی دستورات کی اطاعت ہوتی جو انہوں نے وحی کے ذریعے خدا سے دریافت کئے ہیں تو ایسی صورت میں رسول خدا (ص) کی اطاعت درحقیقت خدا کی اطاعت ہی تھی اور علیحدہ سے رسول (ص) کی اطاعت کے حکم کی ضرورت نہ تھی۔ لہذٰا جب ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند متعال نے رسول خدا (ص) کی اطاعت کو ایک علیحدہ حکم کے ذریعے بیان فرمایا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا (ص) کے اجتماعی، حکومتی اور سیاسی دستورات مراد ہیں جو وہ ایک حاکم ہونے کے ناطے جاری کرتے ہیں۔ اولی الامر کے بارے میں بھی یہی مطلب صادق آتا ہے۔
2۔ طاغوت کی حاکمیت کی نفی کرنے والی آیات:
قرآن کریم کی بعض آیات میں مسلمانوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ ہر گز طاغوت کی حاکمیت کو قبول نہ کریں اور اس کے خلاف جدوجہد کریں۔ سورہ نساء کی آیہ 60 میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے
"أَ لَمْ تَرَ إِلَى الَّذینَ یَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِما أُنْزِلَ إِلَیْکَ وَ ما أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُریدُونَ أَنْ یَتَحاکَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَ قَدْ أُمِرُوا أَنْ یَکْفُرُوا بِهِ وَ یُریدُ الشَّیْطانُ أَنْ یُضِلَّهُمْ ضَلالاً بَعیدا”۔ "کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو یہ خیال کرتے ہیں کہ تم پر اور تم سے پہلے والوں پر نازل ہونے والی آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں، وہ طاغوت کی حاکمیت کو قبول کرنا چاہتے ہیں جبکہ انہیں طاغوت سے کفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور شیطان انہیں بری طرح گمراہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے”۔
اس آیہ کریمہ میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو طاغوت سے کفر کا حکم دیا گیا ہے۔ لہذٰا اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ کسی بھی معاشرے کے حاکم کیلئے ضروری ہے کہ وہ الہی ہو اور خدا کی جانب سے منصوب شدہ ہو اور قوانین کو دین خدا کی روشنی میں اجراء کرے نہ عقل بشری یا لوگوں کی مرضی کے مطابق یا کسی اور غیرالٰہی اور غیردینی طریقے سے۔
3۔ انبیاء کی اطاعت کو واجب قرار دینے والی آیہ کریمہ:
سورہ مبارکہ نساء کی آیت 64 میں ارشاد خداوندی ہوتا ہے، "وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ لِیُطاعَ بِإِذْنِ اللَّه”۔ ترجمہ، "ہم نے رسولوں کو فقط اس لئے بھیجا ہے کہ خدا کے اذن سے ان کی اطاعت کی جائے”۔ اس آیہ کریمہ میں انبیاء کو بھیجے جانے کا فلسفہ انسانوں کی جانب سے ان کی اطاعت بیان ہوا ہے۔ جیسا کہ آیت اولی الامر میں بھی بیان ہوا کہ "اطاعت” کا اطلاق شرعی احکام اور دستورات میں پیروی پر نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد حکومتی احکام اور دستورات کی اطاعت کرنا ہے۔ ان آیات میں انبیاء علیھم السلام کی جانب سے صادر ہونے والی اجتماعی اور سیاسی دستورات کی پیروی اور ا
طاعت مقصود ہے۔
4۔ اولی الامر قرار دینے کا مقصد:
کتاب "عیون اخبار الرضا ع” میں شیخ صدوق رح نے امام علی رضا علیہ السلام سے ایک تفصیلی حدیث نقل کی ہے جس میں خدا کی جانب سے اولی الامر تعیین کرنے کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ حدیث یوں ہے، "اگر کوئی پوچھے کہ خدا نے اولی الامر کیوں تعیین کیا ہے اور اس کی اطاعت ہم پر واجب کیوں کی ہے؟ تو اس کے جواب میں کہیں گے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ قانون میں لوگوں کیلئے ایسی مشخص حدود و قیود بیان کی گئی ہیں جن کی پابندی ان کیلئے ضروری ہے تاکہ وہ انحراف اور گمراہی کا شکار نہ ہوں، لیکن یہ امر صرف ایسی صورت میں جامہ عمل پہن سکتا ہے جب ایک لائق اور امین شخص حاکم کے طور پر موجود ہو اور اس قانون کو اجراء کرے اور لوگوں کو ظلم اور قانون توڑنے سے باز رکھے اور اس بات کا خیال رکھے کہ ممنوع چیزیں قانون میں داخل ہو کر اسے فاسد بنا دیں کیونکہ اگر ایسا نہیں ہو گا تو کوئی بھی شخص ایسی چیز کو ترک کرنے کیلئے حاضر نہ ہو گا جس میں اس کو ذاتی فائدہ اور لذت محسوس ہوتی ہو چاہے اس میں دوسروں کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔ لہذٰا خداوند متعال نے لوگوں کیلئے ایک سرپرست اور حاکم قرار دیا ہے تاکہ انہیں تباہی سے بچائے اور قانون توڑنے کی صورت میں انہیں سزا دے اور اسلامی حدود کا اجراء کرے اور اسلامی احکام کا اجراء کرے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی قوم یا اجتماع موجود نہیں جو ایک سرپرست اور حاکم کے بغیر اجتماعی زندگی گزار رہے ہوں۔ ایسا حاکم جس کی اطاعت سب پر واجب ہو، چاہے دنیوی امور میں اور چاہے اخروی امور میں۔ لہذٰا خداوند حکیم کی حکمت کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو سرپرست اور حاکم سے محروم نہ کرے اور انہیں اپنے حال پر نہ چھوڑے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں اور اگر وہ لوگوں کیلئے حاکم مشخص نہیں کرے گا تو لوگ خود اپنا حاکم انتخاب کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور مخلوق ایک پیشوا اور حاکم کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی۔ لوگ اپنے حاکم اور اس کے دستورات کے ذریعے اپنے دشمن کو دور کرتے ہیں، عمومی اموال کو تقسیم کرتے ہیں اور نماز جمعہ اور اجتماعی عبادات حاکم کی امامت میں ادا کرتے ہیں۔ حاکم ہی ظالم افراد کو ظلم کرنے سے باز رکھ سکتا ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ اگر خداوند لوگوں کیلئے ایک امین پیشوا اور سرپرست مقرر نہ کرے تو قوم اور قانون مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گے، دین کا خاتمہ ہو جائے گا، اچھی روایات کا خاتمہ ہو جائے گا اور شرعی احکام کو تبدیل کر دیا جائے گا اور بدعت گزار افراد دین میں تبدیلیاں ایجاد کر دیں گے اور کفار دین میں تحریف ایجاد کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کیلئے مشکوک بنا دیں گے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ عام لوگ فکری اعتبار سے انتہائی کمزور ہیں اور کامل نہیں۔ مزید برآں، چونکہ لوگوں کی سمجھ بوجھ ایکدوسرے سے مختلف ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہشات کے پیرو ہیں لہذٰا اگر خدا ان کیلئے ایک سرپرست اور حاکم مقرر نہ کرے تو وہ خود کو تباہ و برباد کر لیں گے اور اسلامی شریعت، اسلامی احکام، اچھی روایات اور دین کی بنیادیں تبدیل کر دی جائیں گی اور آخرکار پوری مخلوق تباہی کا شکار ہو جائے گی”۔ [ابن بابویہ، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا ع، جلد 2، ص 100]۔
مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں خدا کی جانب سے اولی الامر منصوب کئے جانے کی مندرجہ ذیل وجوہات بیان کی جا سکتی ہیں،
1۔ لوگوں کو اپنے شرعی فرائض سے تجاوز کرنے اور ظلم کرنے سے روکنا۔
2۔ مخلوقات کی زندگی باقی رہنے اور انسانی معاشرے کی بقاء کا دارومدار ایک سرپرست اور حاکم پر ہے۔
3۔ دین میں تحریف اور بدعت کو روکنے اور شریعت کو ختم ہونے سے بچانے کیلئے حاکم کا وجود ضروری ہے۔
پس ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے امت مسلمہ کے سیاسی اور اجتماعی امور پر بھی توجہ دی ہے اور صرف انفرادی اور عبادی احکام کو بیان کرنے پر اکتفاء نہیں کیا۔
امام کا مقام:
اسلام میں سیکولرازم کے بطلان کو ثابت کرنے کیلئے ایک اور دلیل دین اسلام میں امام کا مقام ہے۔ تمام مسلمان متکلمین چاہے شیعہ متکلمین ہوں یا اہلسنت متکلمین، امامت کی تعریف یوں کرتے ہیں، امامت یعنی دین اور دنیا کے امور میں انسانوں کی رہبری کرنا۔
مثال کے طور پر معروف شیعہ فقیہ اور متکلم علامہ حلی رہ اس بارے میں فرماتے ہیں، "الإمامة رئاسة عامّة فى أمور الدّنیا و الدّین لشخص من الأشخاص نیابة عن النّبی”۔ ترجمہ، امامت یعنی پیغمبر اکرم ص کی جانشینی میں کسی شخص کو دنیا اور دین کے امور کا مکمل اختیار دینا۔ [حسین بن یوسف حلی، الباب حادی عشر، صفحہ 10]۔ اسی طرح اہلسنت کے معروف متکلم سعدالدین تفتازانی اس بارے میں لکھتے ہیں، "ریاسة عامة فی أمر الدین والدنیا خلافة عن النبی علیه الصلاة والسلام”۔ ترجمہ، نبی اکرم (ص) کی جانشینی میں دین اور دنیا کے امور میں مکمل اختیار ہونا”۔ [سعدالدین تفتازانی، شرح المقاصد فی علم الکلام، جلد 2، صفحہ 272]۔
لہذٰا ہم دیکھتے ہیں کہ امام کی تعریف میں شیعہ اور سنی محققین میں اتفاق نظر پایا جاتا ہے۔ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ امام کا اختیار مسلمانوں کے تمامی دنیوی اور اخروی امور پر ہے اور وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نائب اور خلیفہ ہے۔ شیعہ اور سنی مسلمانوں میں امامت کے بارے میں اختلاف صرف امام کے مصداق کی حد تک ہے۔ یہ نکتہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ جس
طرح دین مبین اسلام میں انسان کی انفرادی اور عبادی زندگی پر توجہ دی گئی ہے اسی طرح اس کی سیاسی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں بھی مکمل پروگرام پیش کیا گیا ہے۔ اسی لئے اسلام میں حاکم شرع مقرر کیا گیا ہے۔
شیعہ مسلمان اپنی حتمی اور قاطع دلیلوں کی روشنی میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام کیلئے "معصوم” ہونا ضروری ہے اور "عصمت” امامت کی شرط ہے۔ چونکہ عصمت ایک ایسی خصوصیت ہے جس کا تعلق انسان کے باطن سے ہے لہذٰا انسان اس کی تشخیص نہیں دے سکتے اور یہ نہیں سمجھ سکتے کہ کون شخص معصوم ہے تاکہ حکومت اس کے حوالے کر سکیں۔ پس "امام معصوم” کی تشخیص کا واحد راستہ خداوند متعال کی جانب سے اس کو منصوب اور متعین کرنا ہے اور لوگ اس قابل نہیں کہ حاکم شرع کو خود انتخاب کر سکیں۔ اسی طرح شیعہ مسلمان تاریخی حقائق اور معتبر روایات کی روشنی میں یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر غدیر خم کے مقام پر خدا کے دستور کی پیروی کرتے ہوئے امیر المومنین امام علی علیہ السلام کو اپنا جانشین اور اپنے بعد مسلمانوں کیلئے خلیفہ اور حاکم معین کر دیا تھا۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر امام علی علیہ السلام کو مسلمانوں کے سیاسی حاکم کے طور پر منصوب کیا تھا جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض ایسے مقامات بھی تھے جو خود بخود امام علی علیہ السلام کو منتقل ہو گئے تھے جیسے ولایت تکوینی اور خالق اور مخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہونے کا مقام کیونکہ یہ وہ مقامات ہیں جن میں منصوب کئے جانے کی ضرورت نہیں اور خود بخود ایک معصوم سے دوسرے معصوم تک منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ مقامات خداوند متعال ہر معصوم کو عطا کرتا ہے اور امام معصوم واسطہ فیض ہونے کے ناطے اپنے وظائف کو بھی انجام دیتا رہتا ہے چاہے لوگ اس پر راضی ہوں یا نہ ہوں۔ ان مقامات پر لوگوں کے راضی ہونے یا نہ ہونے کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نہ صرف سیاسی امور میں خداوند متعال کی جانب سے مسلمانوں کیلئے اتھارٹی اور حجت قرار پائے تھے بلکہ انہیں خدا کی طرف سے دینی اور علمی اتھارٹی بھی حاصل تھی۔ تاریخ کے دوران کوئی بھی ایسا مسلمان شخص نہیں گزرا جس نے امام علی علیہ السلام اور آئمہ طاہرین علیھم السلام کے علمی مقام کا انکار کیا ہو۔ مسلمان محققین میں جس کو بھی کوئی علمی مسئلہ پیش آتا تھا وہ آئمہ معصومین علیھم السلام سے رجوع کرتا تھا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی آئمہ معصومین علیھم السلام کی خدمت میں آیا ہو اور اس کا مسئلہ حل نہ ہوا ہو۔ حتی اسلامی معاشروں پر حکمفرما حکمران بھی بعض اوقات خود کو درپیش علمی مشکلات کے حل کیلئے ائمہ معصومین علیھم السلام سے رجوع کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ اہلسنت والجماعت کے چار مشہور امام یعنی امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالکی اور امام حنبل سب کے سب امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں میں سے تھے۔ امام ابوحنیفہ سے نقل ہوا ہے کہ "لولا السنتان لھلک النعمان” [شکری الآلوسی، سید محمود، مختصر التحفۃ الاثنی عشریہ، قاہرہ، المطبعہ السلفیہ، صفحہ 8]۔ "اگر دو سال نہ ہونے (امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی میں) تو نعمان (ابوحنیفہ) ہلاک ہو جاتا”۔ لہذٰا شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان امامت کے بارے میں اختلاف صرف اس حد تک ہے کہ شیعہ امام علی علیہ السلام اور ان کے گیارہ فرزندوں کو خدا کی جانب سے منصوب شدہ "امام معصوم” مانتے ہیں جبکہ سنی یہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس امام علی علیہ السلام کے خدا کی جانب سے مسلمانوں کے حاکم کے طور پر منصوب ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔
نتیجہ:
اس مختصر تحریر میں ہم آیات، احادیث اور اسلام میں امام کے مقام کی روشنی میں لئے گئے جائزے سے اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ دین اور سیاست میں جدائی پر مبنی تفکر اور دین کو انسان کی انفرادی اور ذاتی زندگی تک محدود سمجھنے والی سوچ کا دین مبین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سوچ اسلامی تعلیمات اور اصولوں کی روشنی میں ایک باطل سوچ ہے۔ دین مبین اسلام میں جہاں انسان کی ذاتی اور عبادی زندگی کیلئے دستورات موجود ہیں اس سے کہیں زیادہ انسان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی کے بارے میں دستورات پائے جاتے ہیں جن کے اجراء کیلئے ایک ایسے شخص کا حاکم ہونا ضروری ہے جو اسلامی اصولوں اور تعلیمات سے گہری واقفیت اور آشنائی رکھنے کے علاوہ تقوی اور مدیریت کے اعلی مدارج پر بھی فائز ہو۔