پاکستان کے پاس اب بھی اچھے طالبان کیوں ہیں؟
تحریر:عامر میر
سانحہ پشاور کے بعد ’’اچھے‘‘ اور ’’برے‘‘ طالبان کی تفریق نہ کرنے کے وزیراعظم نواز شریف کے غیر مبہم اعلان کے باوجودواضح اشارے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ’’جہادی اثاثوں‘‘ سے ’’اچھے طالبان‘‘ کا برتائو کرنے اور ترجیحی رویہ اختیار کرنے کی نشاندہی کررہے ہیں۔ وزیراعظم کے واضح اعلان کے باوجود لگتا ہے کہ صرف تحریک طالبان پاکستان کے اندر گروپوں میں، جو حکومت سے مذاکرات کےلیے تیارہیں اور جو تیار نہیں ہیں، امتیاز برتا جارہاہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ جنگجو عناصر جو ریاست پاکستان کے خلاف کارروائی نہیں کررہے یا ماضی میں ’’دشمن ملکوں‘‘ پر حملے کرتے رہے ہیں، ان سے باوجوہ ترجیحی سلوک اور نرمی برتی جارہی ہے۔ لشکر طیبہ کے زیر سماعت چیف آپریشنل کمانڈر ذکی الرحمٰن لاکھوی کی اچانک ضمانت ہونا اور پڑوسی ملک کے خلاف بولنے و الے جماعت الدعوہ کے امیر حافظ سعید کی آزادانہ سرگرمیاں ظاہر کرتی ہیں کہ پشاور میں اسکول کے بچوں کے قتل عام کے بعد انسداد دہشت گردی کےلیے پاکستانی کارروائیاں اندرونی دہشت گردی تک محدود رہیں گی اور جو جنگجو پڑوسی ملکوں میں کارر وا ئیا ں کررہےہیںان کے ساتھ’’اچھے طالبان‘ ‘ کا رویہ جاری رہے گا۔ درحقیقت اس اعلان کے باوجود کہ ذکی الرحمان لکھوی کو اس نازک موقع پر جیل سے باہر نہیں آنے دیا جائے گا۔ پاکستانی حکومت نے اس کی ضمانت کے حکم (اسلام آباد ہائیکورٹ کا) کو 24؍ دسمبر تک چیلنج نہیں کیا تھا جو دو ہفتوںکی موسم سرما کی تعطیلات سے قبل عدالتوں کا آخری کام کا دن تھا۔ کہا گیاہے کہ ٹرائل کورٹ سے ضمانت کے حکم نامہ کی کاپی نہیں مل سکی جو بقول ایف آئی اے پراسیکیوٹر کسی بھی کورٹ آرڈر کو چیلنج کرنے کےلیے ضروری ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لکھوی کے وکلا نے پہلے سیکرٹری داخلہ شاہد اللہ خان کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے موکل کی ایم پی او کے تحت ایک ماہ نظربندی کا حکم فوری واپس لیا جائے بصورت دیگر وہ وفاقی حکومت کے خلاف توہین عدالت کی اپیل دائر کریںگے۔ حافظ سعید کو ممبئی دہشت گرد حملوں کے الزام میں 2008ء میں گرفتار کیا گیا تھا، انہیں لاہورہائیکورٹ نے ضمانت پر رہا کردیا تھا، انہیںبھی لکھوی کی طرح ایم پی او کے تحت گھر میں نظربند رکھا گیا بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ کےنظرثانی بورڈ نے انہیں رہا کردیا اب لکھوی کی ضمانت کو چیلنج نہ کیا گیا تو وہ جلد یا بدیر جیل سے باہر آجائے گا، کیونکہ اس کو اب بھی اچھا طالبان سمجھا جاتا ہے۔ فی الحقیقت پاکستانی جنگجوئوں کو پانچ مختلف کیٹگریز میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ’اول‘ وہ (برے نام ) جنہوں نے ریاست پاکستان کا مقابلہ کیا اور بالآخر مارے گئے یا پھانسی پر لٹکا دیے گئے ان میں کمانڈر بیت اللہ محسود، کمانڈر حکیم اللہ محسود، کمانڈر حسین محسود، کمانڈرالیاس کاشمیری، مولوی نذیر، عقیل عرف ڈاکٹر عثمان شامل ہیں۔ ’دوم‘ وہ (برے نام) جو اب بھی ریاست پاکستان کے خلاف مصروف عمل ہیں اور اب تک زندہ ہیں ان میں مولوی فضل اللہ، کمانڈر عمر خالد خراسانی، کمانڈر عمر منصور، کمانڈر خان سید سجنا، حافظ گل بہادر وغیرہ شامل ہیں۔ ’سوم‘ وہ جنہیں ’’اچھا‘‘ سمجھا جاتا ہے مگر وہ مختلف وجوہات کی بنا پر نیچے رکھا گیا ہے ان میں قاری سیف اللہ اختر، مولانا مسعود اظہر، کمانڈر عصمت اللہ مولوی، وغیرہ شامل ہیں۔ ’چہارم‘ جنہیں ’’اچھا‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور انہیں آزادی حاصل ہے ان میں حافظ سعید، مولانا فضل الرحمن خلیل، مولانا محمد احمد لدھیانوی شامل ہیں۔ ’پنجم‘ وہ جنہیں عدالتوں نے حال ہی میں ضمانتوں پر رہا کیا مگر ایک یا مختلف وجوہ کی بنا پر اب تک جیل میں ہیں ان میں ذکی الرحمٰن لکھوی، ملک اسحاق شامل ہیں جنہیںامریکا کی جانب سے دہشت گرد قرار دینےکے باعث عالمی پابندیوں کا سامنا ہے۔ تاہم طالبان کی تباہی قابوسے باہر ہوتی نظر آرہی ہے۔ پاکستانی فیصلہ سازوں کےلیے اچھے اور برے طالبان سے جان چھڑانے کا وقت آگیا ہے جیسا کہ وزیراعظم نواز شریف نے غیر مبہم عزم ظاہر کیا ہے۔