نئی فوجی عدالتیں اور محرم علی کیس کا متنازعہ فیصلہ
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) پاکستان میں فوجی عدالتوں کو ایک بار پھر زندہ کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی سرکاری اور غیر سرکاری حلقوں میں چہ مگوئیوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے موجودہ دور حکومت میں پچھلے دور کی طرح ایک بار پھر فوجی عدالتوں کے قیام اور قومی ایکشن پلان جیسے ایشوز پر آواز اٹھائی گئی اور گذشتہ روز تمام سیاسی جماعتیں اور فوج اس نکتے پر متحد ہو گئے کہ ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام نہایت ضروری امر ہے۔
اس سلسلے میں پاکستان کے سابق چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے ان عدالتوں کے قیام کے فیصلے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کے گذشتہ دور حکومت میں بھی فوجی عدالتیں قائم کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ آئین کے منافی متوازی نظام عدل قائم نہیں کیا جا سکتا۔
اس موقع پر انہوں نے محرم علی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محرم علی کو دی جانے والی پھانسی کے فیصلے کے متعلق بھی ہم نے کہا تھا کہ یہ عدالتیں آئین کے مطابق نہیں ہیں اور ان عدالتوں کی ہر ہر شق پر بات کی گئی تھی اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کون کون سی شقیں آئین سے متصادم ہیں۔
انہوں نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا کہ اگر حکومت نے اپنی پرانی روش کو برقرار رکھا اور پہلی دی گئی گائیڈ لائینز پر عمل نہ کیا تو ہو سکتا ہے کہ سپریم کورٹ اس دفعہ بھی ان عدالتوں کو کالعدم قرار دے دے۔
واضح رہے کہ سن 1997 کو تحریک جعفریہ کے فعال کارکن محرم علی کو لاہور سیشن کورٹ میں ہونے والے بم دھماکے کے الزام میں جس میں کالعدم دہشتگرد تنظیم سپاہ صحابہ کے سرغنہ سمیت 23 افراد مارے گئے تھے گرفتار کر کے کیس چلایا گیا تھا لیکن پاکستان کے عدالتی سسٹم کی سست روی کے باعث اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف خصوصی حکم نامہ کے زریعے ایک نیا عدالتی نظام لے آئے تھے جس کو ایٹنی ٹیریرازم کورٹ کا نام دیا گیا تھا۔ محرم علی پر اسی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور اس خصوصی عدالت نے محرم علی کو 23 بار پھانسی اور 550 سال قید کی سزا سنائی تھی جسے محرم علی نے ایک پٹیشن کے زریعے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ درخواست میں اس بات کا بھی تذکرہ کیا گیا تھا کہ ان عدالتوں کا قیام پاکستان کے آّئین کے خلاف ہے۔