مضامین

سانحہ پشاور، شہید بچوں کے والدین کے زخم تازہ، روزانہ اسکول آمد و آہ و بکا

رپورٹ: ایس اے زیدی

 

سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور میں پیش آنے والے دہشتگردی اور ظلم کے دلخراش واقعہ کو 2 ہفتے سے زائد کا عرصہ گذر گیا ہے، لیکن اب بھی پاکستانی قوم اس سانحہ کو فراموش کرنے پر آمادہ نہیں، لیکن جب دوسری طرف بربریت کی اس اندوہناک کہانی کے متاثرین پر نظر ڈالیں تو وہ کہیں صبر، کہیں جذبات، کہیں خاموشی اور کہیں بے بسی کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔ بالخصوص جام شہادت نوش کرنے والے معصوم بچوں کے والدین اب بھی روزانہ اسی بدقسمت درس گاہ آتے اور اپنے جگر کے گوشوں کی تصاویر کے سامنے بے بسی کی تصویر بن کر بیٹھ جاتے ہیں، ماوں کے آنسو ہیں کہ تھمتے نہیں، باپ اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوششوں کے باوجود کبھی کبھی آنکھوں کو نم ہونے سے نہیں روک پاتے، جس کی وجہ سے موقع پر ماحول غمگین ہوجاتا ہے۔

ان ماوں کی آہ و بکا پر کوئی بھی اشک بہائے بغیر نہیں رہ پاتا، سانحہ کو دو ہفتے سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے مگر سکول آنے والوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے، روزانہ نوجوان بھی ٹولیوں کی شکل میں آتے ہیں، جن کے ہاتھوں میں پھول اور شمعیں ہوتی ہیں، والدین کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی آتے ہیں، اور شعور نہ رکھنے کے باوجود اپنے شہید ہونے والے ساتھیوں کیلئے شمعیں روشن کرکے اور پھولوں کے گلدستے رکھ کر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، کئی لوگ قرآن خوانی میں مصروف نظر آتے ہیں، وہ لمحہ انتہائی مشکل ہوتا ہے جب باہر سے آئے ہوئے لوگوں سے شہداء کے لواحقین کہتے ہیں کہ ’’یہ تصور میرے بچے کی ہے‘‘ اور پھر گلے لگ کر زار و قطار روتے ہیں، واقعہ رونماء ہوا تو اسکول ایک کھنڈر کا منظر پیش کر رہا تھا، ہر طرف خون، دیواروں پر بموں کے اثرت اور گولیوں کے نشان موجود تھے۔

ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کوئی دو ممالک کی فوجوں کی درمیان لڑائی ہوئی ہو، اسکول میں بچوں کی وردیاں، ان کی کتابیں خون میں تر ہر طرف بکھری پڑی تھیں۔ دوسری طرف پاک آرمی اور اسکول انتظامیہ نے اسکول کا تعمیراتی کام تیز کر دیا ہے، سکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جلد اسکول دوبارہ سے بچوں کے لئے کھول دیا جائے گا، اس وجہ سے کام تیزی سے کرنا پڑ رہا ہے، اسکول کی دیواروں کو پھر کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچانے کے لئے اونچا کیا جا رہا ہے، فائرنگ اور بم دھماکوں سے متاثرہ بلاکس کی تعمیر تیزی سے جاری ہے، واضح رہے کہ اس سانحہ میں اسکول کا ایڈمن بلاک سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا، اسکول کی سکیورٹی فوجی اہلکاروں نے سنبھالی ہوئی ہے اور آنے والوں کے ساتھ نہایت ہی خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے آنے والوں کی قربتیں فوج کیساتھ مزید بڑھ رہی ہیں۔

وقت گذرنے کیساتھ ساتھ پاکستانی قوم اس عظیم سانحہ کو شائد فراموش تو نہ کر پائے، تاہم افسوس اور جذبات کی شدت کم پڑ جائے، تاہم ان متاثرہ والدین کے زخموں کو کون بھرے گا، جن کی کل کائنات، عمر بھر کی کمائی اور انمول خزانہ سفاک دہشتگرد لوٹ کر چلے گئے، اس ماں کو کیسے نیند آتی ہوگی، جس کے ننھے پھول کو ظالموں نے کچل دیا، اس باپ کو کیسے سکون آئے گا، جس کے بڑھاپے کا سہارا انسانیت کے دشمنوں نے چھین لیا۔؟ یقیناً یہ بدقسمت ماں باپ اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک اپنے جگر گوشوں کو نہیں بھول پائیں گے، اور یہ کوئی ایک، دو خاندانوں کی بات نہیں بلکہ 135 سے زائد معصوم بچوں کے والدین کی داستان ہے، شائد یہ بدقسمت ماں باپ ہمیشہ اس اسکول کو اپنے باغ کے پھولوں کی یادوں کی وادی سمجھ کر آتے رہیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button