اعتزاز۔۔۔ کاش کہ تم پشاور میں بھی ہوتے!
رپورٹ: ایس اے زیدی
ٹھیک ایک سال قبل آج ہی کے دن سرزمین ہنگو پر شجاعت، بہادری، حب الوطنی، عزم اور ہمت کی ایک نہ فراموش داستان رقم کی گئی، اور اس داستان کا راقم ایک 15 سالہ نوجوان تھا، ہنگو کے علاقہ ابراہیم زئی سے تعلق رکھنے والا نوجوان اعتزاز حسن گورنمنٹ بوائز اسکول ابراہیم زئی میں نویں جماعت کا طالب علم تھا، 6 جنوری 2014ء کی صبح اعتزاز حسن اپنے اسکول کے باہر موجود تھا کہ اسے ایک مشکوک شخص اسکول کی طرف آتا نظر آیا، اس نوجوان نے اس مشکوک شخص کا مزموم ارادہ فوری طور پر جانچ لیا، یہ مشکوک شخص ایک خودکش حملہ آور تھا، جو اس اسکول میں اسمبلی کیلئے تیاری میں مصروف معصوم بچوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنانا چاہتا تھا، نوجوان مگر مضبوط جسم اور ارادوں کے مالک اعتزاز حسن نے اس خودکش حملہ آور کو دبوچ لیا۔
اسی دوران خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو دھماکہ سے اڑا دیا، جہاں یہ خودکش حملہ آور واصل جہنم ہوا، وہیں اعتزاز حسن نے بھی اپنے کئی معصوم ساتھیوں کی زندگیاں بچاتے ہوئے شہادت کا عظیم مرتبہ پالیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کالعدم لشکر جھنگوی کے ترجمان علی سفیان نے میڈیا کے نمائندوں کو فون کرکے گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول ابراہیم زئی پر خودکش حملہ کی ناکام کوشش کی ذمہ داری قبول کی۔ اس واقعہ نے دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح تک شہرت پالی، اور نوعمر اعتزاز حسن کی جرات و بہادری کی اس داستان نے ضلع ہنگو کے اس چھوٹے سے گاوں براہیم زئی کو انٹرنیشنل میڈیا کی شہہ سرخیوں کی زینت بھی بنادیا، شہید اعتزاز حسن کی والد گرامی نے تعزیت کیلئے آنے والوں کو کہا کہ کوئی مجھے دلاسہ یا حوصلہ دینے نہ آئے بلکہ مجھے مبارکباد دی جائے کہ میرے بیٹے نے اتنی عظیم قربانی پیش کی ہے۔
آج شہید اعتزاز حسن کی پہلی برسی تھی، اور چند روز قبل اس نوجوان کو گذشتہ سال کیلئے ہیرالڈ کی بہترین شخصیت قرار دیا گیا ہے، واضح رہے کہ ہیرالڈ کی سال کی بہترین شخصیت کا ایوارڈ اس پاکستانی شخصیت کو دیا جاتا ہے جو سال بھر خبروں کی دنیا پر چھائے رہے اور انہوں نے اس سال کوئی اہم کام کیا ہو، شہید اعتزاز حسن تین طرز کی ووٹنگ کے عمل کے فاتح ٹھہرے۔ ووٹنگ کے لیے آن لائن، بذریعہ پوسٹ اور 10 نامور پاکستانیوں پر مشتمل پینل کی رائے کو مدنظر رکھا گیا تھا، حتمی نتیجے میں اعتزاز 24.1 فیصد ووٹ لے کر سرفہرست رہے جبکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان دوسرے نمبر پر رہے۔ شہید اعتزاز حسن کی عظیم قربانی کی اہمیت اس وقت کہیں زیادہ محسوس ہوئی جب 16 دسمبر 2014ء کو تعلیم، پاکستان اور انسانیت دشمن انسان نماء درندوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرکے 140 سے زائد معصوم پھولوں کو مسل دیا۔
اگر ایک لمحہ کیلئے یہ تصور کرلیا جائے کہ شہید اعتزاز حسن یہ قربانی نہ دیتے تو ہنگو میں بھی آج نہ جانے کتنی مائیں پشاور کی ماوں کی طرح زندہ نعشیں بن کر بیٹھی ہوتیں، شہید اعتزاز حسن کی اس قربانی کی اہمیت کو درحقیقت آج تک درست طور پر نہیں پہچانا گیا، اگر دہشتگردوں کیخلاف تعلیم کے ہتھیار کو استعمال کرنے والی ملالہ یوسفزئی کو عالمی ادارہ کی جانب سے امن کا نوبل انعام مل سکتا ہے، تو اس نوعمر شہید کو بھی کئی معصوم انسانی جانیں بچانے پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک رول ماڈل کی حیثیت ملنی چاہیئے تھی، جو کہ اس کی اس عظیم قربانی کے مطابق نہیں مل سکی۔ سلام ہے اس عظیم ماں پر جس نے اعتزاز حسن جیسے بیٹے کو جنم دیا، جس نے کئی ماوں کی گودوں کو اجڑنے سے بچا لیا، شائد آج پشاور کی وہ بدقسمت مائیں بھی یہی کہتی ہوں گی ’’اے اعتزاز۔۔۔ کاش کہ تم پشاور میں بھی ہوتے!