داعش اور اہل سنت کے عقائد میں بنیادی اختلاف
سعودی عرب اور قطر کے ذرائع ابلاغ وسیع پیمانے پر اس گروہ کے مقاصد کی خاطر سر گرم عمل ہیں ان کی یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ یہ گروہ جو وہابیت کے قریب ہے یہی واقعی اہل سنت ہیں ۔
دولت اسلامی عراق و شام کہ جو داعش کے نام سے مشہور ہے یہ شدت پسند گروہ خشک مذہبی اعتقاد کی بنیاد پر شام میں شکست کھانے کے بعد اب عراق کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے در پے ہے ۔یہ وہ دہشت گرد گروہ ہے کہ جس کے کام کی بنیاد اپنے اہل مذہب کو کافر قرار دینا اور بعد میں ان کو قتل کر دینا ہے ۔
تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ القاعدہ کی شاخ یہ گروہ اپنی آیڈیالوجی اور اپنے دینی مبانی کو اصلی اور حقیقی اہل سنت کی آیڈیالوجی قرار دیتا ہے حالانکہ واقعیت سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف اہل سنت کی اکثریت اس انتہا پسند گروہ کے کردار کے ساتھ سنخیت نہیں رکھتی بلکہ وہ اس کردار اور سلوک کےخلاف ہے ۔
سعودی عرب اور قطر کے ذرائع ابلاغ وسیع پیمانے پر اس گروہ کے مقاصد کی خاطر سر گرم عمل ہیں ان کی یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ یہ گروہ جو وہابیت کے قریب ہے یہی واقعی اہل سنت ہیں ۔
یہ سلفی وہابی گروہ توحید کے مسائل میں تمام ایل سنت کے ساتھ چاہے وہ کلامی یا فقہی فرقے ہوںتضاد اور ٹکراو کی حالات میں ہے اہل سنت کے تمام چار فرقے اپنے شفاعت اور رسول اللہ سے توسل اور آنحضرت کی زیارت کےاعتقاد کی بنیاد پر کافر قرار دیے جاتے ہیں اور وہابیوں کے لیے ان کی جان اور ان کے اموال حلال کر دیے گئے ہیں ۔اس دہشت گرد گروہ نے جو قوانین وضع کیے ہیں جیسے عورتوں کا جینز کی پینٹ پہننا اور پتلی کمر والے مردوں کا جینز کی پینٹ پہننا ،اور عورتوں کا لیڈی ڈاکٹر کے پاس جانا وغیرہ کی ممنوعیت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتنے قدامت ہپرست ہیں اور اہل سنت کے اصلی فرقے کے احکام سے یہ کتنے دور ہیں اور وہابیوں کے فتووں کے حد سے زیادہ نزدیک ہیں اس لیے کہ اس گروہ کے قوانین اور اعمال سعودی عرب کے قوانین کی مانند ہیں ۔
دوسری طرف اس گروہ کے سلفی تکفیری افکار کی بنیاد تمام اسلامی فرقوں کی تکفیر اور ان کے مقدسات کی اہانت کرنے پر استوار ہے ۔
شیعوں کے مقدس مقامات کو مسمار کرنے کی کوشش اور اس پر اصرار ایسی حالت میں ہو رہا ہے کہ اہل سنت ہمیشہ ان متبرک مقامات کی زیارت کے پابند رہے ہیں ۔
اہل سنت کے واقعی بزرگوں کی اہل بیت عصمت و طہارت سے محبت کی شاید بہترین دلیل اور اس کا مدرک امام ادریس شافعی کے یہ جملے ہیں کہ جو اہل سنت کے چار اماموں میں سے ہے ،وہ کہتا ہے :
یا راکِباً قِف بالمُحَصَّبِ مِن منیً
وَاهتِف بِقاعِدِ خَیفِها وَالنَّاهِضِ
سَحَراً إذا فاضَ الحَجیجُ إلی مِنیً
فَیضاً کَمُلتَطِمِ الفُراتِ الفائِضِ إن کانَ رَفضاً حُبُّ آلِ مُحمَّدٍ
فَلیَشهَدِ الثَّقَلانِ أنّی رَافضِی
ترجمعہ: اے منی کے ریگزاروں پر سواری کرنے والو! سوار ہی رہو اور گھاٹیوں اور بلندیوں کے پیاسوں کو خبر دے دو ۔ ان زائروں کو کہ جو صبح تڑکے فرات کے جوش مارتے ہوئے دریا کی مانند منی کی جانب روانہ ہوتے ہیں کہہ دو : اگر محبت اہل بیت رفض اور کفر ہے تو جن و انس جان لیں کہ میں رافضی ہوں ۔
حقیقت میں داعش حتی سنیوں کو کافر قرار دے کر رعب و وحشت کے ایجاد اور اظہار قدرت کے در پے ہے اور تکفیر کے مسئلے سے وہ دین کے قالب میں ایک ہتھیار کے طور پر استفادہ کرتا ہے تا کہ اپنے ناپاک مقاصد تک پہنچ جائے ۔
لیکن واقعیت یہ ہے کہ داعش والے حتی اہل سنت کے اموال اور جان کے لیے کسی ارزش کے قایل نہیں ہیں ۔جس طرح کہ آپ فیلموں میں دیکھتے ہیں کہ داعش شام میں کس طرح اہل سنت کو خاک و خون میں غلطاں کرتے ہیں ۔
شام اور عراق کے سنی نشین علاقوں پر حملوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ گروہ شیعوں کے علاوہ اہل سنت کے خون کا بھی پیاسا ہے ۔
پیغبروں کی قبروں پر حملے اور قبر کھودنے اور اہل سنت کے بزرگوں جیسے ابی تمام اور ابن الاثیر کے مجسموں کو مسمار کرنا یہ دکھاتا ہے کہ اس وہابی مسلک والے دہشت گرد گروہ میں اور اہل سنت میں کتنا فاصلہ ہے ۔
عراق کے سنی مذہب کے مفتی شیخ احمد الکیسی نے داعش کے تکفیریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاد کا حکم صادر کیا ہے اور تصریح کی ہے : یہ افراد اسرائیل اور سعودیوں کے شریک ہیں اور اسلام کی تضعیف اور نابودی کی راہ میں گام بردار ہیں ۔
عراقی مفتیء اہل سنت اور نامور عالم شیخ احمد الکیسی ان لوگوں کے خلاف جہاد کو واجب قرار دیتے ہوئے کہ جو خود کو دولت اسلامیء عراق و شام کہتے ہیں کہا : ان کے ساتھ مقابلے کا واجب ہونا ان کے عراق میں حالیہ اقدامات سے ہی مربوط نہیں ہے اور کوئی نیا حکم نہیں ہے وہ اسرائیل اور سعودیوں کے شریک ہیں اور اسلام کی تضعیف اور شکست اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں ۔
موصل تکریت اور کرکوک میں قتل و غارت سےکہ جو سنی نشین علاقے ہیں واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ کیوں آیۃ اللہ سیستانی کے فتوے کے بعد کہ داعش کے خلاف جہاد واجب ہے عراق کے علماء کی کمیٹی کے سربراہ شیخ خالد الملاءنے اعلان کیا تھا کہ بغیر کسی شک کے آیۃ اللہ سید علی سیستانی تمام عراقیوں کے مرجع ہیں ۔
اور آخر میں داعشیوں جیسوں کی مسلمانی کی کیفیت کے بارے میں اس تاریخی قول کے نقل کی جانب اشارہ کر دیا جائے کہ ایک عالم اہل سنت شیخ خالد بغدادی کہتا ہے : اگر وہابیوں کی کتابوں کا دقت کے ساتھ مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ لا مذہبوں کی کتابوں کی طرح کوشش کرتے ہیں کہ اپنے باطل افکار سے مسلمانوں کو دھوکہ دیں اور انہیں گمراہ کریں ۔