مضامین

دہشتگرد اکرم لاہوری کی حقیقت، حصوصی تحریر

کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے دہشتگرد اکرم لاہوری کی کون ہے اسکا کیا جرم ہے؟ اکرم لاہوری جو 230 معصوم انسانوں کا قاتل ہے کو ابھی تک پھانسی کیوں نہیں دی گئی جبکہ اسکے جرائم ثابت ہیں، اکرم لاہور کی پھانسی میں تاخیر دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ثابت ہوگئی۔
اس ملعون کے جرائم مندرجہ ذیل ہیں

3 جولائی 2002 کو کراچی پولیس کی جانب سے جاری کی گئی اکرم لاہوری کے جرائم کی لسٹ کے مطابق صرف کراچی میں ہی اس ملعون پر 33 قتل کے کیس رجسٹرڈ ہیں ، یہ 33 قتل صرف شیعہ مسلمانوں کے ہیں جو اس نے کراچی میں کیئے جبکہ 30 پنجاب میں اور کئی مخلتف جگہوں پر اس ظالم کے خلاف قتل کے مقدمات درج ہیں، یہ انسان نہیں بلکہ درندہ ہے اگر یہ آزاد ہوا یا اسکو پھانسی نہیں دی گئی تو یہ ظالم کئی اور معصوم جانوں اور زندگیوں کو گل کردیے گا کیوں کہ ان درنددوں کے منہ کو خون لگا ہوا ہے، اطلاعات ہیں کہ جیل کے اندر سے بھی یہ کالعدم دہشتگرد تنظیم لشکر جھنگوی کو آپریٹ کرتا ہے، اور کئی قتل بھی کروائے ہیں۔

3 جولائی 2002 کو کراچی پولیس کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق اکرم لاہوری نے 3 مئی 2001 کو کورنگی کے علاقے میں سید اختر حسین رضوی کا قتل کیا،20 جولائی 2001 سید مشتاق حسین کو شہید کیا، 26 جون 2001 ڈاکڑ اسد بخاری کو سعیدآباد میں، 18 جولائی ڈاکڑ علی رضا پیرانی کو سولجر بازار میں،26 جولائی 2001 شوکت علی مرزا کو ایف سی ایئریا، 1 ستمبر 2001 کو حامد رضوی کو کلفٹن کے علاقہ میں، سید رضی حیدر رضوی اور باسط نجفی کو گزری کے علاقے میں 12 ستمبر 2001 ،وسیم،گلزار حسین،جبار،فیضان،غلام رسول اور محمد رضا زیدی کو 4 اکتوبر محمودآباد۔ احتشام حیدر سولجر بازار میں 21 دسمبر،سید جواد حسین 29 جنوری 2002 کو درخشان میں،صادق علی 3 فروری 2002 کھارادر،ڈاکڑ راشد مہدی 12 فروری مومن آباد،ڈاکڑ آل صفدر زیدی 4 مارچ گزری ایئریا، ڈاکڑ مظفر علی سومرو، 7 مارچ بغدادی پولیس اسٹیشن، انور علی ترمزی اور ذولفقار حیدر 11 مارچ شاہ فیصل میں، کانسٹبل فیض السلام 11 مارچ کورنگی، قاضم حسین 21 مارچ محمود آباد،محمد نظیر 7 اپریل رضویہ سوسائیٹی، عبدالخیر 9 اپریل نارتھ ناظم آباد، آل عبا رضوی اور ناصر علی 24 اپریل پیرآباد تھانہ حدود، سید ظفر مہدی زیدی، میر زماں، اور مختار احمد 6 مئی الفلاح مسجد پر حملہ،آغا عباس اور گل زماں 25 مئی رضویہ، ندیم حسین 28 مئی عزیز بھٹی تھانہ کی حدود میں شہید ہوئے۔

صرف دو سال کے اس عرصے میں ان شیعہ ڈاکڑز، بزنس مین، علماء اور دیگر پروفیشنل سے تعلق رکھنے والے کئی شیعہ جوان کو اس قاتل نے قتل کیا، یہ وہ کیس ہیں جنکے مقدمات اس ملعون پر درج ہیں جبکہ کئی درج نہیں،اسکے علاقہ امام بارگاہوں پر حملہ، مجالس و جلوس، مساجد وغیرہ پر حملہ الگ ہے۔ لہذا اس ملعوں کو فوری پھانسی دی جائے جو انتے سارے انسانوں کا قاتل ہے۔

پولیس کے مطابق دوران تفتش اکرم لاہوری نے اقرار کیا ہے پنجاب میں بھی 30 مقدمات شیعہ مسلمانوں کے قتل کے اس پر درج ہیں، جن میں سے اہم 6 ایرانی کیڈٹ کا 17 ستمبر 1992 کے قتل کا کیس ہے، جنہیں اس نے راولپنڈی میں قتل کیا تھا۔

اسی طرح 1998 کی ایک بڑی دہشتگردی کا کیس بھی اس ظالم پر درج ہے جس میں 26 افراد شہید ہوئے۔

اکرم لاہوری 26 دسمبر 1997 ڈیرہ غازی خان جیل پر حملے میں بھی ملوث ہے۔

اس کے علاوہ امام بارگاہ شاہ نجف راولپنڈی حملے میں بھی ملوث ہے۔

واضع رہے کہ آج جس قاتل کی پھانسی معطل ہوئی ہے وہ اکرم لاہوری نہیں بلکہ اکرام الحق عرف لاہور ہے۔ اکرام لاہوری کا نام محمد امجد ہے اور پھانسی کا منتظر ہے لہذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس ملعون خدا لاہوری کو جلد از جلد پھانسی دی جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button