اگر آٹھ لاکھ روپے دے دیئے جاتے۔۔۔؟
تحریر: غلام رسول جوادی
کیا عجب ہے کہ ہر کام کا کریڈٹ لینے کے ماسٹرز آج سوشل میڈیا پر عام ہونے والے ایک ایشو میں خود کو لا تعلق ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں،جن لوگوں نے تحریک جعفریہ کے موجودہ سربراہ کی کارکردگی اور سنہرے کارناموں پر مشتمل مضمون، قیادت کا چھبیس سالہ سفر پڑھا ہوا ہے انہیں اس حوالے سے یقینابے حد حیرانی و پریشانی ہو رہی ہے کہ کیسے اتنے بڑے کام کو کسی اور کے کھاتے میں ڈالنا گوارا کیا جا رہا ہے، کریڈٹ لینے کے ان ماسٹرز کا یہ حال ہے کہ افواج پاکستان نے جب حکمرانوں کو دو ٹوک انداز میں یہ کہا کہ پھانسیوں کا عمل شروع کیئے بنا ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ،تو اس کو بھی قیادت کا تدبر،دور اندیشی اور ان ہی کے مطالبے کو تسلیم ہونے کا کریڈٹ بتا کر شازیانے بجائے گئے،سوشل میڈیا پر اتنے خوش دہشت گردوں کیخلاف سامنے آنے والے اقدامات سے نہیں ہوئے جتنے اس بات پر شاداں و نازاں دکھائی دیئے کہ یہ صرف ان کی قیادت کا ہی مطالبہ تھا،بہرحال بات ہو رہی تھی کریڈٹ لینے کے ماسٹرز کی۔ سپاہ صحابہ کے ایک دہشت گرد اکرام الحق جسے میڈیا نے اکرم لاہوری بنا دیا کے پھانسی کے وارنٹ جاری ہونے کے بعد مبینہ ڈیل کی خبر ان ہی کے پسندیدہ اخبار جنگ میں شائع ہوئی ،جسے سوشل میدیا پر کافی پذیرائی حاصل ہوئی اور قوم نے اس حوالے سے اس گروہ کی ایسی کلاس لی کہ الامان الحفیط، بے چاروں کو باقاعدہ تردیدی بیان جاری کرنا پڑا مگر تیر کمان سے نکل جائے تو واپس نہیں آتا ،اس کی لاکھ تردیدیں سوشل میڈیا پر سامنے لائی جائیں اصل بات وہی ہے جس کو عوام نے ملاحظہ فرما لیا ہے اب بھاگنے اور ڈینگیں مارنے کا کوئی فائدہ ہونا کا نہیں۔
یہ ڈیل بہرحال ویسے ہی ہونے جا رہی تھی جیسے جنگ اخبار میں شائع ہوئی تھی،جس میں کیس کے مدعی تحریک جعفریہ کے تحصیل صدر الطاف شاہ آف شور کوٹ کرنا چاہ رہے تھے۔ الطاف شاہ کی یہ ڈیل اگر خاموشی سے ہو جاتی تو حسب عادت اس کا کریڈت لینے کیلئے تاڑ میں بیٹھے کریڈٹ لینے کے ماسٹرز بڑے فخر سے اپنے قائد کے روایتی تدبر،دور اندیشی اور حکمت آفرینی سے تعبیر کرتے ہوئے افتخار و خوشی کے شاذیانے بجاتے یہ کہتے کہ ہم نے دو انتہائی اہم شیعہ نوجوانوں کو پھانسی کے پھندوں پر جھولنے سے بچا لیا وہ بھی ایسے موسم میں جب پھانسیوں کے پھندے عدالتی کاروائیاں پوری کیئے بنا ہی گلے میں فٹ کیئے جا رہے ہیں ،یہ تو برا ہو میڈیا کا جس نے سارا کھیل ہی خراب کر دیا ،اور حضرت قائد کے چاہنے والوں کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ،اکرام الحق کو لشکر جھنگوی کے بانی اکرم لاہوری بنا دیا اور شیعہ قوم و حساس اداروں میں مسئلہ سامنے آنے سے ماحول اس ڈیل کے خلاف بن گیا،اور اب یہ سننے میں آ رہا ہے کہ عدالت نے اس ڈیل کو ماننے سے انکار کر دیا ہے،تحریک جعفریہ سے وابستہ احباب اور ان کے اہم ترین عہدیدار نا جانے کیوں اندھے بنے ہوئے ہیں اور قیادت کی ہر بات کو بنا سوچے سمجھے آگے چلا دیتے ہیں اور تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتے نہیں، اس ڈیل کی تردید میںیہ کہا گیا کہ تکفیری گروہ کے ساتھ بات چیت کرنا یا کسی بھی قسم کی ڈیل کرنا توہین سمجھتے ہیں ،تو اس حوالے سے یہ سوال آپ کے سامنے رکھتے ہیں کہ
)آیا یہ ڈیل فرقہ واریت کے شروع ہونے سے اب تک پہلی ڈیل ہے جسے جنگ اخبار کے بقول تحریک جعفریہ اور سپاہ صحابہ کی ڈیل کہا گیا جبکہ تحریک کے آفیشلز اسے مجلس وحدت مسلمین کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں ؟
)مجلس وحدت مسلمین تو اب کام کر رہی ہے ،جب تحریک جعفریہ قومی پلیٹ فارم کے طور پر سب کا متفقہ پلیٹ فارم تھا اس دور میں کتنی ڈیلز ہوئیں،کتنے لوگوں کو پھانسی کے پھندوں سے ڈیلز کے ذریعے بچایا گیا، ان کے حوالے سے تقاریر میں روایتی انداز میں یہ کہا جاتا رہا کہ ہم نے لوگوں کو پھانسی کے پھندوں سے بھی بچایا ،کیا اس وقت سپاہ صحابہ تکفیری نہیں ہوئی تھی کہ آپ ان کے ساتھ بیٹھنا یا بات چیت کرنا اپنی توہین قرار دے رہے ہیں؟ہم الحمد للہ اس بات کا ریکارڈ پیش کر سکتے ہیں کہ کہاں کہاں اس طرح کی ڈیلز کروائی گئیں،بلکہ اس حوالے سے یہ باتیں بھی زبان ذد عام و خواص رہی ہیں کہ ڈیل کروانے والے تحریک جعفریہ کے کئی رہنماؤں نے اپنی فنکاری سے اپنا حصہ بھی وصول کرنے میں عار محسوس نہیں کیا۔
)ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ اکرام الحق کے بدلے میں جس شیعہ نوجوان کی رہائی کی بات سامنے لائی گئی ہے وہ اپنی قید سے زیادہ قید بھگت چکا ہے جس کی جوانی جیل میں گذر گئی ہے،جو گرفتاری کے وقت نابالغ تھا جس کا فائدہ اسے نہیں دیا گیا،جن دونوں نوجوانوں کے ورثاء اس سے جھنگ سے لاہور ملاقات کیلئے آتے ہوئے ایکسیڈنٹ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے،جن کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا تھا،ان کے کیس کی اصل صورتحال سامنے لائی جائے تو بات بہت دور تلک چلی جائے گی اور تاریخ کے کئی خفیہ اور گرد پڑے اوراق کو جھڑنا پھونکنا پڑے گا،اس جھاڑ پھونک سے کئی نام نہاد قائدین کے چہروں کی ہوائیاں اڑ جائیں گی۔
خدا کرے کہ یہ دونوں جوان جنہوں نے بہت زیادہ تکالیف برداشت کی ہیں ہمارے درمیان آ جائیں،خدانخواستہ اگر ایسا نا ہو سکا تو اس کی تمام تر ذمہ داری قائد تحریک جعفریہ پر عائد ہوگی،اس لیئے کہ ان کا کیس نوے کی دہائی میں فیصل آباد میں قائم کی گئی دہشت گردی عدالت کے جج ۔۔۔بٹ نے سنا تھا،جس نے فیصلہ دینے سے پہلے ہمارے وکلاء کو یہ موقعہ دیا کہ اس کی ڈیمانڈ پوری کر دیں جو لگ بھگ آٹھ لاکھ تھی،اس مقصد کیلئے جج نے اپنا فیصلہ ایک دن م
وخر کیا مگر ہماری قیادت نے اس وقت کیس پر کام کرنے والوں کو یہ جواب دیکر مایوس کر دیا کہ ممکن ہے میرے پاس کسی مدرسہ بنانے کیلئے پیسے ہوں مگر اس مد ( کیسز لڑنے) کیلئے ایک روپیہ بھی نا ہو ،میں ایک مد کے پیسے دوسری مد میں نہیں لگا سکتا، بس یہ حکمت اور تدبر و دور اندیشی ان نوجوانوں کو کال کوٹھڑیوں تک لے گئی اور ان کے گھر والے جو ہر ہفتے جھنگ سے لاہور ملاقات کو آتے تھے کم از کم تین افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے،جج نے کم عمری کا جو ریلیف ساقی شاہ کا حق بنتا تھا غصے میں آکر وہ بھی نہیں دیا، اور پھانسی کی سزا کا فیصلہ سنا دیا،یہ المناک داستان ہے ، یہ ایک نقاب اٹھاتا پہلو ہے،اگر اس وقت کے قائدین نے صرف آٹھ لاکھ کا بندوبست کیا ہوتا تو ساقی شاہ اور لیاقت جعفری باہر ہوتے،ان کے ورثاء جو ایکسیڈنٹ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے وہ بھی یوں نا مرتے اور اس وقت سے لیکر آج تک اس کیس پر قوم کے جو کئی لاکھ روپے لگے ہیں وہ بھی بچ جاتے،بلکہ آج جس ڈیل کی خبر سے تحریک جعفریہ اور اس کے پیروان اپ سیٹ دکھائی دیتے ہیں ،وضاحتیں جاری کر رہے ہیں یہ سب کچھ بھی نا کرنا پڑتا۔
) یہ بات بھی باعث تعجب ہے کہ ایک اخبار جس نے اس ڈیل کی خبر چلائی ہے اس سے تردید شائع نہیں کروا سکے۔ یعنی 26سال کی قیادت اس اہل نہیں ہوئی کہ ایسا سیٹ اپ قائم کر لے کہ اگر کوئی ان کے نام سے غلط خبر شائع کر دے تو اسے تردید شائع کرنے پر مجبور ہونا پڑے،پھر کیسے پروپیگنڈے کے اس دور میں مکتب کی حفاظت کر سکتے ہیں؟اخبار اگر تردید شائع نہیں کرتا تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیتے اس ادارے کو جب عدالت کے دو چار چکر لگانے پڑتے تو خود ہی شائع ہو جاتی تردید۔
) ایک اور بات جو اس معاملے میں باعث تعجب ہے ،ساقی شاہ ،لیاقت جعفری اور الطاف شاہ آف شور کوٹ سے لا تعلقی کا اعلان کرنا ہے،وہ بھی ایسے جیسے یہ لوگ شیعہ ہی نہیں ہیں
اسیران و شہدا ء کی فیملیز کو تو آپ لوگوں نے پہلے ہی تنہا چھوڑ کر مایوس کر دیا تھا اب اپنے عہدیداروں سے بھی لا تعلقی کا اعلان کر کے آخر کہاں جانا چاہتے ہیں، مولانا فضل الرحمان کی اندھی محبت کے اسیران شائد اس کا جواب نہ دے سکیں کہ وہ اتنے کنفیوژ دکھائی دے رہے ہیں کہ آئے روز اپنا موقف تبدیل کر رہے ہیں،تنظیم کو اداروں کی بجائے ایک ہی شخصیت کے تابع فرمان بنانے کا یہ نقصان تو ہوتا ہے کہ وہ شخصیت اگر موقع پر نا ہو تو ایک ہی ایشو پر کئی ایک موقف سامنے آ جاتے ہیں۔ اس سب پرانا للہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔