ڈی آئی خان، ہائی الرٹ سکیورٹی میں دہشت گردی کا تسلسل
رپورٹ: آئی اے خان
پنجاب خیبر پختونخوا، بلوچستان اور قبائلی علاقہ جات کے سنگم پر آباد ڈیرہ اسماعیل خان میں حد سے تجاوز طالبانائزیشن، ٹارگٹ کلنگ، دہشتگردی کے پے در پے واقعات رونما ہونے کی وجہ سے صوبہ بھر میں سب سے زیادہ حساس گردانا جاتا ہے۔ پشاور اسکول حملے کے بعد ڈیرہ میں حساس عمارتوں کیساتھ سکولوں کو بھی دہشتگردوں کی جانب سے ددھمکیاں موصول ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے متمول گھرانوں کے والدین نے اپنے بچوں کی تعلیم اسلام آباد اور لاہور کے سکولوں میں کرا دی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں سرکاری سکولوں کی تعداد 1600 سے زائد اور پرائیوٹ کی 600 سے زائد ہے، جبکہ کالجز اور پرائیویٹ ٹیوشن اکیڈیمیز کی تعداد ایک سو کے قریب ہے۔ صوبائی حکومت نے مستقبل میں کسی بھی حادثے سے بچنے کیلئے تمام سکولوں کو آٹھ نکاتی حفاظتی ایجنڈا دیا ہے۔ جس پر عملدرآمد کی ذمہ داری محکمہ تعلیم کے افسران، پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے سپرد ہے۔ سرکاری سکولز اور پرائیویٹ سکولز کے سربراہان کیساتھ انتظامیہ، پولیس کی محکمہ تعلیم کے آفیسران کی موجودگی میں طویل میٹنگزبھی ہوئی ہیں۔ ان میٹنگز میں سکول سربراہان کی طرف سے فنڈز کی کمی کا بہانہ رونا رویا جا رہا ہے، جبکہ چند پرائیویٹ سکولز کے علاوہ بیشتر سکولز نے ان اقدامات پر سو فیصد عملدرآمد کرانے سے معذرت بھی کی ہے۔ محکمہ تعلیم نے عملدرآمد نہ کرانے پر چپ سادھ رکھی ہے۔
امسال محکمہ تعلیم نے موسم سرما کی چھٹیاں طے شدہ شیڈول کے برعکس 19 دسمبر سے 3 جنوری تک کرنیکا اعلان کیا تھا۔ تاہم پشاور کے سکول میں دہشتگردی کے واقعہ کے بعد سیکورٹی انتظامات کے تناظر میں 11 جنوری تک چھٹیوں میں توسیع کی گئی تھی۔ اس دوران حفاظتی انتظامات کے سلسلے میں جاری کئے گئے ایس او پیز پر عملدرآمد کیلئے سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو پابند کیا گیا تھا۔ کٹیگری اے کے مطابق تعلیمی اداروں میں سی سی ٹی وی کیمرے، چار دیواری کو بلندکرنا، خاردار تاریں لگانا، مورچہ بنانا، روشنی کے انتظامات، سکیورٹی گارڈز تعینات کرنا شامل ہیں اور جو ایس او پیز اس پر عملدرآمد نہیں کریگا، ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کی ہدایت جاری کی گئی تھی۔ حکومتی اعلان کے مطابق مورخہ 12جنوری کو سکولوں اور کالجز میں تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوئیں تو حکومت کی جانب سے کئے گئے سکیورٹی اقدامات اور آٹھ نکاتی ایجنڈا محض اعلانات کی حد تک محدود ثابت ہوئے۔ پہلے دن ہی متعدد سکولوں کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے۔ گورنمنٹ گرلز ہائیر سکینڈری نمبر ون سکول کے گرد مشکوک افراد کی نقل و حرکت نوٹ کی گئی، جس کی اطلاع فوری طور پر علاقہ مکینوں نے تھانہ سٹی کو کی۔ پولیس کی بروقت کاروائی کے نتیجے میں کالعدم سپاہ صحابہ سے منسلک چار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ جن سے نامعلوم مقام پر تفشیش جاری ہے۔
دوسری جانب ایک پرائیویٹ سکول میں دو مشتبہ افراد بھاری بیگ اٹھائے سکول میں داخل ہو گئے۔ سکول انتظامیہ کے رابطہ کرنے پر پولیس نے سکول کو گھیر ے میں لے کر ان افراد کو گرفتار کیا، تو ان کے بیگوں میں سے پرفیومز و باڈی سپرے کی بوتلیں اور کاسمیٹکس سے متعلق سامان برآمد ہوا۔ ان افراد سے متعلق عمومی رائے یہی ہے کہ یہ افراد سکول کی سکیورٹی جانچنے کیلئے سکول میں داخل ہوئے تھے۔ تھانہ سٹی کی حدود میں ہی واقع ایک اور سکول کے باہر نامعلوم افراد ایک بڑی گٹھڑی چھوڑ گئے ہیں، جس میں سے کفن برآمد ہوئے۔ سکول کھلنے کے بعد یکے بعد دیگرے ایسے واقعات سے جہاں والدین اپنے بچوں کی سکیورٹی کے حوالے سے نہایت پریشان ہیں، تو سکولوں کا سٹاف بھی سخت پریشانی میں مبتلا ہے۔ شہر کے پرائیویٹ سکولوں کے ہونے والے سروے میں بچوں کی حاضری کی شرح انتہائی کم سامنے آرہی ہے اور دوسری جانب بچوں کے سکول تبدیل کرنے کیلئے سکول چھوڑنے کے سرٹیفکیٹس کی درخواستوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
سکولوں کی سخت حفاظت کرنے کی دعویدار پولیس و ضلعی انتظامیہ شہر میں بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائم اور دہشتگردی پر قابو پانے میں بےبس محسوس ہورہی ہے۔ تھانہ سٹی کی حدود میں ہی واقع کئی گلیاں شام کے بعد ہی عوام کیلئے نوگو ایریا بن کر رہ گئی ہیں، جبکہ ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جو کچھ عرصہ بند رہا، دوبارہ سے جاری ہوگیا ہے۔ چند روز قبل سرکلر روڈ پر اہل تشیع سید زادے کو دن دہاڑے قتل کیا گیا، ایک دن کے وقفے سے ظفرآباد کالونی میں ایک پولیس کانسٹیبل کو نشانہ بنایا گیا۔ جس کے بعد ڈی پی او صادق حسین بلوچ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگرد پولیس اہلکاروں کی فیملیز کو نشانہ بناکر غلط پیغام دے رہے ہیں، ہم بھی دہشتگردوں کے خاندانوں کو برباد کرسکتے ہیں، مگر ہم قانون کے دائرے میں رہ کر کاروائی کرتے ہیں۔ دہشتگردوں نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کے اس پیغام کایہ جواب دیا کہ اگلے ہی دن اے ایس آئی قیصر جہاں کے گھر پر دہشتگردوں نے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں اے ایس قیصر جہاں اور اس کے دو بھائی انصر اور خرم اور ایک مزدور محمد رمضان موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ اے ایس آئی قیصر جہاں دہشتگردی کے کئی کیسز کی تفشیش بھی کررہے تھے۔
تھانہ سٹی کی حدود میں واقع جس گلی میں دہشتگردی کی یہ کاروائی سرانجام دی گئی، اس سے متصل گلی میں ہی چند روز قبل داعش کی وال چاکنگ بھی منظر عام پر آئی تھی۔ اے ایس آئی قیصر جہان آر آئی یو سیل میں انتہائی سخت افسر کے طور پر جانا
جاتا تھا، آر آئی یو ڈیرے کی تاریخ میں وہ ٹارچر سیل ثابت ہوا تھا کہ جہاں مجرم کے ساتھ جانیوالا بےگناہ بھی قتل و اقدام قتل کی دفعات کے کیسز کا طوق گلے میں لٹکائے باہر نکلتا تھا۔ اس ٹارچر سیل سے منسلک زیادہ تر اہلکاروں کی جائیدادوں میں اضافے کی داستان بھی طویل ہے۔ ایک ڈی ایس پی نے تین ماہ کے ریکارڈ وقت میں ڈھائی کروڑ مالیت کا بنگلہ تعمیر کیا تو دوسرے اے ایس آئی نے سوا کروڑ مالیت کا گھر تعمیر کیا۔ پینتیس سے چالیس ہزار تنخواہ لینے والے اہلکاروں کے پاس چند ماہ میں وسائل کہاں سے آئے، اس بارے پولیس کے اعلٰی افسران خاموش ہیں۔ ایک ریٹائرڈ پولیس آفیسر کے بقول ماضی کے دوست اگر دشمن بن جائیں تو حالات گھمبیر رخ اختیار کرلیتے ہیں۔ ڈیرہ سٹی میں ہونے والی دہشتگردی کی اس کاروائی کے اگلے روز تحصیل کلاچی میں گرہ مستان کے قریب پولیس موبائل کو راکٹ حملے میں نشانہ بنایا گیا، جس میں پولیس کے دو اہلکار شدید زخمی ہوگئے ہیں۔
دہشتگردی کی یکے بعد دیگرے ان کاروائیوں سے محض ایک دن قبل 21ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کی مخالف جمعیت علماء اسلام نے مسجد صدیق اکبر میں مدارس کے مہتممین اور علماء کی ایک اجلاس منعقد کیا تھا، جس میں دہشتگردی کے خلاف کئے گئے اقدامات اور قوانین میں تبدیلیوں کو یکسر مسترد کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ ڈی آئی خان جے یوآئی کا مضبوط گڑھ بھی سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام حالات و واقعات کے ساتھ ساتھ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کرسی بھی گذشتہ تیرہ دنوں سے خالی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردی کے کئی سانحات پہلے بھی رونما ہو چکے ہیں، ہائی الرٹ سکیورٹی کے دوران ٹارگٹ کلنگ اور دہشتگردی کے حالیہ سانحات اس امر کے متقاضی ہیں کہ صوبائی حکومت شہر کی حساسیت کے پیش نظر سکیورٹی کے حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کرے۔ شہر کے اندرونی و بیرونی راستوں پر چیک پوسٹوں کے فعال ہونے کا مطلب یہی ہے کہ دہشتگرد شہر سے باہر نہیں بلکہ شہر کے اندر ہیں جوکہ ہر شہری کیلئے باعث تشویش ہے۔
ضروری ہے کہ پولیس ہر قسم کے سیاسی دباؤ کو مسترد کرکے دہشتگردوں کے خلاف حقیقی معنوں میں کاروائی کرے۔ صوبائی وزارت داخلہ کو پولیس میں کرپٹ اور دہشتگرد دوست عناصر کے خلاف بھی آپریشن کلین اپ کرنا ہوگا۔ دہشتگردوں کے معاونین اور سہولت کاروں کی جائیداد ضبطگی کی سزا کو یقینی بنایا جائے۔ سکولوں کو دھمکی آمیز ٹیلیفون، مراسلے بھیجنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔ جے یو آئی جتنے تحفظات کا اظہار آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں پر کررہی ہے، اتنا ہی درد ڈی آئی خان کے موجودہ حالات پر بھی محسوس کرے، اور قیام امن کو یقینی بنانے کیلئے ضلعی انتظامیہ کے ہاتھ مضبوط کرے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جرم، بدامنی، دہشتگردی کی کسی تخریبی کاروائی میں لفظ نامعلوم پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ثابت ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہونے والی حالیہ کاروائیوں کے مجرموں اور پشت پناہ عناصر کو انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے۔