مضامین

سعودی عرب کس طرح شام اور عراق کے مناظر کو یمن میں اجراء کر رہا ہے ؟

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) یمن میں سعودی عرب والوں کی نقل و حرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے کس طرح اپنے تمام وسایل کو یکجا کیا ہے تا کہ اس ملک میں ،انصار اللہ کا مقابلہ کریں اور عراق اور شام کے حالات یمن میں پیدا کریں ۔

عالمی اردو خبررساں ادارہ نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق ، اس کے بعد کہ یمن کی سالہا سال کی خلوت کی زندگی میں یہ سعودی عرب تھا کہ جو اس ملک کی داخلی اور خارجی سیاست کو منظم کرتا تھا ،تا کہ یہ ملک یمن پر مسلط سیاسی حالات اور اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر اس کے تمام سیاسی فیصلے کرنے میں صاحب اختیار ہو ،چنانچہ اس نے ایک بار پھر اس ملک کو اپنی جنگوں کے میدان میں تبدیل کر دیا ہے ،تا کہ شاید اس طرح وہ ایک بار پھر اس ملک پر اپنے سیاسی تسلط کو قائم کر سکے ۔

مصر کی ایک خبری ویب سائٹ ، الوعی، نے یہ بات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس بار ریاض نے جس چیز کی جانب دھیان نہیں دیا ،وہ یمن میں اندرونی جنگ کا نمایاں ہونا تھا ، وہ جنگ کہ جس کے اصلی حریف حوثی ہوں گے کہ جو عدن کو آزاد کروا کے سعودیوں پر اور یمن کی سست اور بے کار حکومت پر کاری ضرب لگائیں گے ۔

القاعدہ کو یمن میں واپس لانا سعودی عرب کا انصارا للہ کا مقابلہ کرنے کا حربہ

الوعی نے لکھا کہ اس دوران سعودی عرب نے یمن کو کمزور کرنے کی تدبیریں اختیار کیں اور سب سے پہلے انہوں نے دہشت گرد گروہ القاعدہ کے یمنی نسل کے افراد کو افغانستان میں جہاد کے بعد یمن واپس بلایا اور انہیں اہم حکومتی ،عمومی اور فوجی عھدوں پر فائز کیا ،یہی وجہ ہے کہ فوج کے اکثر بڑے کمانڈر اور حکومتی اداروں کے رئوساء القاعدہ کے افراد تھے کہ جن میں سے اکثر افغانستان میں موجود تھے اور اعراب افغان کے نام سے مشہور تھے ۔

اس کے بعد یمن میں انتہا پسند اور تند رو عناصر کا دور شروع ہوا اور سعودی عرب ان کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور فتنہ انگیزی کر کے ان کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیا ۔

تیسرے مرحلے میں سعودیوں نے ،یمن میں ،تقسیم کرو اور حکومت کرو ، کی پالیسی اختیار کی ،اور اس سلسلے میں انہوں نے ایک طرف ، یمن میں سلامتی اور دفاع کے امور میں صدر کے مشیر ،سر تیپ علی محسن صالح الامیر ، اور سابقہ صدر علی عبد اللہ صالح کی حمایت کی اور دوسری جانب یمن کے موجودہ صدر کی مدد کی اور تینوں فریقوں کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکا دی ۔

یمن میں شام اور عراق جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش

سعودی عرب کی یہ ایک سب سے اہم سیاست ہے کہ وہ علاقے میں ثبات اور امن کا خواہاں نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ تین دہائیاں ہو چکی ہیں کہ اس نے علاقے کو داخلیی اور قبایلی جنگوں میں الجھا رکھا ہے اور لاکھوں افراد اب تک ان جنگوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔

اسی وجہ سے ریاض نے اس وقت اپنے تمام قبایلی ،اعتقادی اور اخباری وسایل کو کام میں لگا دیا ہے کہ وہی حالات یمن میں بھی پیدا کرے کہ جو اس نے شام اور عراق میں پیدا کیے ہیں ،اسی سیاست کا پیچھا کرتے ہوئے اس نے یمن میں سال ۲۰۱۴ میں میلاد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سے حوثیوں سے وابستہ جماعت انصار اللہ کی جانب سے صوبہء ،اب میں جو ایک عظیم الشان پروگرام منعقد کیا گیا تھا اس میں ایک دہشت گردانہ دھماکہ کروایا جس کے نتیجے میں ۳۷ افراد جاں بحق اور دسیوں افراد زخمی ہوئے ۔

یہ ایسی حالت میں ہوا کہ سال ۲۰۱۴ کو یمن میں امن و سلامتی کے حوالے سے بد ترین سال شمار کیا جانا چاہیے ،اس لیے کہ اس سال اس ملک میں متعدد دہشت گردانہ حملے ہوئے جن کے نتیجے میں فوجی اور غیر فوجی یمنی مارے گئے اور اس ملک کے نمایاں سیاسی افراد کو قتل کیا گیا ۔

دہشت گرد گروہ القاعدہ علاقے اور عرب ممالک میں سعودی عرب کے مقاصد کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہے ،اسی وجہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب کے مفادات جب بھی علاقے میں خطرے کی زد پر آتے ہیں تو وہ القاعدہ کی حمایت شروع کر دیتا ہے ۔

امور یمن کے ماہرین اس سلسلے میں تاکید کرتے ہیں کہ یمن کے مختلف علاقوں میں انصار اللہ پر القاعدہ کے حملوں ،اور شمال یمن میں تیل کی پائپ لائنوں میں دھماکوں اور اس ملک سے جنوب والوں کی جدائی طلبی کی درخوست ،کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ ہے ۔ اس طرح کہ جو ثبوت ہاتھ لگے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ریاض نے جنوبی یمن کے بہت سارے رہنما وں کو قانع کر لیا ہے کہ وہ ایک بار پھر جنوب یمن کی شمال یمن سے جدائی کا منصوبہ پیش کریں ۔

مالی اور مادی میدان میں حوثیوں نے جب یمن کے پایتخت ،صنعاء پر قبضہ کر لیا تو سعودیوں نے اس ملک کی تقسیم کے منصوبے کو اپنا اولین نصب العین بنا لیا ،یہ ایسی صورت میں ہے کہ موجودہ عیسوی سال کی ابتدا سے ہی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ سعودی عرب اس سلسلے میں خلیج فارس تعاون کونسل کے ملکوں کے ساتھ مشورے کر رہا ہے کہ جن کا مقصد جماعت انصارللہ اور یمن کے مخالف دیگر گروہوں کا مقابلہ کرنا اور اس طرح یمن کے صدر کو اقتدار سے ہٹانا ہے۔

یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس بات پر توجہ رکھنا چاہے کہ خلیج فارس تعاون کونسل کا یہ پہلا منصوبہ تھا کہ جس نے یمن کے لوگوں کے سال ۲۰۱۱ کے انقلاب کو ناکام بنایا اور اس ملک میں بنیاد ی تبدیلیوں کی راہ میں رکاوٹ ک
ھڑ ی کی کہ آخر کار اس ملک میں لوگوں کے اعتراضات اس حد تک پہنچ گئےکہ انصاراللہ نے یمن کے صدر کو اس ملک کی کابینہ کو منحل کرنے پر مجبور کردیا کہ شاید اس طرح یمن والوں کے غیظ و غضب مین کمی واقع کی جاسکے۔

اس بنا پر یہ بات جرات کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جس جنگ میں سعودیوں کو شکست ہوتی ہے وہ کوشش کرتے ہیں کہ قبایلی اور مذہبی جنگ کی آگ بھڑکا کر اس شکست و ناکامی کی تلافی کریں اور اس راہ میں وہ القاعدہ اور دوسرے تکفیری گروہوں سے اپنے مد مقابل میں رعب و وحشت پیدا کرنے کے لئےاور ایسی فتنہ کی آگ بھڑکانے کے لئےافرا تفری ایجاد کرتے ہیں کہ جو آگ خشک و تر کو ایک ساتھ جلا دے تا کہ وہ اکیلے عرب و اسلامی ممالک کی دادا گیری اپنے ہاتھ میں رکھ سکیں ۔

اہم ترین وجوہات کہ جن کی وجہ سے سعودی عرب والے یمن کے ساتھ ایسا برتاوکرنے پر مجبور ہوئے مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں ۔

یمن کی جغرافیائی پوزیشن کہ جس کا باب المندب کی آبی گذرگاہ پر قبضہ اور کنٹرول ہے کہ جس کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ اہم آبی گذرگاہوں میں ہوتا ہے حالانکہ اس بات پر بھی دھیان رکھنا چاہئے کہ باب المندب کی گذرگاہ پر جن ملکوں کا بھی کنٹرول ہے جیسے سمالیہ اور جیبوتی وہ بھی یمن کی طرح بد امنی اور سیاسی افراتفری کی صورت حال کا شکار ہیں۔

تیل کے ذرائع کہ جن پر علاقے کے تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی ہمیشہ نظر رہتی ہے اور وہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ ملک کےسیاسی جغرافیہ پر اثر ڈالیں قطع نظر اس سے کہ سعودی عرب والوں کی کوشش ہے کہ وہ علاقہ کے ملکوں کے سامنے یہ ظاہر کریں کہ جزیرہ عرب میں صرف ایک مرکز اور مقر ہے اور وہ سعودی عربیہ ہے ۔

یمن اور سعودی عرب کے جغرافیائی روابط اور ان ملکوں کے درمیان مشترکہ سرحد کی موجودگی اور یمن میں حو ثیوں کی طاقت میں اضافے اور ان کے کردار میں اضافے نے سعودیوںکو سخت وحشت زدہ کر دیا ہے خاص کر اس بات کو لے کر کہ سعودی والوں نے حوثیوں پر جمہوری اسلامی ایران کے ساتھ گہرے اور وسیع روابط رکھنے کا الزام لگایا ہے کہ جو روابط سعودیوں کے لئے بالکل خوشایند نہیں ہیں کہ جو تہران کو علاقہ میں اپنا سب سے بڑا رقیب مانتا ہے

اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ یمن کے میدان مں نئے تنازع کے آثار مکمل طور پر واضح اور آشکار ہیں کہ جس کے اصلی حریف ریاض اور صعدہ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ صعدہ یعنی حوثیوں کا کردار پہلے سے زیادہ ہوگا اور یہی چیز باعث بنتی ہے کہ بعض ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے شجاعت ہی نہیں بلکہ تہور سے کام لینا پڑے گا ۔

یہ کالم مصر کی ایک ویب سائٹ سے تشریح کیا گیا ہے، بشکریہ نوز نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button