مضامین

قنیطرہ پر اسرائیلی جارحیت کے اسباب و عوامل

تحریر: مہدی شکیبائی

18 جنوری، غزہ کی 22 روزہ جنگ کے اختتام کی سالگرہ کے موقع پر، اسرائیل کے چند جنگی ہیلی کاپٹرز نے گولان ہائٹس سے متصل شام کے علاقے قنیطرہ میں حزب اللہ لبنان کے چند کمانڈرز پر مشتمل ایک قافلے کو نشانہ بنایا، جس میں حزب اللہ لبنان کے پانچ کمانڈرز شہید ہوگئے۔ شہید ہونے والے کمانڈرز میں اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ میں حزب اللہ لبنان کے ماسٹر مائنڈ شہید جواد مغنیہ کے 26 سالہ بیٹے جہاد مغنیہ اور حزب اللہ کی ریپڈ فورس کے چیف کمانڈر محمد عیسٰی بھی شامل تھے۔ نہ تو شہید جواد مغنیہ کی یادگار شہید جہاد مغنیہ اور حزب اللہ لبنان کے دوسرے مجاہدین کی شہادت اور نہ ہی شام میں حزب اللہ لبنان کی موجودگی کوئی تعجب آور یا انوکھا واقعہ نہیں، کیونکہ حزب اللہ لبنان نے ملک کے اندر اور باہر، ملک دشمن عناصر سے مقابلے کو اپنی اسٹریٹجی کے طور پر اعلان کر رکھا ہے اور ہمیشہ اس پر عمل پیرا رہی ہے۔ حزب اللہ لبنان کی نظر میں اس وقت اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور شام میں موجود تکفیری دہشت گرد عناصر لبنان کے دشمنوں میں شمار ہوتے ہیں اور لبنانی عوام کی زندگی اور سلامتی کیلئے بڑا خطرہ تصور کئے جاتے ہیں۔
 
لہذا قنیطرہ میں انجام پانے والی اس صہیونی بربریت کے بارے میں جو اہم سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ کی جانب سے شائع ہونے والے تفصیلی انٹرویو، شام کے جنوب مغربی حصے میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے مکمل خاتمے اور اسرائیل میں وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی محبوبیت میں شدید کمی پر مبنی سروے رپورٹس کے منظر عام پر آنے کے چند روز بعد ہی انجام پانے والے اس اسرائیلی حملے کی اصلی وجوہات کیا ہیں؟
 
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے تازہ ترین تفصیلی انٹرویو میں حزب اللہ لبنان کی آئندہ پالیسیوں کی وضاحت کی اور کہا کہ ہماری آئندہ پالیسیاں اپنی سرزمین پر رہ کر دفاع کرنے کی بجائے جنگ کو دشمن کی سرزمین میں کھینچ لے جانے پر مبنی ہوں گی۔ لہذا انہوں نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ اگر اس نے دوبارہ لبنان کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام انجام دیا تو حزب اللہ لبنان صرف ملک کی حدود تک ہی محصور نہیں رہے گی بلکہ وہ مقبوضہ فلسطین کے اندر اور الجلیل کے علاقے سے بھی آگے تک گھس کر دشمن کا مقابلہ کرے گی۔ اسی طرح سید حسن نصراللہ نے شام میں موجود تکفیری دہشت گرد عناصر سے مقابلے اور انہیں لبنانی سرحدوں سے دور رکھنے پر بھی تاکید کی۔

انہوں نے کہا کہ حزب اللہ لبنان نے حتمی فیصلہ کر رکھا ہے کہ لبنان کے خلاف دہشت گردی کے خطرات کو ہر قیمت پر ملکی سرحدوں سے دور رکھے اور اگر ہم اس مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تکفیری دہشت گرد عناصر کا حامی ہونے کے ناطے اسرائیل کو ایک نئی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ لہذا اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اس کوشش میں مصروف ہے کہ سید حسن نصراللہ کی جانب سے بیان کردہ مقاصد کو جامہ عمل پہننے سے روکے۔ حزب اللہ لبنان کی پالیسی بھی یہ ہے کہ اسرائیل نے جو دہشت گردی شام اور دوسرے مسلم ممالک میں شروع کر رکھی ہے، اسے اس کی قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔
 
سید حسن نصراللہ کی بیان کردہ اسٹریٹجی کا واضح مطلب مستقبل قریب میں اسرائیل کی جعلی حدود کے اندر صہیونی رژیم کیلئے خطرات کا جنم لینا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت جب حزب اللہ لبنان شام میں شہری جنگ اور دو بدو لڑائی کے کامیاب تجربات کے بعد جغرافیائی اعتبار سے محدود جنگی کارروائیوں میں خاص مہارت حاصل کرچکی ہے اور مقبوضہ فلسطین کے اندر تشویشناک سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان کے دعوے کے حقیقت میں تبدیل ہونے کا امکان مزید بڑھ گیا ہے۔
 
دوسرا اہم نکتہ شام کے جنوب مغربی علاقوں خاص طور پر قنیطرہ کے علاقے میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی روز بروز کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن ہے، جس نے تل ابیب کو شدید پریشانی کا شکار کر رکھا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب شام آرمی کی بکتر بند ڈویژن نمبر 90 نے صوبہ قنیطرہ کے علاقے میں ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا اور تکفیری دہشت گردوں کے خلاف تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے علاقے کے بڑے حصے خاص طور پر "سرخ پہاڑیاں” نامی اسٹریٹجک پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تو اسرائیل نے شام آرمی پر ہوائی حملے شروع کر دیئے اور رسمی طور پر شام کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ یاد رہے کہ گذشتہ ایک سال سے تکفیری دہشت گردوں کے 30 گروہ جو 5 کمانڈ سینٹرز سے کنٹرول کئے جا رہے تھے، نے قنیطرہ کے انتہائی حساس اور اسٹریٹجک علاقے پر قبضہ کرنے کیلئے بڑے حملوں کا آغاز کر دیا تھا۔
 
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قنیطرہ کا علاقہ اس قدر اسٹریٹجک اہمیت کا حامل کیوں ہے؟ قنیطرہ کا علاقہ جغرافیائی طور پر گولان ہائٹس اور مقبوضہ فلسطین سے انتہائی قریب واقع ہے۔ اسی طرح یہ علاقہ ایک طرف تو "درعا” کے نزدیک واقع ہونے کے سبب اردن کی سرحد سے ملتا ہے اور دوسری طرف لبنان کی سرحد سے بھی متصل ہے۔ قنیطرہ کا علاقہ مقبوضہ فلسطین کے علاقے "الجلیل” سے بھی قریب ہے اور سید حسن نصراللہ کی جانب سے حال ہی میں اسرائیل کو یہ وارننگ دینے کے بعد کہ اگلی جنگ شروع ہونے کی صورت میں اسے الجلیل اور اس سے آگے تک پھیلا دیا جائے گا، قنیطرہ میں حزب اللہ لبنان کی موجودگی صہیونی رژیم کیلئے انتہائی واضح پیغام لئے ہوئے ہے۔ دوسری طرف قنیطرہ کا علاقہ مغربی الغوطہ سے بھی متصل
ہے جو دمشق کا جنوبی دروازہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں سے تکفیری دہشت گرد گروہ اور ان کی سرپرست صہیونی رژیم شام کے دارالحکومت دمشق پر قبضے کے خواب دیکھ رہی ہے اور اس مقصد کیلئے اردن یا مقبوضہ فلسطین سے غوطہ الغربی تک دہشت گردوں کیلئے سپلائی لائن مہیا کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔
 
اس قدر اسٹریٹجک اہمیت کا حامل علاقہ گذشتہ چند ہفتوں سے شام آرمی اور حزب اللہ لبنان کے جنگجووں کی جانب سے بڑے آپریشن کا مرکز بنا ہوا ہے اور اس علاقے کا بڑا حصہ خاص طور پر اسٹریٹجک پہاڑیاں تکفیری دہشت گرد عناصر سے آزاد کروا لی گئی ہیں۔ قنیطرہ کا علاقہ ایک طرف مقبوضہ فلسطین اور دوسری طرف اردن کے ساتھ متصل ہونے کے ناطے تکفیری دہشت گرد عناصر کیلئے شام کا محفوظ ترین حصہ تصور کیا جاتا تھا کیونکہ اسرائیل اور اردن دونوں طرف سے تکفیری دہشت گردوں کو لاجسٹک سپورٹ اور ہر قسم کی مدد فراہم کی جاتی تھی۔ یہ مدد اسلحہ، فوجی سازوسامان، انٹیلی جنس معلومات اور لاجسٹک سپورٹ پر مشتمل تھی۔ اس کے علاوہ، قنیطرہ کا علاقہ صہیونی رژیم اور تکفیری دہشت گرد عناصر کی جانب سے جنوبی لبنان کے اندر گھس کر اہم مواقع پر دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے پر مشتمل مشترکہ سازشوں میں بھی مرکزی حیثیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ جنوبی لبنان کا علاقہ حزب اللہ لبنان کا مرکزی گڑھ تصور کیا جاتا ہے، لہذا اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور تکفیری دہشت گرد عناصر کا مشترکہ ٹارگٹ بھی یہی علاقہ قرار پایا ہے۔ درحقیقت حزب اللہ لبنان ان دنوں شام میں نہ فقط عالمی دہشت گردی کے مقابلے میں دمشق کی مدد کر رہی ہے بلکہ لبنان کو درپیش ممکنہ خطرات سے بھی لڑ رہی ہے۔
 
قنیطرہ میں حزب اللہ لبنان کے جنگجووں پر صہیونی حملہ کی تیسری بڑی وجہ اسرائیل کے اندرونی سیاسی حالات ہیں۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک سروے رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی محبوبیت میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ جنوبی اسرائیل میں اسرائیل آرمی کے چیف کمانڈر اور "ہم سب” سیاسی جماعت کا سربراہ یو ایف گیلنٹ اس بارے میں کہتا ہے کہ اپنی گرتی ہوئی محبوبیت کو روکنے کیلئے اسرائیلی وزیراعظم کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جنہیں وہ حزب اللہ لبنان کے خلاف اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرسکیں۔ لیکن ان کی نظر میں بنجمن نیتن یاہو کو اس قسم کے اقدامات سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ ماضی کے تجربات بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ایسے اقدامات اسرائیلی مفادات کے حق میں نہیں۔
 
بہرحال، 2015ء میں مغرب کی جانب سے شام کی موجودہ حکومت کے ساتھ نہ چاہتے ہوئے تعلقات کی بحالی، جس کا واضح ثبوت خطے میں مغرب نواز ممالک کی جانب سے شام کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے، اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسرائیل اس خطرے کے مقابلے میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکا ہے اور تکفیری دہشت گرد عناصر کی مدد کیلئے تمام تر بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رسمی طور پر شام کی حدود میں ریاستی دہشت گردی پر اتر آیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی حالیہ گستاخی کو بلاجواب نہیں چھوڑا جائے گا اور اس کا ایسا منہ توڑ جواب دیا جائے گا جس کی شدت اور وسعت کا اسرائیلی حکام نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ اسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شام میں جاری بدامنی آخرکار اسرائیل کی سرحدوں کے اندر تک منتقل ہوجائے گی۔ لہذا تکفیری ۔ صہیونی محاذ نے سیکرٹری جنرل حزب اللہ لبنان سید حسن نصراللہ کی وارننگ کو حقیقت کا رنگ اختیار کرنے سے روکنے کیلئے شام کے ہمسایہ ملک لبنان میں ایک نیا بحران پیدا کرنے کی سازش کر رکھی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button