کیا مڈل ایسٹ میں داعش کی جنگ شیعہ و سنّی کے درمیان ہے؟
تحریر: ایلیا ج مغنایر
عراق کے معروف صحافی ایلیا ج مغنایر نے عربی میں ایک زبردست آرٹیکل لکھا ہے، جس میں انھوں نے مڈل ایسٹ میں داعش کی جنگ کے بارے میں اہم حقائق اور اس حوالے سے پیدا ہونے والے سوالات کو اٹھا کر تجزیہ کیا ہے، اسی طرح انہوں نے داعش کی جنگ کو بے نقاب کیا ہے۔ مغنایر نے اپنے تیکھے اور تند و تیز سوالات سے تکفیری دہشت گردوں کی قلعی کھولی ہے، جو کہ اپنی لڑائی کو ایک طرف تو دفاع اہل سنت اور غلبہ دین حق کی جنگ قرار دیتے ہیں، دوم یہ کہ وہ اس لڑائی کو شیعہ۔ سنّی لڑائی قرار دیکر اہلسنت کی ہمدردیاں بٹور رہی ہے۔ ایلیا ج مغنایر نے واضح کیا ہے کہ وہابی داعش جیسی تںطیموں نے کس طرح سے خود سنّیوں کی جان و مال اور عزت آبرو کو برباد کیا۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ کیسے انکی باہمی پاور کی جنگ میں خود انکی اپنی آئيڈیالوجی کے حامل ہر دو اطراف کے لوگ نشانہ بنے ہیں اور آخر میں ایلیا ج مغنایر نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ دراصل پاور کی جنگ کے سوا کچھ بھی نہیں۔ عراقی سنی صحافی کی یہ نظر مڈل ایسٹ اور جنوبی ایشیا کے بارے میں ہماری ویب سائٹ اسلام ٹائمز کے نکتہ نظر کی بھی تائید کرتی ہے۔ لہذا ہم اپنے قارئین کے لئے اس آرٹیکل کا اردو ترجمہ و تلخیص پیش کر رہے ہیں۔
کیا مڈل ایسٹ میں موجودہ جنگ شیعہ و سنّی کے درمیان ہے۔؟
کیا اس جنگ کا مقصد اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا اور اہل سنت والجماعت کا دفاع ہے؟۔۔۔۔۔۔۔ اداریہ
عربی متن کا ترجمہ و تلخیص
عملی صحافت کے دوران آپ تقریباً تمام ہی افراد اور گروہوں سے ملتے ہونگے، جن میں سے ملک شام میں جبھۃ النصرۃ و القاعدہ اور اسی طرح سے عراق میں دولت اسلامیہ کے لوگ بھی شامل ہیں۔ دولت اسلامیہ یعنی داعش اس بات سے انکار کرتی ہے کہ اس کا تصور جنگ اہل سنت والجماعت کے تصور جنگ کی ضد ہے، بلکہ اس کا اصرار ہے کہ وہ اسلام کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہے اور یہ کہ وہ اس راستے پر گامزن ہے جو احیائے شریعت کا سبب بنے گا اور وہ اس بات کی قائل ہے کہ ‘‘کسی بھی مسلمان کے لئے دوسرے مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں ہے، ویسے ہی جیسے اس کا مال اور اس کی زمین پر قبضہ حرام ہے” اور اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی جنگ کفر، طغیانی، سرکشی اور مڈل ایسٹ میں امریکی غلبے اور بربریت کے خلاف ہے۔
لیکن اگر داعش کی جنگ کفر و طغیانی، سرکشی، امریکی بربریت اور ظلم کے خلاف ہے اور اس کی جنگ اہل سنت والجماعت کے دفاع کے لئے ہے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے البونمر قبیلے کے 500 افراد کو کیوں قتل کیا، جس میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں؟ اسکے جواب میں داعش کہتی ہے کہ یہ وہ حارب سنّی تھے جو امریکیوں کی تابعداری کر رہے تھے، جن کو ہم نے عراق سے نکالا اور وہ داعش سے لڑ رہے تھے اور رافضہ (اس سے مراد عراق کے شیعہ حکام ہیں، جن میں وزیر دفاع سمیت متعدد سنّی بھی شامل ہیں) کی مدد کر رہے تھے، تو ان کی مثال بروشیہ کے سنّیوں کی ہے جو کہ البونمر قبیلے کی طرح تھے جو کہ عراق کے صوبے انبار میں رہتے ہیں۔ داعش کے ہاتھوں مارے جانے والے سنّي البونمر قبیلے کے لوگوں کو جس اجتماعی قبر میں پھینکا گیا، اس میں عورتوں اور بچوں کی لاشیں بھی ملی ہیں۔ داعش کے حامی کہتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کے لئے سبق ہے جو داعش سے عدوات کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ البونمر قبائل کے ساتھ یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہوا کہ وہ عراق کا سب سے قدیم اور قابل عزت سنّی قبیلہ ہے اور انکی املاک، اناج اور ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ بکریوں کو بھی مال غنمیت سمجھ کر لوٹ لیا گيا۔
کرد پیشمرگہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اور ایزدیوں کی عورتوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کے بارے میں کیا کہا جائے؟ انکا جواب ہے کہ کرد سنّی ملحد ہیں اور امریکی ایجنٹ۔ یوں ان کا قتل جائز ہے اور ایزدی عورتوں کو اپنے قبضے میں لینا اس لئے جائز ہے کہ وہ اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور اللہ نے مشرک عورتوں کو حلال قرار دیا تھا، تو کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں حلال تھا وہ ہمارے زمانے کے لئے حلال نہیں ہوگا؟ اور جب ان سے پوچھا جائے کہ شام میں دیرالزور میں انھوں نے شطایت قبیلہ کے ساتھ جو کیا، جو کہ بہت معروف سنّی قبیلہ تھا، وہ کیوں کیا؟ تو جواب یہ آتا ہے کہ اس قبیلے نے داعش کے ساتھ مقاتلہ کیا، تو ہم نے ان کی اکثریت کو قتل کر دیا کیونکہ انھوں نے خلیفہ اور اسکے لشکر کے حکم سے سرپیچی کی تھی، جبکہ ان میں سے سینکڑوں قتل کر دیئے گئے اور بہت بڑی تعداد شام کے دوسرے علاقوں کی طرف فرار ہوگئے کیونکہ انھوں نے دولت اسلامیہ کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی کوشش کی تھی۔
جبھۃ الاسلامیہ جو کہ شام میں سرگرم ہے، کے بارے میں جب پوچھا جاتا ہے، جو کہ داعش کی فکر کے بانی محمد بن عبدالوہاب کے علاوہ شیخ تقی الدین احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ کی سنت پر عمل پیرا ہے، جسے داعش حدیث میں اپنا مرجع اور امام مانتی ہے تو داعش کے حامی کہتے ہیں، جبھۃ الاسلامیہ (النصرۃ) سعودی عرب کی سیاست کی پیروی کرتی ہے جبکہ ہم نے سعودی حکام اور ان کے دوستوں، حامیوں اور ہمدردوں کے خلاف دشمنی کا اعلان کیا ہے، لہذا شام میں جبھۃ الاسلامیہ سے جنگ واجب ہے اور انکے بارے میں فیصلہ یہ ہے کہ یہ لوگ زمین میں فسادی ہیں جبکہ داعش کے ہم خیال لوگ کہتے ہیں کہ حقیقی اسلام کے پیرو وہ ہیں، جو دولت اسلامیہ کے جھنڈے تلے لڑ رہے ہیں۔
جبھۃ النصرۃ، جو ان جنگجووں کا مجموعہ تھی، جن کو ابوبکر البغدادی نے شام میں 2012ء میں بہار شام شروع ہونے کے دوران بھیجا تھا اور انکو یہ یقین تھا کہ یہ انقلابی، شام کے اندر ایک قائد پر متفق نہیں ہوں گے، یوں وہ بقلم خود قیادت پر قبضہ کرلیں گے۔ اسی سے جبھۃ النصرۃ بنا اور اس نے شام کے اندر امارت قائم کی اور جب النصرۃ فتح یاب ہوگئی تو جبھۃ کے بعض قائدین کی موت پر ابو محمد جولانی اسکے امیر بن گئے تو اس نے خود ایمن الظواہری کی امارت قبول کرلی اور اسکی اطاعت کا اعلان کر دیا۔ اسی وجہ سے یہ جبھۃ النصرۃ کہلائی، حقیقت یہ ہے کہ جبھۃ النصرۃ شام میں القاعدہ ہی کی ایک شاخ ہے، جبکہ دولۃ الاسلامیہ بھی شروع میں القاعدہ ہی تھی۔ ان دونوں نے وہی اہل سنت والجماعت کا جھنڈا اٹھا رکھا ہے، لیکن اس کے باوجود دونوں کے درمیان خونریزی اور لڑائی ہو رہی ہے، جس کی خاص وجہ اقتدار اور غلبہ کی جنگ ہے۔
داعش کا ایک موقف یہ بھی ہے کہ دین اور اقتدار ملتے نہیں ہیں جبکہ لیبیا جہاں کوئی شیعہ نہیں تھا، لیکن وہاں بھی جنگ کی گئی اور یہ سب اقتدار اور تسلط کے لئے کیا گيا۔ مصر میں بھی متشدد اسلامین اور حکام کی لڑائی ہوئی، جو کہ اقتدار کی لڑائی ہے۔ اسی طرح سے فلسطین میں حماس اور اسلامی جہاد ہے تو دولت اسلامیہ کا موقف یہ ہے کہ حماس اور جہاد اسلامی، یہ دونوں روافض سے مال لیتے ہیں جبکہ داعش غرب زدہ مسلمانوں کا خون حلال سمجھتی ہے۔ داعش کا یہ بھی خیال ہے کہ جن ملکوں کے حکمران مغرب کے غلام بنے ہوئے ہیں، وہاں کے لوگوں کو وہاں سے ہجرت کرکے شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کے ساتھ ملکر جہاد کرنا چاہئے۔
لبنان کے بارے میں داعش کہتی ہے کہ اسکی جنگ حزب الشیطان (حزب اللہ) سے اور نصاریٰ یعنی لبنانی مسیحیوں سے، جو کہ لبنانی فوج میں شامل ہیں، جبکہ ان کو علم ہے کہ لبنان کا وزیراعظم اور وزیر داخلہ سنّی ہيں اور انھوں نے 2 اگست کو جس پہلے فوجی افسر، نور جمال کو قتل کیا، وہ بھی سنّی تھا۔ یہ کہاں سے سنّی۔ شیعہ جنگ ہے؟ کہيں یہ اہل سنت والجماعت کے بالکل الٹ جنگ تو نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب وہ نہیں دے سکتے جو اہل سنت سے انتقام لیتے ہیں، انکی جان، مال اور آبرو کو اپنے لئے حلال سمجھتے ہیں۔ یہ جنگ صرف اور صرف اقتدار کی جنگ ہے، اسے خلافت کی جنگ کہنا ٹھیک نہیں ہے۔