سانحہ شکارپورکا مختصر احوال – از کمانگر
جمعے کا دن ہے سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں تیار ہورہے ہیں غسل کر رہے ہیں اچھا لباس زیبِ تن کیا ہے اور خوشبو لگائی ہے کہ خالق کے گھر جا رہے ہیں تھوڑا بن سنور کر جائیں ان کے کانوں پر ندا پڑتی ہے کوئی بلانے والے انہیں پکار کر کہہ رہا ہے ‘‘حیٰ علی الفلاح’’ آئو کامیابی کی طرف یہ لبیک کہتے ہوئے اپنے گھروں کو چھوڑکر خدا کے گھر کی طرف نکلنے کا قصد کرتے ہیں تو کہیں کسی کی ماں اس کو کہتی ہے‘‘ بیٹا واپس وقت پر آنا کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا’’ کسی کی اہلیہ نے کہا ‘‘سنئے واپسی پر بیٹی کے سکول کیلئے بستہ ضرور لیکر آئیے گا یہ پرانہ ہوگیا ہے اس کی مس روز اسے ڈانٹ رہی ہے’’ کسی بہن نے بھائی کو جاتے ہوئے دل ہی دل میں کہا ‘‘میرا سوہنا بھائی تیار ہو کر کتنا خوبصورت لگتا ہے ماشاٗ اللہ’’
غرض کہ ہر کوئی اپنے اپنے گھر ہیرو ہے بالآخر سب خدا کے گھر پہنچتے ہیں روزِ جمعہ ایک دوسرے کو سلام یا علی مدد کہتے ملتے ہیں مولانا تنویر نقوی صاحب کا خطبہ سنتے ہیں ان کی اقتدا میں نمازِ جمعہ ادا کرتے ہیں اور سلام کے بعد صلوٰت کا ورد کرتے ہوئے ایک دوسرے سے مصاحفہ کرتے ہیں جمعہ کے بعد نمازِ عصر ادا کی مولانا تنویر نقوی صاحب حسبِ معمول مختصر مجلس پڑہنے لگے ہیں بات جیسے ہی مصائبِ شہیدانِ کربلا تک پہنچی سب نے ادب سے ٹوپیاں اتارنا شروع کیں اور ایک زوردار دھماکہ ہوگیا ٹوپیاں کجا یہاں بہت سوں کے سر اتر چکے ، مسجد کی زمین اور دیواریں انسانی اعضا اور خون سے بھر گئیں ، بکھری ہوئی خاموش لاشیں ہیں تو زخمیوں کی چیخیں! شکارپور میں کہرام مچ گیا ہر طرف یا حسینؑ یا حسینؑ کی صدائیں ہیں
بات گھروں میں جا پہنچتی ہے ایک ماں سنتی ہے کہ اس کا بیٹا شہید ہوگیا قربان ہوا مولا حسینؑ پر لیکن جدائی کا غم بھی تو ہے ماں کی عمر غم برداشت کرنے جیسی نہ تھی روح پرواز کر گئی ، ایک گھر میں لڑکا بھاگتا ہوا آیا کہتا ہے بھائی شہید ہوگئے یہ آواز بہن کے کانوں پر پڑتی ہے صدمے سے دم نکل جاتا ہے ، بوڑہے باپ نے سنا کہ اس کے بڑہاپے کا سہارا ظالوں چھین لیا تو اللہ و اکبر کی صدا بلند کی اور اکبر اللہ نے اسے بھی اپنے پاس بلا لیا ،ان سب نے ایک ایسے شہر میں زندگی گذاری ہے جہاں بہت ہی کم ایسے لوگ ہونگے جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے کسی کو گولی لگتے ہوئے دیکھا ہو، یہاں کوئی قتل ہوجاتا ہے تو پورے شہر میں حراس پھیل جاتا ہے چھوٹی سی چھوٹی بات شہر بھر کو پریشان کر دیتی ہے ایسے میں شہر کے بیچوں بیچ ایک ایسا بڑا سانحہ جس میں ان کے اپنوں کے اعضا جدا جدا ہوں لاشیں پہچانی نہ جا رہی ہوں یہاں کے لوگوں نے کس طرح دیکھا اور برداشت کیا ہے یہ بیان کرنے سے باہر ہے
آج اس واقعے کا تیسرا دن تھا لیکن سڑکیں اور گلیاں سنسان لگی ہوئی تھیں بس ایک راستہ جو امام بارگاہ کو جاتا ہے وہاں بڑے بڑے لوگوں کا آنا جانا لگا رہا جو سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور شاید کچھ دن مزید جاری رہے گا لیکن کوئی کتنا ہی بڑا آدمی آجائے اتنا بڑا نہیں ہوگا کہ ایک ماں کو اس کا بیٹا ایک بہن کو اس کا بھائی ایک بیٹی کو اس کا باپ واپس کردے ، تسلی دینے والے آتے رہیں گے اپنے ساتھ ایک عدد کیمرا مین لیکر لیکن یہ دیکھ رہے ہیں کہ کوئی ایسا تسلی دینے والا آئے جو انہیں کم از کم یہ بتائے کہ آپ کے اپنوں کے قاتل پکڑے گئے ہیں ان کا حساب لیا جائیگا ، آپ پریشان نہ ہوں اب اس شہر میں مزید کوئی شہادت نہیں ہوگی ہم مکمل بندوبست کر رہے ہیں ، آپ کو آپ کا شکارپور واپس امن کا گہوارہ بنا کر دیا جائیگا وغیرہ وغیرہ
لیکن ڈر لگتا ہے ان کو بتاتے ہوئے بھی کہ ابھی تک واقعے کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی ، ابھی تک کوئی سرجوڑ کر آگے کی حکمتِ عملی بنانے نہیں بیٹھا جس ہسپتال کے محکمہ کی غفلت کی وجہ سے شہادتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اس ہسپتال کا عملہ ابھی تک جوں کہ توں ملازمت کر رہا ہے، جس تھانے کے ایس ایچ او کو معطل کرنے کی خبریں میڈیا پر چلوائی گئی ہیں وہ ایس ایچ او ویسے ہی موٹر سائیکلوں پر پولیس والے لیکر شہر میں گشت کر رہا ہے
ا
س واقعے پر آگے چل کر کیا ہوتا ہے کچھ پتا نہیں لیکن امید اچھے کی کرنی چاہئے کیونکہ حکومت نے فی شہید بیس لاکھ روپیہ کا اعلان کرکے یہ عندیہ دیدیا ہے کہ خون ابھی سستا نہیں ہوا البتہ ہمارے شہدا کا ہم سے جو تقاضہ ہے اسے بھی سمجھنا ضروری ہے۔ ایک بات واضح ہے کہ سندھ میں وزیر اعلی قائم علی شاہ کی حکومت نے قسم کھا رکھی ہے کہ کالعدم دیوبندی تکفیری دہشت گرد تنظیم کے سرغنہ اورنگزیب فاروقی کو کھلی چھٹی دیے رکھنی ہے کہ وہ معصوم شیعہ، سنی بریلوی اور ہندو برادری کا قتل عام کرتا رہے یہی حال پاک فوج کے رینجرز کا ہے جن کو اوپر سے احکامات ہیں کہ دہشت گرد فاروقی کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی جائے
خدا لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے شہادتوں کے غم میں بھی اور ریاست اور لوگوں کے رویوں پر بھی