مضامین

مسئلہ کشمیر پر رہبر انقلاب کا بیان جرتمندانہ اور حق پرستی پر مبنی ہے

ایران کے رہبرِ انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے تنازع کشمیر پر ایسا جرأت مندانہ اور حق پرستی کا مظہر بیان دیا ہے کہ پاکستان میں صدر اور وزیراعظم سمیت حکومت کے کسی ذمہ دار کو توفیق نہیں ہوئی۔ انہوں نے حجاج کرام کے نام ایک پیغام میں کہا ہے اُمت مسلمہ کو درپیش سلگتے ہوئے مسائل میں فلسطین،عراق،افغانستان اور کشمیر سرفہرست ہیں۔آیت اللہ خامنہ ای کے مطابق ان چاروں مقامات پر اُمت مسلمہ کے لوگ بیرونی قبضے اور صہیونی طاقتوں کے خلاف آزادی اور مزاحمت کی جدوجہد بپا کئے ہوئے ہیں،ان کی مدد کرنا تمام مسلمان اقوام کا فریضہ ہے۔حج کے مقدس دن ایرانی قوم کے سب سے بڑے رہنما اس فریضے کی جانب تمام مسلمانوں کی توجہ مبذول کرا کے وقت کی بہت بڑی ذمہ داری سے سبکدوش ہوئے ہیں۔موصوف نے کشمیر پر بھارت کے جارحانہ قبضے کو ارضِ فلسطین پر صہیونی قوتوں کے قبضے کے مساوی قرار دے کر اور عراق و افغانستان پر امریکی فوجی جارحیت کو وادیٔ کشمیر میں بھارتی سپاہ کی مجرمانہ کارروائیوں کے ہم پلہ ٹھہرا کر اعلیٰ عالمی شعور کا مظاہرہ اور بہترین رہنمائی کا حق ادا کیا ہے۔

بھارت اسی وجہ سے ایران کے خلاف سیخ پا ہوا ہے،اس نے فوراً اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کشمیر کے بہادر اور آزادی پسند عوام نے ہر طرح کے نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جہدِ مسلسل کے ذریعے دنیا بھر پر ثابت کر دیا ہے انہیں غلام بنا کر نہیں رکھا جا سکتا،وہ بھارتی پنجہ استبداد سے نجات اور آزادی کی منزل حاصل کر کے دم لیں گے۔گذشتہ روز عوامی جمہوریہ چین کے وزیر خارجہ نے بھی اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں زور دیا ہے کہ بھارت اس تنازع پر پاکستان کے ساتھ بامقصد مذاکرات کرے۔یوں کشمیر ایک جانب دنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش اہم تنازع بن گیا ہے،دوسری جانب بہت بڑا انسانی مسئلہ ہے،تیسری طرف ہمارے خطے میں جس کے اندر پاکستان،بھارت اور چین شامل ہیں پائیدار امن کے قیام کی جانب بہت بڑی رکاوٹ ہے۔یہ منصفانہ بنیادوں پر اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہوتا ہے تو پوری دنیا امن و استحکام کی منزل کی جانب اہم قدم اٹھائے گی۔
یہاں اہم تر سوال یہ ہے اس موقع پر جبکہ اہل کشمیر کی جدوجہد آزادی اہم موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے، پاکستان کی حکومت جس کا کردار فیصلہ کن ہونا چاہیے کیوں خواب غفلت میں مبتلا ہے۔ہمارے حکمران تو اس ضمن میں زبانی جمع خرچ میں بھی کفایت سے کام لے رہے ہیں۔مبادا نازک آبگینوں کو ٹھیس پہنچ جائے اور امریکہ ناراض ہو جائے کیونکہ اسے بھارت کی خوشنودی منظورِ خاطر ہے وہ اس کے مفادات پر آنچ نہیں آنے دیتا،لہٰذا کشمیر پر اس کے غیر قانونی اور ناجائز قبضے کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر رہا ہے۔دو ہفتے پہلے صدر اوباما بھارت کے دورے پر گئے تو کشمیر کا نام زبان پر لانے سے گریز کیا حالانکہ ان کے دورے کے تینوں ایام کے دوران مقبوضہ وادی میں مکمل احتجاجی ہڑتال تھی۔ من موہن سنگھ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں جب ان سے سوال کیا گیا تو یہ کہہ کر ٹال گئے کہ جب تک بھارت اور پاکستان دونوں آمادہ نہیں ہوتے امریکہ اپنا کردار ادا نہیں کرے گا۔

حقیقت یہ ہے مسئلہ فلسطین اس لئے حل نہیں ہو رہا کہ امریکہ صہیونی حکومت کو کسی قابلِ عمل اور پائیدار حل پر مجبور کرنے کے لئے معمولی درجے کا سفارتی اقدام کرنے کیلئے تیار نہیں،اسی طرح کشمیر کا تنازع بھی قیامِ امن کی راہ میں اس لئے رکاوٹ بنا ہوا ہے کہ واحد سپر طاقت کے وقتی اور تنگ نظری پر مبنی مفادات بھارتی جارحیت کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے ہوئے ہیں جبکہ عراق اور افغانستان کے تنازعے بجائے خود ان ممالک پر براہِ راست امریکی جارحیت کا نتیجہ ہیں۔
ان حالات میں پاکستان کی موجودہ سویلین حکومت اور اس سے قبل نو برس برسرِ اقتدار رہنے والی مشرف کی فوجی آمریت نے پورے ملک کو امریکی فوجی یلغار کی آماجگاہ بنا رکھا ہے۔ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔اب واشنگٹن پوسٹ کی اطلاع کے مطابق امریکی سی آئی اے نے فیصلہ کر لیا ہے وہ کوئٹہ اور بلوچستان کے غیر قبائلی اور بندوبستی علاقوں کو بھی ان حملوں کا نشانہ بنائے گی،یوں افغانستان میں امریکی جنگ کا دائرہ پاکستان تک پھیل جائے گا اور ہمارا ملک بھی عراق اور ملک افغانان کی مانند واحد سپر طاقت کی جوع الارض کی پالیسی کا نشانہ بن جائے گا،مگر ہماری حکومت کا عالم یہ ہے اس نے قدم قدم پر اپنے آپ کو امریکی ڈالروں کی امداد کا محتاج بنا رکھا ہے۔ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور داخلی ملکی وسائل کو بروئے کار لا کر ملکی معیشت کو خودکفیل بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی۔

اس حالت میں تنازع کشمیر کے لئے فوری حل کے لئے مؤثر قدم یہ حکومت کیسے اور کیونکر اٹھا سکتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کا ایجنڈا ہی امریکہ کا رہن منت بن کر رہنا ہے۔اس محتاجی کی وجہ سے ہمارے حکمرانوں کے اندر بھارت اور امریکہ دونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت ہے نہ حوصلہ،جبکہ ہمارے دونوں ہمسایہ اور دوست ملک ایران و چین اس معاملے میں حکومت پاکستان سے زیادہ فراست اور جرأت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔جب تک پاکستان آگے نہیں بڑھے گا ان ممالک کی حق گوئی زیادہ کارآمد ثابت نہ ہو گی،کیونکہ پاکستان اس تنازعے میں باقاعدہ فریق کی حیثیت رکھتا ہے۔صرف اور صرف اس کی پیش قدمی کشمیری عوام کی بے مثل قرباینوں اور ایران و چین کی ہمنوائی کو مطلوبہ منزل کے حصول میں مددگار بنا سکتی ہے۔ی
ہ قوت ہے کہ پاکستان کی اپوزیشن اپنا کردار ادا کرے۔پارلیمنٹ اور عوام کے اندر آ کر حکومت کو جھنجھوڑے،اس کی بے حسی کو دور کرے ورنہ ہم کشمیری کاز کے ساتھ اپنے مفادات کو بھی نقصان پہنچائیں گے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے جب سے موجودہ منصب سنبھالا ہے کئی مرتبہ کشمیریوں کی مظلومیت کا ذکر کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے کشمیر کو ہمیشہ عالمِ اسلام کا ایک اہم مسئلہ گردانا ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے گذشتہ حج کے موقع پر عالم ِ اسلام کے نام اپنے ایک پیغام میں عالمِ اسلام کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ کشمیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس پیغام پر پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں انھیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای کی طرف سے کشمیری عوام کے حقوق کی حمایت جموں و کشمیر کے بہادر عوام کی جدوجہد کے لیے تقویت کا باعث ہے۔ ترجمان نے کہا کہ آیت اللہ خامنہ ای کی حمایت بہت واضح اور کشمیری عوام کے لیے ان کا موقف دو ٹوک ہے۔

یاد رہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کے اس پیغام پر بھارتی حکومت نے بہت سخت رد عمل ظاہر کیا اور نئی دہلی میں ایرانی سفیر کو طلب کر کے ان سے سخت احتجاج کیا۔ بھارتی حکومت کا کہنا تھا کہ آیت اللہ خامنہ ای کا بیان بھارت کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے۔ بہرحال آیت اللہ خامنہ ای اپنے موقف پر قائم رہے اور ایرانی حکومت نے ان کے موقف کو ان کی اسلامی حیثیت کا تقاضا قرار دیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button