مضامین

کراچی سول سوسائٹی کا احتجاج شیعہ گردی کی نظر ہوگیا

تحریر: مہدی انصاریان

سول سوسائٹی جو کسی بھی معاشر ے کی غیر سرکاری تنظیموںاور اداروں کا مجموعہ ہوتی ہے ، یہ معاشرے کے تمام افراد کا مجموعہ بھی کہلاتی ہے جسکا نہ تو حکومت اور معاشی طبقہ سے کوئی تعلق ہوتا ہے بلکہ اسکا ہدف معاشرے کے مشترکہ مفادات اور اجتماعی سرگرمیاں انجام دینا ہوتا ہے۔ سول سوسائٹی کسی مکتب ، فرقہ یا قوم کی نمائندگی نہیں کرتی اور نا نہیں فرقہ وارانہ مفادات اور مواد کی تشہیر کے لئے استعمال ہوتی ہے۔

اسی طرح پاکستان میں بھی کئ سول سوسائٹیزہیں جو اپنا کام بخوبی انجام دے رہی ہیں یا دے رہی تھیں،پاکستان میں سول سوسائٹیز کو زیادہ تر سیکولر سوچ رکھنے والوں کا مجموعہ قرار دیا جاتا رہا ہے، خاص طور پر مذہبی معمالات اور روایات کے حوالے سے مذہبی شدت پسند طبقہ کو ہمیشہ سول سوسائٹی سے پرابلم رہی ہے۔ لیکن اسکا ایک مثبت پہلو سول سوسائٹی کا مذہبی انتہاء پسندی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے، اور یہ وہ مطالبہ ہے جو ہر ذی شعور مسلمان مطالبہ کرتا ہے۔ پاکستان جو مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے کئی دہائیوں سے دہشتگردی کی بیماری کو برداشت کررہا ہے اور اب یہ بیماری کینسر کی صورت اختیار کرگئی ہے، لہذا ضرورت ہے کہ پاکستان کا ہر طبقہ دہشتگردی کے اس کینسر کو جڑ سے ختم کرنے کے خلاف متحدہو ،لیکن یہ اتحاد مذہبی یافرقہ کی بنیاد پر نہیں پاکستانی کی حیثیت سے ہو تو سود مند ہوگا۔ لیکن پاکستانی قوم جسکے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ایک جذباتی قوم ہے لہذااپنی اسی فطرت پر قائم رہتے ہوئے اچانک اسکے جذبات ابھر کرسامنے آتے ہیں اور پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں،پاکستان کی شیعہ قوم کی بھی یہی حالت ہے۔ سانحہ پشاور کے بعد جذباتی قوم نے دعویٰ پر دعویٰ کیا لیکن بے سود۔

اسی طرح جبران ناصر کی سربراہی میں سول سوسائیٹی نے سانحہ پشاور کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع کیا، سب سے پہلا احتجاج اسلام آباد میں کیا گیا جس میں لال مسجد کے مولانا برقع عبدالعزیز کی جانب سے دہشتگردی کی حمایت کرنے کے خلاف سول سوسائیٹی نے بھر پور احتجاج کیا جسکا فائدہ ہوا اور آج تک مولانا عبدالعزیز کی سرگرمیاں محدود ہیں۔ چونکہ یہ مظاہرہ سول سوسائیٹی کے نام پر ہو ا تھا لہذا پاکستان کا ہر فرد چاہے وہ شیعہ ہو یا سنی یا کسی بھی مکتب سے تعلق ہو جو دہشتگردی کے خلاف تھا اسلام آبا د میں لال مسجد کے باہر ہونے والے احتجاجات میں شریک ہوا۔ جبکہ اسلام آباد میں جو سول سوسائیٹی کی جانب سے مطالبہ رکھا گیا تھا وہ حالات وہ واقعات کے عین مطابق تھا۔ لیکن کراچی میں شاید جلد بازی اور غیر سنجیدہ مطالبات اور چند شیعہ ناتجربہ کار سیاستدانوں جنہیں حکومتی معمالات میں انٹرہونے کے لئے کسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہوتی ہے انہوں نےسول سوسائیٹی کے کراچی احتجاج کا رنگ بدل کر رکھ دیا۔

سانحہ شکار پور کے بعد سول سوسائیٹی نے کراچی میں وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا انکا مطالبہ تھا کہ اورنگرنگ زیب فاروقی کو گرفتار کیا جائے، سپاہ صحابہ کو کالعدم حکومتی سطح پر قرار دیا جائے، شکار پور کے زخمیوں کو کراچی منتقل کیا جائے (جنکی لسٹ جے ڈی سی دے گی)،شہید عسکری اور پروفیسر شکیل اوج کے قاتل کو گرفتار کیا جائے۔ یہ وہ مطالبات تھے جو سول سوسائیٹی کی جانب سے رکھے گئے، اب مجھے نہیں پتہ کے یہ مطالبات سول سوسائیٹی کے تھے یا شیعہ ناتجربہ کار سیاستدانوں کے۔ جس نے بھی یہ مطالبات منظور کروائے ان سے سوال ہے کے آیا شہرکراچی میں واحد ایک اورنگزیب فاروقی دہشتگرد ہے، اور صرف سپاہ صحابہ ہی واحد دہشتگرد جماعت ہے، کیا طالبان اور دیگر جماعتوں کا کراچی میں کوئی کردار نہیں ہے؟ کیا مطالبہ یہ نہیں ہونا چاہئے تھا کہ دہشتگردی میں ملوث ہر جماعت کو سرکاری سطح پر کالعدم قرار دیا جائے، ہردہشتگرد کو گرفتار کیا جائے؟ دوسرا سوال یہ کہ جب احتجاج سول سوسائیٹی کی جانب سے کیا گیا تھا تو شکار پور کے زخمی جو کراچی پہلے ہی منتقل ہوچکے ہیں اور انکا علاج حکومتی سطح پر کیا جارہا ہے پھر جے ڈی سی(JDC) کی جانب سے لسٹ مہیا کیوں کی جائے گی ، سول سوسائیٹی کیوں لسٹ مہیا نہیں کرے گی؟ کیا ایسا تو نہیں کہ مطالبے کی بنیاد پر چند عناصر کی جانب سے جے ڈی سی کو ایڈمینسٹریشن میں انٹر کرنے کا ارادہ تو نہیں تھا؟تیسرا سوال یہ کہ کیا شہر کراچی میں صرف شہید عسکری رضا اور پروفیسر شکیل اوج ہی کوقتل کیا گیا ہے؟ صرف انکے قاتلوں کی گرفتاری کیوں؟۔ "واضع رہے کہ گورنر ہاوس پر شہید عسکری رضا کی شہادت کے بعد دیئے جانے والے دھرنے میں بھی اورنگزیب فاروقی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا، جو گورنر نے منظور کیا لیکن اسکے باوجود وہ آزاد رہا،” کہیں یہ کچھ لوگوں کی جانب سے (جو صرف اور صرف شیعوں کا اصل دشمن فاروقی کو قرار دیدتے ہیں )جبران ناصر کا کندھا استعمال کرتے ہوئے فاورقی کو گرفتار کروانے کی دوبار کوشیش تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو کوئی برائی نہیں تھی لیکن مسئلہ سول سوسائیٹی کے نام پر احتجاج کو شیعہ رنگ دینا بنیادی غلطی ہے جسکی وجہ سے آئندہ شیعہ معمالات میں عام آدمیوں پر مبنی ادارے (سول سوسائٹی /این جی او)کنار ہ کشی اختیار کرلیں گے، یہ ہمارے شیعہ علماء اور رہنماؤں کو سوچنا چاہئے کے ہر دھرنا شیعہ دھرنا نہیں ہوتا۔ ہماری قوم میں یہ سوک و سیاسی شعور کب بیدار ہوگا کہ کہاں پر شیعہ گردی کرنی ہے اور کہاں نہیں؟اور جہاں شیعہ گردی کرنی ہوتی ہے تووہاں کرتے نہیں ہیں؟

SK

گذشتہ دنوں سول سوسائٹی کے ارکان کی جانب سے دھرنے اور اسکے بعد گرفتاری اور پھر شیعہ گردی اور ایک شیعہ نامور عالم دین(مولانا) کی جانب سے لبیک یاحسین کے نعرے (جومیڈیا پر دیکھائے گئے) نے سول سوسائٹی کو شیعہ سوسائٹی میں تبدیل کردیا اور یہ صرف ہماری قوم کے ناتجربہ کار سیاست دانوں اور مفاد پرستوں کی ناقص پالیسی کی وجہ سے ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے اپنا پرانا حربہ استعمال کیا اور دوسری جانب سپاہ صحابہ کے ارکان سے ملاقا ت کرکے یہ ثابت کردیا کہ انہوں نے سول سوسائٹی کے دھرنے اور مطالبے کو شیعہ مطالبہ سمجھ کر منظور کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button