مذہبی انتہاپسندوں اور امریکی سامراج کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آچکا ہے، تاج حیدر
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبرر ساں ادارہ )پیپلز پارٹی سندھ کے سیکرٹری جنرل، وزیراعلٰی سندھ کے کوآرڈینیٹر تاج حیدر نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایلیٹ کلاس اور مذہبی انتہاپسندوں کی حکومت ہے، سیاسی جماعتوں کیلئے فلسفہ ضروری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کسی آئیڈیالوجی پر نہیں بلکہ مقامی طاقتور افراد پر مشتمل جماعت ہے۔ پنجاب کی ہر گلی میں پیپلز پارٹی کا کارکن موجود ہیں۔ جنوبی پنجاب میں دہشت گردوں کے کیمپوں کی وجہ سے ووٹر گھر سے نہیں نکلے۔ سرائیکی صوبے کے مسئلے پر ملتان، بہاولپور میں سیاسی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کرائی جائے۔ طالبان کی حمایت اور انتہا پسندوں کے ووٹوں سے پنجاب میں کامیاب ہونیوالی وفاقی اور صوبائی حکومت اور عمران خان بھی اب ہمارے موقف کے حامی ہوچکے ہیں، وہ طالبان اور دہشت گردوں کیخلاف کارروائی پر راضی ہوگئے ہیں۔ ان خیالات کا انہوں نے تھر کے دورے پر جانیوالے لاہور کے اخبار نویسوں سے تھرکول کے مقام پر کان کی کھدائی کا معائنہ کرنے کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے دہشت گردوں کے ہاتھوں سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ پیپلز پارٹی کا موقف ہمیشہ سے دہشت گردی کے خلاف ہے، ہمارا یہ موقف آج مسلم لیگ (ن) اور عمران خان بھی تسلیم کرچکے ہیں، عوام بھی اب دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کیخلاف ہیں۔ آئندہ دنوں میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے مذاکرات کے پردے میں طالبان کو منظم ہونے دیا تھا۔ جنوبی پنجاب میں حکومت پنجاب کی سرپرستی میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں، جہاں خیبر پی کے سے آنیوالے دہشت گردوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ بھارت میں بھی مذہبی انتہاپسندوں کی حکومت ہے، مذہبی انتہاپسندوں اور امریکی سامراج کا گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آچکا ہے، ترقی پسند ذہن کے بارے میں بھارت سیاسی اعتبار سے پسماندہ ملک ہے۔ نئی دہلی کی ”طالبان حکومت“ ہندو انتہاپسندی کے ووٹ لیکر آئی ہے۔ انتہاپسندوں کو تھوڑی سی جگہ بھی نہیں دینی ورنہ یہ پھیلتے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے فوجی عدالتوں کے بغیر خیبر پی کے کو دہشت گردوں سے خالی کرا لیا تھا۔ 21 ویں ترمیم کی نہ صرف مخالفت کرسکتے تھے بلکہ سینٹ میں اسے روک سکتے تھے، مگر اسلئے رکاوٹ نہیں بنے کہ بعد میں انتہاپسندوں کیخلاف ناکامی کا الزام ہمیں دیا جائیگا۔ پشاور کے سانحہ کے بعد ان جماعتوں کا بھی جمہوریت پر اتفاق ہوگیا تھا۔ سینٹ کے انتخابات کے بعد بھی پیپلز پارٹی واحد اکثریتی جماعت رہے گی۔ سینٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیلئے برابر کی دوڑ ہوگی۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے علاوہ کسی کو بھی اپنے 8 ووٹ دے سکتے ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو صوبائی خودمختاری مل چکی ہے۔ اب ترقی پسند اور نیشنلسٹ جماعتوں کو اکٹھے ہوکر معاشرے کی بہتری کیلئے جدوجہد کرنا چاہئے، جب تک ترقی پسند جماعتیں اکٹھی ہو کر آواز نہیں اٹھائیں گی، وفاق مشکل میں رہیگا۔ پنجاب میں ترقی پسندوں کی مضبوطی سے وفاق مضبوط ہوگا۔