شیعہ لانگ مارچ اور حکومت
تحریر: عرفان علی
آج 19 فروری کو ایک اور مرتبہ اسے اپ ڈیٹ کر رہا ہوں۔ طوالت کی پیشگی معذرت۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں تب لاہور کے قریب پولیس لائن کے باہر ایک دھماکہ ہوا, جس کے بارے میں پولیس افسر کا کہنا ہے کہ یہ خودکش حملہ تھا اور اس میں 8 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ طالبان کے بطن سے جنم لینے والی جماعت الاحرار نے اس دھماکے کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔ اس سے ایک دن قبل یعنی 16 فروری 2015ء کو کراچی میں نیشنل ایکشن پلان پر صوبہ سندھ میں عمل کروانے والی اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا اور اس سے ایک دن پہلے یعنی 15 فروری بروز اتوار سانحہ شکار پور کے شیعہ نمازی شہداء کے ورثاء نے لکھی در مسجد و امام بارگاہ سیدالشہداء کربلا معلٰی سے لبیک یاحسین ؑ مارچ کا آغاز کیا تھا۔ آج دوپہر میں اس کا اختتام ہوچکا، اس پر بعد میں موقع ملا تو ضرور لکھا جائے گا۔
جب بدھ کی شب اس کو اپ ڈیٹ کیا تھا تو 17 فروری تک کے کئی نکات جو کل ایک روزنامہ کے حالات حاضرہ کے ہفتہ وار صفحے پر شایع ہوچکے تھے، ان میں سے بعض کو اختصار کے لئے ہٹانے پر مجبور تھا۔ نہیں چاہتا کہ معاملہ دوسری قسط تک چلا جائے۔ حکومت سندھ نے مطالبات پر عمل کروانے کا میکنزم کل طے کر لیا تھا۔۔ کافی حد تک معاملات طے پاچکے تھے۔ شہداء کے ورثاء کی جانب سے 14 نکات اور ان کے حامیوں کی طرف سے مزید چند نکات پر مبنی مطالبات کی فہرست وزیراعلٰی سندھ کو ان کے سی ایم ہاؤس میں پیش کر دی گئی تھی۔ انہوں نے اپنی کابینہ کے وزیر شرجیل میمن، ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ پولیس کو اپنی معاونت کے لئے حکومتی ٹیم میں مقرر کیا۔ نماز شب کے افضل وقت سندھ حکومت نے شہداء کے ورثاء سے درخواست کی باقی معاملات بھی حل کرنے آجائیں اور جمعرات 19فروری کی دوپہر باضابطہ اعلان کر دیا گیا، لانگ مارچ و دھرنا ختم۔
کل ورثاء کمیٹی کی جانب سے کمیٹی کے سربراہ علامہ مقصود علی ڈومکی کی قیادت میں مذاکراتی ٹیم کے پہلے سی ایم ہاؤس اور بعد ازاں بلاول ہاؤس میں مذاکرات کے کئی راؤنڈز میں مطالبات پر عمل کرنے کا طریقہ کار طے ہوا۔ سندھ میں فوجی آپریشن کے مطالبے پر حکومتی ٹیم کا موقف یہ تھا کہ فوج بھیجنے کا اختیار وفاقی حکومت کو ہے اور وہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت ہے۔ اس لئے سندھ حکومت جو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، وہ اس معاملے میں کوئی یقین دہانی نہیں کرواسکتی۔ دیگر مطالبات کے بارے میں حکومت کا موقف تھا کہ یہ سارے شکارپور میں ہی تسلیم کرچکے تھے، لیکن ورثاء کا موقف یہ تھا کہ زبانی تسلیم کرنا کافی نہیں، باضابطہ عملی طریقہ کار وضع کرنا ہوگا اور اس طرح لانگ مارچ شکارپور سے ضلع سکھر، خیرپور، نوشہروفیروز، دادو، حیدرآباد اور ضلع جامشورو کے کئی چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں سے ہوتا ہوا منگل اور بدھ کی درمیانی شب کراچی پہنچا تھا۔
وادی حسین قبرستان کے باہر کراچی کے شیعہ شہداء کے ورثاء بشمول بچوں اور خواتین کے، وہاں ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ شہدائے کراچی کی قبور پر فاتحہ خوانی کے بعد اس قافلے کا کراچی میں تاریخی استقبال کیا گیا۔ پھول، پھولوں کی پتیاں نچھاور ہوئیں۔ یہ منظر کراچی کے شیعہ مسلمانوں کے لئے ایک تاریخ ساز منظر تھا۔ تقاریر کے بعد اس لانگ مارچ نے قدم بڑھائے تو عین مزار قائد بانی پاکستان محمد علی جناح کے سامنے ان کے نام سے منسوب ایم اے جناح روڈ پر پڑاؤ ڈالا۔ یہیں فجر پڑھی، یہیں ظہر و عصر اور یہیں مغرب اور عشاء کی نمازیں 18 فروری کو اس وقت تک باجماعت ادا کی جاچکی ہیں۔
اس دروان 2 اہم باتیں وقوع پذیر ہوئیں۔ پہلے تو یہ کہ بعض نیوز چینلز نے مذاکرات کی کامیابی اور دھرنا ختم کرنے کی خبر جاری کر دی اور اس کی بنیاد صوبائی وزیر شرجیل کا بیان تھا۔ لیکن دوسری اہم واردات دھرنے کے اندر ہوئی۔ عصر اور مغرب کے درمیان ایک ٹولہ نکلا اور اس نے ورثاء کے اس عظیم الشان دھرنے کو اکسایا کہ سی ایم ہاؤس چلیں، وہ سڑک کے دوسری جانب بعض نوجوانوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اسی دوران دھرنے کے اسٹیج پر ساؤنڈ سسٹم کی بجلی منقطع کر دی گئی۔ بجلی کی تاریں ہی کاٹ ڈالی گئیں۔ مختار امامی سمیت بعض رہنماوں نے شکارپور سے آنے والی گاڑی کے ساؤنڈ سسٹم کو استعمال کرکے اس سازش کو ناکام بنانے کی اپیل کی۔ پھر علامہ امین شہیدی نے ساؤنڈ سسٹم کی بحالی کے بعد دھرنے کے اسٹیج پر شرکاء سے عہد لیا اور پوچھا کہ آپ سرفروشوں کے ساتھ ہیں یا زرخریدوں کے ساتھ، آپ کس کے ساتھ ہیں، اور اس طرح شرکاء نے تجدید عہد وفا کیا۔
اگر وہ سازش کامیاب ہوجاتی تو شیعہ شہداء کے ورثاء کے مذاکرات سبوتاژ ہوجاتے، کیونکہ حکومت نے دعوت دے کر انہیں بلایا تھا اور مذاکرات تک لانگ مارچ کو نمائش پر رکھنے پر فریقین نے اتفاق کیا تھا۔ مذاکرات کے دوران سی ایم ہاؤس پر جانا ایک نامناسب قدم تھا اور دوسری بات یہ کہ لانگ مارچ یا دھرنا شروع کرنے کا فیصلہ کراچی کے ان بعض ’’لونڈوں‘‘ نے نہیں کیا تھا اور نہ ہی وہ ان کی جانب سے اپنا ذاتی فیصلہ سنانے کا حق رکھتے تھے۔ یہاں مجلس وحدت مسلمین جس نے اس سارے عمل میں قائدانہ کردار ادا کیا، ان کے قائد علامہ ناصر عباس جعفری نے واضح کہا تھا کہ شہدائے شکارپور کے ورثاء جو فیصلہ کریں گے، ہم اس کے تابع ہیں۔ اگر وہ دھرنا یا لانگ مارچ ختم کرنے کا فیصلہ سنائیں گے تو لانگ مارچ دھرنے کا اختتام کر دیا ج
ائے گا۔ علامہ شہیدی نے سبوتاژ کی سازش کرنے والوں کے نام نہیں لئے، لیکن میں ان کی تھوڑی سی پہچان کروا دیتا ہوں کہ یہ وہی ہیں جب سی ایم ہاؤس کے قریب دھرنا دے کر بیٹھنے پر پولیس نے انہیں تھانوں میں بند کر دیا تھا تو انہوں نے آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کروانے پر آزادی پائی تھی۔ پولیس کا موقف اخبارات نے رپورٹ کیا تھا۔ نہ تو میں ان کے دھرنے کا مخالف تھا اور نہ ہی انکے اس احتجاج کا۔ لیکن اصولی بات یہ ہے کہ وہاں وہ خود فیصلہ کرنے کے مجاز تھے، کیا وہاں کسی شیعہ مولوی نے آکر کوئی شرارت کی تھی، جو اس کا بدلہ لینے لگے۔
میں اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہوں کہ ایک کیمرہ مین خوفزدہ ہوکر اسٹیج اور خواتین کے درمیان آکر کھڑا ہوگیا اور مجھے کہنے لگا کہ اب یہاں ہم محفوظ ہیں۔ ایسا اس لئے تھا کہ چند جوانوں کی اشتعال انگیز پہل سے پولیس اور رینجرز نے آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کر دینی تھی۔ یہاں ہماری مائیں بہنیں اور بچے بھی سڑکوں پر جمع ہیں۔ میں چیلنج کرکے کہتا ہوں کہ ان تین چار افراد کی بہن، بیوی، ماں یا ننھے منے بچے وہاں لانگ مارچ دھرنے میں نہیں تھے۔ جو کچھ وہاں ہوتا، اس میں ہمارے اور ہم جیسوں کے اہل خانہ جن میں ایک میرا ننھا منا محمد عابس مہدی جس کی عمر محض سولہ مہینے ہے، ان سب کی ایسی کی تیسی ہوجاتی۔ مجھے یاد ہے کہ لبیک یارسول اللہ ریلی میں علی رضا تقوی کی شہادت میں جہاں سکیورٹی اہلکاروں میں موجود ایک امریکی نمک خوار کا کردار تھا، وہیں بعض ایسے ہی جوانوں کا بھی کردار تھا، جو ایسے نازک وقت کی نزاکت میں قیادت کے بجائے اپنی مرضی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔
یہ تو ہوا اپ ڈیٹ لیکن 17 فروری کو میں نے لکھا تھا کہ اپیکس کمیٹی کی میٹنگ میں وزیراعظم نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رضوان اختر، سندھ حکومت کے وزیراعلٰی اور دیگر اعلٰی سطحی مقتدر شخصیات نے شرکت کی۔ اس اجلاس کے بعد اہم بیانات و اعلانات سامنے آئے۔ کراچی ٹارگٹڈ آپریشن کی طرز پر پورے سندھ میں آپریشن کا دائرہ پھیلایا جائے گا۔ پولیس میں سیاسی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ لیکن ان بیانات کے باوجود عوام ملک بھر سے احتجاج کی جو صدائیں بلند کر رہے ہیں، یہ ظاہر کرتی ہیں کہ عوام کی غالب اکثریت سیاسی حکومتوں کی کارکردگی سے خوش نہیں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے حکومت سے مایوس ہے۔ یہ ایک ایسی رائے ہے جس میں سول سوسائٹی، سیکولر، مذہبی کا فرق مٹ چکا ہے۔ سانحہ پشاور کے معصوم شہید بچوں کی مائیں احتجاجی ریلی نکالنے پر مجبور ہیں۔ انہیں بھی وفاقی اور صوبائی حکومت سے شکایات ہیں کہ انہوں نے تاحال قاتل دہشت گردوں کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی اور شہداء کے والدین کو تحقیقاتی رپورٹ سے بھی لاعلم رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے بھی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پر تنقید کی کہ جب معلوم تھا کہ اسکول کے بچوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کی جاچکی تھی تو پھر موثر سکیورٹی اقدامات کیوں نہیں کئے گئے تھے۔
سانحہ شکار پور کے نمازی شہداء کے ورثاء کا بھی یہی کہنا ہے کہ خودکش حملہ اس لئے ممکن ہوا کہ حکومت کی جانب سے مطلوبہ حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے تھے اور سندھ حکومت کی کوتاہی و لاپرواہی سے یہ سانحہ رونما ہو۔ ابھی سانحہ شکارپور کے نمازی شہداء کا غم تازہ تھا تو حیات آباد پشاور میں مسجد امامیہ میں نماز جمعہ کے اجتماع کو ہدف بنایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ دہشت گرد ایف سی اہلکاروں کی وردی میں ملبوس تھے۔ ایک نمازی عباس علی نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک خودکش بمبار کو گلے سے دبوچ لیا اور وہ تو دھماکہ نہیں کرسکا لیکن اس کے ایک اور شقی القلب ساتھی نے خودکش دھماکہ کر دیا۔ اگر وہاں بھی سکیورٹی کے مناسب اقدامات ہوتے تو عباس علی کی طرح سکیورٹی اہلکار دہشت گردوں کو گلے سے دبوچ کر گرفت میں لے سکتے تھے۔
پاکستان کے عوام دیکھ رہے ہیں کہ سانحہ پشاور کے بعد سے جو کاغذی کارروائی شروع ہوئی تھی، اس پر ابھی تک عمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ نیشنل ایکشن پلان، اپیکس کمیٹی، صوبائی اپیکس کمیٹی، بیانات، دہشت گردی کے خلاف کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں، دہشت گردی کے خلاف موجودہ پالیسی حکومتی نہیں ریاستی پالیسی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن عمل کہاں ہے؟ کیا فوجی عدالتیں قائم ہوچکیں؟ کیا ان عدالتوں میں مقدمات چلنا شروع ہوگئے؟ کیا سارے سزا یافتہ دہشت گردوں کو پھانسی دے دی گئی؟ کیا کالعدم دہشت گرد گروہوں کو حاصل سرکاری مراعات واپس لے لی گئیں۔ کیا کالعدم دہشت گرد گروہوں کو ریلیاں نکالنے یا اجتماعات منعقد کرنے سے روک دیا گیا؟ ان سارے سوالوں کا جواب اگر حکومت کی طرف سے ہاں میں دیا جاسکتا ہوتا تو پھر ہم بھی یہاں لکھ سکتے تھے کہ دیر سے سہی آغاز تو ہوا لیکن یہاں اخباری بیانات ہیں۔ اتنے مقدمات فوجی عدالتوں کو بھیجنے کی سفارش کر دی گئی۔ لیکن یہ وہ اعلانات ہیں جن کا کھوکھلاپن سب پر آشکار ہوچکا ہے۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد بھی نہ رائے عامہ تبدیل ہوئی ہے اور نہ ہی دہشت گردوں کا مائنڈ سیٹ۔
عوام کو حکومت پر اعتماد ہی نہیں ہے، اس لئے وہ حکومت مخالف لانگ مارچ، ریلی، دھرنوں کے ذریعے احتجاج سے دست بردار ہونے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ عوام کا یہ موڈ حکمران طبقے کے لئے نوشتہ دیوار ہے۔ لیکن حکمرانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ عوام کے عدم اعتماد کا سبب ان کی لفاظی وبے عملی ہے۔ لیکن دلچسپ بات
یہ ہے کہ دہشت گرد بھی حکمرانوں کے اقدامات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ سانحہ پشاور کے بعد بھی سانحات کا سلسلہ رکا نہیں ہے۔ حکومت نے سانحہ واہگہ پر کہا کہ دہشت گردوں کو نہیں چھوڑیں گے تو انہوں نے ا گلے مہینے دسمبر 2014ء میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کرکے دکھا دیا۔ تب فوجی عدالتیں، نیشنل ایکشن پلان اور اپیکس کمیٹیوں کے اعلانات کے ذریعے دہشت گردوں کو ڈرانے کی کوشش کی تو جنوری میں سانحہ مسجد سیدالشہداء و امام بارگاہ کربلا معلٰی شکارپور کرکے دکھا دیا۔ اس کے بعد بھی اعلانات ہوئے اور اب حیات آباد مسجد امامیہ میں خودکش دھماکے کرکے دکھا دیئے۔ کراچی میں ملکی قیادت جمع ہوئی اور دہشت گردوں نے دوسرے دن لاہور قلعہ گجر سنگھ میں خودکش دھماکہ کر ڈالا۔ کل امام بارگاہ قصر سکینہ بنت الحسین شکریال راولپنڈی میں دہشت گردی ہوئی ہے۔ اب حکمران خود ہی بتائیں کہ ان کی رٹ ہے کہاں؟