مضامین

دہشتگردی کا تسلسل اور حکومت کی ناکامی

تحریر: تصور حسین شہزاد

 

سال 2015ء دہشت گردی کے خوفناک واقعات سے شروع ہوا ہے، اسلام آباد امام بارگاہ پر حملہ، جس میں اب تک 4 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوچکے ہیں، چوتھا واقعہ ہے، جو لاہور پولیس لائنز دھماکے کے اگلے ہی روز رونما ہوا۔ اس سے قبل شکار پور اور پشاور میں دہشت گردانہ حملوں میں 100 کے قریب افراد شہید ہوچکے ہیں۔ شکارپور اور اسلام آباد میں اہل تشیع کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ پشاور اور لاہور میں دہشت گردوں کا ہدف سکیورٹی فورسز تھیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اہل تشیع کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کو قوم کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دیا ہے اور انہی کے سابق بیان کے مطابق، یہ سازش بھارت کے سوا کون کرسکتا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو اب پاکستان پر لازم ہے کہ سفارتی سطح پر دنیا کے لئے آگاہی مہم چلائے، اقوام عالم کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرے، کب تک ہم مصلحت کوشی سے کام لے کر بھارت کے ساتھ دوستی کے خواب دیکھتے رہیں گے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف سندھ کے بعد بلوچستان میں اپیکس کمیٹیوں کے اجلاسوں میں نیشنل ایکشن پلان پر ٹھوس شواہد پر عمل درآمد کے نتیجہ خیز ہونے کو یقینی بنانے پر زور دے رہے ہیں اور چودھری نثار علی خان امریکہ میں بیٹھے دنیا کو بتا رہے ہیں کہ امریکہ میں تو ایک بار نائن الیون ہوا، ہمیں بلا وجہ دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا گیا اور اب تک ہم اس کا یوں خمیازہ بھگت رہے ہیں کہ ہمارے ہاں روزانہ نائن الیون سے بڑے واقعات ہو رہے ہیں۔ بے گناہ پاکستانی شہید ہو رہے ہیں، اربوں روپے کا معاشی نقصان ہوچکا ہے، ابھی تک ہر پاکستانی عدم استحکام کا شکار عالم بے یقینی میں ہے۔

بے شک صورت حال ایسی ہی ہے، اور ہو بھی کیوں نہ؟ کیا ہم نے نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکاتی ایجنڈے پر دہشت گردوں کے خلاف پالیسی بناتے ہوئے اس پر عمل درآمد کے ردعمل سے بچنے کے اقدامات کا سوچا؟ اگر سوچا گیا تھا تو ابھی تک ہماری سکیورٹی ایجنسیز دہشت گردی کے شدید واقعات روکنے میں ناکام کیوں ہیں؟ کتنی عجیب بات ہے کہ ہر دفعہ دہشت گردی کا حادثہ رونما ہونے کے بعد دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’’دہشت گرد اپنے ہدف تک پہنچنے میں ناکام رہا‘‘ مگر کیا صرف ہدف کو ہی بچانا ہمارے سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے؟ کیا دہشت گردوں کے حملے میں مرنے والے عام لوگ انسان نہیں؟ کیا ان کی املاک کا نقصان قومی نقصان نہیں؟ کیا ہدف تک نہ پہنچنے کے باوجود دہشت گردانہ دھماکوں سے ملک میں خوف و ہراس نہیں پھیلتا؟ آخر 3 درجن سے زائد سکیورٹی ایجنسیوں کے ہزاروں اہلکار ہمہ وقت چوکس و بیدار ہو کر بھی دہشت گردوں کے حملے روکنے میں کیوں ناکام رہتے ہیں۔ ہر اہم عمارت، بازار اور گزرگاہ پر بڑے بڑے انتباہی بورڈ آویزاں ہیں ’’خبردار کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے‘‘ مگر دہشت گردوں کو دیکھتے ہی یہ آنکھ بند کیوں ہوجاتی ہے؟ یا سکیورٹی کیمرے دہشت گردوں سے چشم پوشی کیوں کر لیتے ہیں؟ مانیٹرنگ کرنے والے کیمرے کی آنکھ سے اپنے سامنے لگے مانیٹر پر مشکوک افراد پر نظر رکھنے میں غفلت شعاری کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟ اہم اداروں، جگہوں، مقامات اور عمارتوں پر سکیورٹی کیمروں کی تنصیب محض رسمی کارروائی ہے؟ ہم ان کے ذریعے حادثے کے بعد فوٹیج تو حاصل کرکے ملزمان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں، مگر حادثے سے پہلے کیمرے کی آنکھ سے مشکوک افراد کی نگرانی کے عمل میں یکسر ناکام کیوں ہیں۔؟

وفاقی حکومت کے دعووں کے باوجود انسداد دہشت گردی میں حکومت کی حکمت عملی ناکام جا رہی ہے۔ ہمارے سکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ضرور نتیجہ خیز کارروائیاں کر رہے ہیں، مگر اب دہشت گردوں نے اپنے ٹھکانوں سے نکل کر پورے ملک کو میدان جنگ بنا دیا ہے۔ اتنے وسیع و عریض میدان جنگ میں دہشت گرد اپنے سہولت کاروں کی مدد سے سفاکانہ وارداتیں کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ان کے پاس جدید ترین اسلحہ و دہشت گردی میں استعمال ہونے والی ڈیوائسز ہیں۔ اتنا جدید ترین،ر تباہ کن ہلاکت خیز مواد اور اسلحہ وہ کہاں سے لیتے ہیں؟ انہیں کون مہیا کرتا ہے؟ گنجان آبادیوں اور بستیوں میں انہیں کون پناہ دیتا ہے؟ اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے کون اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر انہیں طے شدہ ہدف تک پہنچانے کا کام کرتا ہے؟ ہماری سکیورٹی ایجنسیاں اس سارے نیٹ ورک کا پتہ چلانے میں کیوں ناکام ہیں۔؟

یہ نہایت افسوس ناک امر ہے کہ ہمارے سیاست دان عسکری قیادت کے ساتھ جب بیٹھتے ہیں تو ان کی ہر بات پر سر ہلا کر یہ تاثر دیتے ہیں کہ سب لوگ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یکسو ہیں، مگر روز بروز بڑھتی ہوئی وارداتیں اور ان میں صرف اہل تشیع کو نشانہ بنایا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کار قومی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں، جبکہ ہماری حکومت ایپکس کمیٹیوں کے اجلاسوں کے انعقاد اور دہشت گردوں کے خلاف صرف منصوبے بنانے میں ہی مصروف ہیں۔ لاہور میں انسداد دہشت گردی فورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر کرنے کے بعد کوئٹہ میں ہونے والی تقریب بھی ہم نے ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کرکے اپنے تمام خفیہ آلات و ہتھیار اور طریقہ ہائے کار کے بارے میں دشمن کو آگاہ کر دیا ہے، جبکہ دہشت گرد اور ان کے غیر ملکی سرپرست ہمارے تمام رازوں سے واقف ہو کر ان کے توڑ کی حکمت عملی بنانے کے لئے موثر منصوبہ بندی کر لیتے ہیں۔ جانے
ہماری حکومت میں کون سے شہ دماغ بیٹھے ہیں، جو انسداد دہشت گردی فورس کے لئے دشمن کو زیر کرنے کے سارے راز براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر کروا کر دشمن کی معاونت میں لگے ہوئے ہیں؟ اس قسم کے حفاظتی ایجنڈے کے کیا نتائج نکلیں گے؟ جس سے ہمارا چالاک دشمن پہلے ہی آگاہی حاصل کرکے اسے غیر موثر کرنے کی حکمت عملی ترتیب دے چکا ہو؟

آج پاکستان کا ہر شہر، ہر قصبہ، ہر ادارہ، ہر مقام دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، ہماری تین درجن کے لگ بھگ سکیورٹی ایجنسیاں کیونکر دشمن کے ہتھکنڈے ناکام بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں، اس پر سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی حکمت عملی پر غور کرکے اپنے طرز عمل کو تبدیل کرنا ہوگا۔ وزیراعظم کو خصوصی طور پر سوچنا ہوگا کہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات کی تشہیر ان کی ذاتی تشہیر کے علاوہ اور کیا مقاصد حاصل کر پائی ہے۔ اصل مقصد کیوں حاصل نہیں ہو پاتا؟ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ہم ابھی تک دہشت گردوں کو واردات کرنے سے قبل کیوں نہیں پکڑ پاتے؟ ہر سانحہ کے بعد کیمروں کی فوٹیج حاصل کرکے اندھیرے میں تیر چلانے کا کیا فائدہ؟؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button