مضامین

پروفیسر سید سبط جعفر زیدی شہید

تحریر: سید سجاد شبیر رضوی

کچھ رشتے ایسے ہیں جن کو انسان زندگی کے کسی لمحے بھی فراموش نہیں کر سکتا، ان رشتوں میں ایک رشتہ استاد کا بھی ہے۔ کچھ استاد ایسے ہوتے ہیں جن کی تعلیم کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی۔ خلوص، ایثار، ایمانداری، وسیع النظری، محبت و اخلاق، اخلاص و شرافت یہ سب ایک جگہ جمع ہو جائیں تو شہید پروفیسر سبط جعفر زیدی کا پیکر بنتا ہے، اگر ان کی علمی قابلیت کا تذکرہ کیا جائے تو شاید ہی کوئی ایسا دنیاوی علم ہوگا جس سے وہ نا آشنا ہوں، وکالت، صحافت، مرثیہ نگاری، نقادی، شاعری، ماہر تعلیم، سوز خوانی، خطیب و مصنف، شاید ہی کوئی علمی اور ادبی گوشہ ہو، جو ان کی خدمات سے محروم رہا ہو، مگر بات ان کے کردار کی جائے تو سادگی کا عالم یہ کہ ایک پرانی موٹر سائیکل، سادہ لباس، سادہ خوراک، شاید ہی کوئی سائل دروازے سے خالی واپس گیا ہو۔ کون دیکھ کر کہے گا کہ یہ گورنمنٹ ڈگری کالج کے پرنسپل ہیں۔ مگر ہم کس معاشرے میں زندہ ہیں جہاں استاد کو کالج سے نکلتے ہوئے گولیوں سے بھون دیا جائے یہ شہید پروفیسر سبط جعفر زیدی کا قتل نہیں، علم کا قتل ہے۔ ان کی دوسری برسی پر ان کے ہزاروں شاگرد رنجیدہ ہیں۔

 آپ کے والد مولانا سید احمد میاں زیدی معروف عالم دین تھے، ان کی پاکیزہ آغوش میں آپ نے 1957میں آنکھ کھولی۔ ایم اے، بی ایڈ، ایل ایل بی اور پوسٹ گریجویٹ کیا۔ صرف دنیا کی تعلیم نہیں، دین کی تعلیم مدرسہ الواعظین میں ادیب اعظم مولانا ظفر حسن امروہوی، مولانا حسن عباس رضوی، مولانا عنایت حسین جلالوی اور خصوصیت سے مولانا محمد مصطفیٰ جوہر والد گرامی علامہ طالب جوہری سے حاصل کی۔ عملی وکالت سے دستبرداری کے بعد پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور محکمہ تعلیم میں ایسوسی ایٹ پروفیسر مشیر قانون کی ذمہ داری پر مامور ہوئے۔ آپ کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ آپ کہا کرتے تھے کہ انسان کے پاس کوئی حاجت لے کر آئے تو احسان خداوندی کا تحفہ ہے، آپ فرقہ واریت کو زہر قاتل سمجھتے تھے اور تمام مسالک کی مجالس، محافل یہاں تک کہ غیر مسلموں کی محافل میں شرکت فرماتے تھے۔ آپ نے انٹرمیڈیٹ اور ڈگری کلاسز کیلئے کئی کتب تصنیف کیں جو 1985سے 1988 تک متعدد بار شائع ہوئیں۔

 آپ J.D.C بورڈ کے بانی اور خادمان علم جامعہ امامیہ کے سرپرست بھی تھے۔ بطور شاعر، سوز خوان، ادیب، نقاد آپ کی خدمات کا احاطہ ممکن نہیں ہے، 1967سے لیکر اب تک مختلف الیکٹرانک میڈیا سے وابستگی رہی اور خصوصی پروگرام بھی تحریر کئے، بطور محقق و مصنف 1996 میں محسن عقیدت کے نام سے خصوصی تحقیقی پروگرام نشر کئے، سیکڑوں کتابیں لکھیں، جن میں سے ’’بستہ‘‘ کے نام سے شہرت حاصل کرنے والی کتاب کے اب تک کئی ایڈیشن شائع ہوئے، 1988سے 2013 تک آپ کی بطور شاعر اور سوز خوان دو سو سے زائد وڈیو اور آڈیوکسٹس جاری کی گئیں، آپ نے کئی غریب علاقوں میں اسکول قائم کئے۔ پروفیسر صاحب آرٹس کونسل کے تاحیات رکن، کراچی بار ایسوسی ایشن کے ممبر ہونے کے علاوہ محبان اولیاء کے صدر انجمن، وظیفہ سادات پاکستان کے صدر (مرکزی) بھی تھے۔ آپ نے بین الاقوامی ادارہ ترویج سوز خوانی قائم کیا۔ ریاست ہائے امریکہ کی معروف ہارورڈ یونیورسٹی میں آپ کی زندگی پر پی ایچ ڈی کی گئی جو اس یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔

آپ گورنمنٹ ڈگری کالج قاسم آباد میں بطور پرنسپل خدمات انجام دے رہے تھے تمام وسائل رکھتے ہوئے آپ کہا کرتے تھے کہ میں غریب علاقے میں بچوں کی تربیت کرنا بہت بڑی عبادت سمجھتا ہوں۔کون سوچ سکتا تھا کہ ایک ایسے بے ضرر انسان اور شفیق استاد کو ہم سے چھین لیا جائے گا۔ پروفیسر صاحب کالج سے علم کی شمعیں روشن کر کے حسب دستور اپنی موٹر سائیکل پر گھر جانے نکلے تھے کہ کچھ فاصلے پر بھرے بازار میں علم دشمن جاہل قوتوں نے آپ کو شہید کر دیا ۔ آپ کی نماز جنازہ امروہہ گرائونڈ میں ادا کی گئی، آپ نے پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹیوں، بھائیوں اور ایک بیٹے سمیت ہزاروں شاگرد کو چھوڑا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button