شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ،ایک مسیحا صفت انسان
شہید کی زندگی کا ایک انتہائی اہم پہلو جس سے ہم میں سے بہت سے مکمل طور پر آشناء نہیں ہیں ، ہم میں سے بیشتر دوست بزرگان اور شہید کے رفقاء سے سن چکے ہیں کہ ایران پر صدام کے حملے کے وقت شہید کس قدر مضطرب رہے اور کس طرح انہوں نے ایک ایک پائی جمع کی اور ادویات اور دیگر سامان کے ہمراہ خود بھی پہنچے ۔۔۔اس بات کو با آسانی ولایت فقیہ سے منسلک کیا جا سکتا ہے اور بات وہیں تک رہ جاتی ہے ، مگر شہید کی زندگی کا اہم ترین پہلو انسانیت کی خدمت ہے ، لفظ ڈاکٹر کے ساتھ جس طرح انصاف شہید ڈاکٹر کر رہے تھے شاید ہی کوئی کرتا ہو گا۔۔۔
شہید کی رہائش گاہ کے نزدیک جو غیر مسلم آبادی تھی وہ مسیحیوں کی غریب آبادی تھی ،ان کا مسیحاء مذہب سے بالاتر ہو کر، سرد راتوں اور گرم دنوں میں بے لوث ان کا علاج کرتا تھا ، ان کی خدمت کرتا تھا ، انہیں ادویات لا کر دیتا تھا، ان کے آپریشن کرانے کے انتظامات کرتا تھا ، ،
شہید نے جس جگہ کلینک بنایا اس علاقے میں بچہ بچہ اب تک شہید کے گن گاتا ہے ، منصورہ کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ارد گرد جماعت اسلامی کے زیر ِ اثر رہنے والے لوگ بنھی بہت تھے ،منصورہ ہسپتال کے ہوتے ہوئے میں نے کئی کٹر جماعتیوں کو شہید کے کلینک پر علاج کراتے دیکھا ، ،،، شہید کے بعد بھی وہاں ایک جماعتی سے ملاقات ہوئی جو اپنا نومولود لے کر کلینک پر آیا تھا ،، اس کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں یہ بتاتے ہوئے کہ میرا یہ چوتھا بیٹا ہے ، اور پہلے تینوں بچے پیدا ہوتے ہی پہلے دوسرے دن شہید کے ہاتھوں میں لا کر دکھائے ، معائنہ و مسلمانی کرائی۔،،، اب بھی میں ان کے کلینک میں لایا ہوں حالانکہ منصورہ میرے گھر کے ساتھ ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار شہید کے کلینک پر ایک اہلسنت بزرگ کو دیکھا ، باتیں ہونے لگیں تو میں نے پوچھا کہ کب سے آ رہے ہیں یہاں ،،، تو وہ کہنے لگے \” ایتھے تے میں ڈاکٹر صاب دی تصویر ویکھن آناں واں، او ہوندے سن تے او میرے کول میری شوگر چیک کرن آندے سن\” ، یہاں تو میں ڈاکٹر صاحب کی تصویر دیکھنے آتا ہوں ، وہ ہوتے تھے تو میری شوگر چیک کرنے میرے پاس آتے تھے ۔،،، \” ہن ایتھے آ کے شوگر چیک کرا جائدا اے ، تصویر ویکھ کے ساڈی طبیعت ٹھیک ہو جاندی اے \” ، اب یہاں آ کر شوگر چیک کراتا ہو ں تصویر دیکھ کر میرے طبیعت ٹھیک ہو جاتی ہے ،
کئی ایسے مریض تھے جنہیں شہید ان کے گھر جا کر دیکھتے تھے ، رات ہو ، دن ہو ،آندھی ہو ، طوفان ہو ، تمام تر تنظیمی کاموں کے باوجود ، وہ اپنی ڈیوٹی نبھاتے تھے ،ہر مہینے کئی مقامات پر میڈیکل کیمپس لگاتے تھے ، ایامِ عزاء میں عزاداروں کی خدمت کے لیے ٹیم بنا کر نکل جاتے تھے