مضامین

حضرت فاطمہ زہرا (س) تحریر ڈاکڑ علی شریعتی

تحریر: ڈاکٹر علی شریعتی

ہماری عورت جس کی زندگی اور تونائی کا اصلی سرچشمہ اسلام ہے، اپنی خودی کو خود اثبات کرنا چاہتی ہے ناہی قدیم روایتی چہرہ اسکا ماڈل اورآئیڈیل ہو سکتی ہے اور نا ہی مغربی عورت ۔تو اسلام کی عظیم خاتون فاطمہ ہی انکے واسطے نمونہ ہوسکتی ہے لیکن انکی معرفت ہماری خواتین کو کس حدتک ہے؟ اسکے بارے میں کتنی معلومات رکھتی ہیں ؟ہماری عوام اس پاکیزہ اور بزرگ ہستی سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں ہر سال لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس عظیم ہستی کی یاد میں گریہ و بکا کرتی ہے۔ ہر سال ہزاروں بلکہ لاکھوں محفلیں اور مجلسیں ان کی یاد میں منعقد کی جاتی ہے بے شمار تقریبات ہوتی ہیں جن میں ان کی مدح و ثنا کی جاتی ہے ان کی عظمت اور جلالت کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ان کی کرامت اور معجزوں کا ذکر ہوتا ہے ان کی مصیبت پر گریہ اور ان کے دشمنوں سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود ہمیں اس عظیم اور ہمہ گیر شخصیت کی معرفت حاصل نہیں ہے اور اس بزرگ اور مقدس شخصیت کے بارے میں ہماری معلومات بہت سطحی اور محض ان چند اطلاعات پر مشتمل ہیں کہ:

جناب فاطمہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ)کی چہتی بیٹی تھیں جناب رسالت مآب کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی زندگی آلام و مصائب میں گھر گئی۔ آپ کو فدک کی جاگیر سے محروم کردیا گیا آپ کے گھر پر حملہ کیا گیا جس کے نتیجہ میں گھر کا دروازہ آپ کے پہلو پر گر ا اور جناب محسن شکم مادر میں شہید ہوگئے ان حالات میں آپ کی شخصیت حزن و ملا کا مرقع بن کر رہ گئی آپ کا یہ معمول بن گیا کہ آپ اپنے بچوں کو ساتھ لے کر شہر سے باہر چلی جاتی تھیں اور اس دور افتادہ مقام پر تمام دن گریہ و بکا میں مصروف رہتی تھیں اس طرح ان کی مختصر عمر محض گریہ و بکا کرنے اور اپنے دشمنوں کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرنے میں بیت گئی یہاں تک کہ انہوں نے اس دارفانی سے رحلت کی اپنے انتقال کے وقت آپ نے وصیت کی جنازہ رات کو اٹھایا جائے تاکہ وہ لوگ جن سے آپ ناراض تھیں آپ کے جنازے میں شریک نہ ہوسکیں اور نہ انہیں آپ کی قبر کا نشان معلوم ہوسکے۔

جناب فاطمہ کی عظیم شخصیت کے متعلق ہماری معلومات کا دائرہ محض ان چند اطلاعات تک محدود ہے ہم جو دل و جان سے ان کی عظمت اور جلالت کے معترف ہیں اور ہم جو اپنے روح اور ایمان کی تمام گہرائیوں اور توانائیوں کے ساتھ ان سے عقیدت رکھتے ہیں ایسی بے پایاں اور لازوال عقیدت جس سے زیادہ عقیدت رکھنا کسی انسانی گروہ کیلئے ممکن نہیں ہے لیکن اس ہستی کے بارے میں جو ہماری عقیدتوں کا مرکز ہے ہماری معلومات افسوسناک حد تک محدود اور سطحی ہیں۔”

(فاطمہ فاطمہ ہے، ص١١۔١٢)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button