پاکستانی اہل تشیع کا قتل عام اور دہشتگردوں کی عجیب منطق
تحریر: مسلم مقدس کاظمی
عباس علی اپنے معمول کے مطابق جمعہ کی نماز پڑھنے امامیہ مسجد حیات آباد میں شہادت کا وضو کرکے اپنے الله کے حضور سجدہ ریز تھا کہ اچانک ابن طاغوت و اسرائیل تکفیری دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ یعنی اسلام کے نام پر اسلام کا اہم رکن نماز اور نماز کے اہم رکن سجدہ میں گرے ہوئے حسینیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ عباس علی انتہائی دلیری سے بزدل دہشت گردوں کو گرنیڈ پھینکتے اور فائرنگ کرتے دیکھ کر نہتے حملہ کرنے کی ٹھان چکا تھا اور جیسے ہی تکفیری حودکش بمبار مسجد کے مین ہال میں داحل ہوا تو اسے گردن سے دبوچ کر اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک تکفیری فنار نہیں ہوگیا۔ اسی اثناء میں اس تکفیری دہشت گرد کا ایک ساتھی پیچھے سے فائرنگ کرتا ہوا آیا اور حود کو اڑا کر خود بھی جہنم رسید ہوگیا اور عباس علی بھی شہید ہوگیا۔
قرآن کی آیت کا مفہوم ہے، جب الله بارش برساتا ہے تو گندی جگہ سے بدبو اور اچھی جگہ سے خوشبو آتی ہے، اسی طرح دونوں یعنی یزیدی اور حسینی دونوں ہی موت کے منہ میں چلے گئے، لیکن حسینی مرنے کے بعد زندہ اور یزیدی مرنے کے بعد مردار ہوگا، اور ویسے بھی مساجد میں حملہ کرنے کی روایت اہلبیت (ع) کے دشمنوں کی ہی ہے، جس کا آغاز امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو مسجد میں شہید کرکے کیا گیا۔ پشاور سے پہلے راولپنڈی اور شکار پور میں بھی حسینیوں پر خودکش حملے کئے گئے، سب جگہ شور مچ گیا کہ جی بہت ظلم ہو رہا ہے تو پھر کیا تھا کہ تکفیری دلالوں نے دلالی شروع کرتے ہوئے چور مچائے شور والا کام شروع کر دیا اور شور مچا دیا کہ جی دیکھیں دونوں طرف کے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر، ٹی وی پر، ہر جگہ دوطرفہ قتل عام کا چرچا شروع ہوجاتا ہے اور ہمارے بھولے بھالے شیعہ بچارے تاویلیں پیش کرنے لگے کہ نہیں یہ یکطرفہ قتل عام ہے۔ اس شور شرابے سے ایک تو یزیدیوں کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ شیعہ قتل عام کو متنازعہ بنا دیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ شیعہ قتل عام کی خبریں دبنا شروع ہوجاتی ہیں اور ایک ہفتہ بعد اس طرح کئی خبریں دم توڑ جاتی ہیں۔
بڑی معذرت کے ساتھ میری ان بھولے شیعہ عوام سے گزارش ہے کہ اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ یہ دوطرفہ قتل ہو رہے ہیں۔ ارے آپ غصہ مت کریں، پہلے تکفیریوں کے ایجنٹوں کی بات کو تو سمجھیں۔ دیکھیں جب ایک شیعہ مسجد یا کسی شیعہ اجتماع پر خودکش حملہ ہوتا ہے تو کیا ان کا خودکش حملہ آور نہیں مرتا؟ تو بس اسی کو یہ نسل یزید دوطرفہ قتل کا نام دے کر مکاری سے پاکستان میں شیعہ قتل عام کو متنازعہ بنا دیتے ہیں، اور شہداء کے خانوادوں کے خون پر نمک پاشی کرتے ہیں۔ آج کل کے انٹرنٹ کے دور میں جھوٹ بولنا بہت ہی مشکل ہوچکا ہے، آپ گوگل پر جائیں اور صرف یہ لکھںا "sectarian incidents time lines in Pakistan تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پچانوے فیصد فرقہ وارانہ قتل اہل تشیع عوام کا ہوا ہے، جو پاکستان کی آبادی کا پچیس سے تیس فیصد اور فرقہ کی بنیاد پر دوسرا بڑا فرقہ ہے، بریلوی حضرت کے بعد۔
شاید یہ بات بھی کچھ لوگوں کے لئے حیران کن ہو، اگر آپ شیعہ، بریلوی، دیو بندی، وہابی وغیرہ کی بنیاد پر پاکستان کی آبادی کو جانچیں تو پاکستانی شیعہ دوسرا بڑا مسلمان فرقہ ہے، جس کی آبادی پچاس ملین کے قریب ہے، اس کے باوجود جس طرح شیعیان پاکستان کا پاکستان کے قائم ہونے سے لے کر آج تک منصوبہ بندی سے قتل عام کیا جا رہا ہے، اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ کبھی اس کو سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کا نام دیا جاتا ہے، جس پر میری حیرانگی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے کہ اگر ایران پاکستان میں شیعہ فرقہ کی عسکری حمایت کرتا تو سب سے پہلے اپنی بغل میں بیٹھے کوئٹہ کے ہزارہ اہل تشیع کی مدد کرتا۔ وہ ہزارہ جو ہزاروں کی تعداد میں قتل ہو کر بھی آج تک ایک پتھر بھی نہیں پھنکتے، لیکن سعودی عرب کا فرقہ وارانہ جماعتوں کی عسکری اور مالی مدد کرنا سورج کی طرح عیاں ہے۔
تو ان تجزیہ کاروں سے گزارش ہے کہ محض اپنے آپ کو بیلنس ظاہر کرنے کے لئے ایران کا نام لینا بند کریں، یہ تسلیم کریں کہ وہ تجزیہ کار بھی تکفیریوں کی طرف سے نقصان کے ڈر سے ایسا کرتے ہیں۔ اب ہوسکتا ہے کچھ دوست یہ سوچ رہے ہوں کہ پچھلے کچھ دنوں میں کالعدم سپاہ صحابہ (سپاہ سعود) کے کچھ لوگ بھی ٹارگٹ ہوئے ہیں، تو ان سے گزارش ہے کہ یہ جماعت اپنے ہی لوگوں جو اس جماعت سے منحرف ہوجاتے ہیں، ان کو مروانے میں بھی مشہور ہے۔ آپ کو ڈیلی موشن پر ایک ویڈیو مل جائے گی، جس میں عمران نامی سپاہ صحابہ ایک کارکن اس بات کا اقرار کر رہا ہے کہ سپاہ صحابہ کس طرح پاکستانی شیعوں کے حلاف پراپیگنڈا کرکے قتل عام کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ آپ 19 اپریل 2014ء کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو فرنٹ پیج پر خبر نظر آئے گی کہ سپاہ سعود (کالعدم سپاہ صحابہ) کے عھدے داروں کے قتل میں اسی جماعت یعنی سپاہ سعود کے لوگ ملوث ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دوطرفہ قتل عام دو طریقے سے ہو رہا ہے، ایک وہ خودکش بمبار جو شیعیان حیدر کرار کو خودکش حملہ کے ذریعے قتل کرتا ہے اور وہ دوسرے وہ جن کو تکفیری خود مار دیتے ہیں اور دوطرفہ قتل عام کہ نام دیا جاتا ہے۔
شیعہ سائیڈ پر نہ تو آج تک کوئی مضبوط عسکری فرقہ وارانہ جماعت قائم ہوسکی، نہ ہی ہوسکتی
ہے، جس کی وجہ بہت واضح ہے، کیونکہ شیعہ علماء اور مجتہدین فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل کو حرام قرار دیتے ہیں۔ وہ لوگ جو تکفیریوں کی حمایت کو Justify کرنے کے لئے یہ راگ الاپنے لگ جاتے ہیں کہ اس طرح کی دہشتگردی تو کسی مسلمان کا کام ہو ہی نہیں سکتا، تو میں نے کئی فورم پر یہ بات اٹھائی کہ اگر شیعہ کے قاتل مسلمان نہیں ہیں، تو آپ ایک فتویٰ ہی صادر کر دیں کہ شیعہ کے قاتل کافر ہیں اور اہل تشیع کو قتل کرنا حرام ہے، پھر خوب کھل کر ان ملاؤں کی منافقت سامنے آتی ہے، اور وہ اپنی اس منافقت کو چھپانے کے لئے دوطرفہ قتل کا رونا رونے لگتے ہیں۔ تو بات صرف اتنی سی ہے کہ جتنا دم شیعہ کے بازو میں ہے، اتنا کسی اور میں نہیں۔ کیا وہ پاکستانی شیعہ جو اہلبیت علیہ السلام کے روضوں کی حفاظت کرتے ہوئے دشمنوں کے دانت کھٹے کر رہے ہیں اور جام شہادت نوش کر رہے ہیں، کیا وہ ان چند ٹکوں کے تکفیریوں کو لگام نہیں دے سکتے۔؟
شیعہ اور تکفیریوں کے قتل کا دوطرفہ معاملہ بالکل اسی طرح ہے، جس طرح اسرائیل ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام کرتا ہے اور بعد میں اپنے دو تین فوجیوں کے مرنے پر واویلا مچانا شروع کر دیتا ہے کہ ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام ہمارے فوجیوں پر فائرنگ کا ردعمل ہے۔ رہی بات پاکستانی خکمرانوں کی تو جناب پاکستانی خکمران نہ تو کبھی شیعہ قتل عام کو سنجیدہ لیتے ہیں اور نہ ہی یہ ان حکمرانوں کی ترجیح میں ہے، وجہ سادہ سی ہے چند ہزار ووٹ۔ پاکستانی اہل تشیع کی محرومی کا حل صرف اور صرف پرامن طاقت کا حصول ہے، جو بکھرے شیعہ ووٹ کو یکجا کرنے سے کچھ حد تک ممکن ہے۔