محلس وحدت مسلمین کی شیعہ علماء کونسل کو اتحاد کی دعوت، شیعہ علماء کونسل کا جواب
تحریر: بندہ قمبر
مجلس وحدت مسلمین پاکستا ن کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے قومی یکجہتی کے فروغ کیلئے تمام جماعتوں کے ساتھ ساتھ شیعہ علماء کونسل کے قائد علامہ ساجد نقوی سے ملاقات کی خواہش کیلئے علامہ عارف واحدی سے رابطہ کیا۔ جب یہ خبر سنی تھی تو سن کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ دو ملک گیر شیعہ جماعتیں آپس میں مل بیٹھ کر قومی امور کے لئے کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کریں گی۔ یہ خبر سن کر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی دل میں عزت اور بھی بڑھ گئی۔ لیکن آج جب مجلس وحدت کی اس دعوت کا شیعہ علماء کونسل کی جانب جواب پڑھا تو پڑھ کر انتہائی دکھ ہوا۔ جعفریہ پریس پر ڈلنے والی پوسٹ کے مطابق علامہ ساجد نقوی سے ملاقات کے لئے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کو علامہ عارف واحدی سے مذاکرات کرنے پڑیں گے۔ بڑا عجیب لگا کہ جب کہ ایک قومی تنظیم کے مرکزی سیکریٹری جنرل کو علامہ ساجد نقوی سے ملاقات کیلئے مذاکرات کرنے پڑیں گے تو شیعہ قوم کا تو اللہ ہی بہتر جانے۔ ایس یو سی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تجویز سے علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اتفاق کیاہے، اگر یہ سچ ہے تو یہ علامہ راجہ ناصر عباس کی وسیع القلبی، قومی درد اور ملت کے ساتھ وابستگی کا بہترین نمونہ ہے۔
ہمارا شیعہ علماء کونسل کے دوستوں سے سوال ہے کہ آخر کب علامہ ساجد نقوی ملکی معاملات سے تھوڑا وقت نکال کچھ نظر شیعہ قوم پرڈالیں گے، کیونکہ جس قوم کی قیادت کا آپ دعویٰ کرتے ہیں اس کے حقوق کے لئے آپ کو اب وقت نکالنا ہی پڑے گا۔ کیونکہ جب پاراچنار میں دشمن نے ملت جعفریہ کو محصور کئے رکھا ، علامہ صاحب قومی امور میں اتنا فعال تھے کہ ان کو پاراچنار کے حالات کا پتہ ہی نہ چل سکا۔ جب ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعہ نسل کشی عروج پر تھی تو اس وقت وہ اپنے ہی قول کے مطابق بین الاقوامی معاملات میں اتنا مصروف تھے کہ وقت ہی نہ ملا، کراچی میں روز شیعہ مرتے رہے لیکن قائد ملت جعفریہ کا جواب جوں کا توں رہا۔ اب اگر کچھ لوگوں نے وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیعہ قوم کی بہتری کے لئے آپ سے ملاقات کرکے قومی لائحہ عمل طے کرنے ی تجویز دی ہے تو اس جواب ا س طرح دینا کہ قائد ملت جعفریہ کے پاس ملت جعفریہ کیلئے ٹائم نہیں ہے، آپ علامہ عارف واحدی سے مذاکرات کریں پھر علامہ ساجد نقوی سے ملاقات ہوگی، افسوس صد افسوس، اب اس بات کو ہر ذی شعور شخص سمجھ سکتا ہے اور دیکھ سکتا ہے کہ کون ملت جعفریہ کے ساتھ مخلص ہے اور کون نہیں۔