مضامین

جنرل قاسم سلیمانی کی مذہبی شخصیت پر ایک نگاہ

اہلیبت نیوز ایجنسی کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کی سپاہ پاسداران کے کمانڈر جنرل ’’قاسم سلیمانی‘‘ کی زندگی کا مذہبی پہلو ان موضوعات میں سے ایک ہے جو مغربی لکھاڑیوں کے لیے انتہائی حائز اہمیت ہے بیرونی میڈیا گارڈین، دی نیویورکر، الجزیرہ وغیرہ ان کے شیعہ مذہب سے لگاو اور دینی شعائر کی طرف ان کی توجہ کو خاص اہمیت سے بیان کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ڈکسٹر فیلکینز نے ۳۰ ستمبر ۲۰۱۳ کو دی نیویورکر میں لکھا: ’’ سلیمانی حقیقی معنی میں اسلام کے ماننے والے ہیں اور کئی دوسرے افراد سے زیادہ مہذب ہیں‘‘
یا مارٹین جی نے ۱۳ نومبر ۲۰۱۴ کو ترکی کے ڈیلی صباح نیوز پیپر میں عراقی کمانڈروں سے نقل کرتے ہوئے لکھا: ’’ سلیمانی نے ہمیں سکھایا ہے کہ موت زندگی کی ابتدا ہے نہ انتہا‘‘۔
حتیٰ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا عراق و شام میں بجائے کسی فوجی لقب کے ’’حاجی‘‘ یا ’’ حاج قاسم‘‘ کے لقب سے معروف ہونا خود اس بات کی بڑی دلیل ہے، اگر چہ ہم نے اس بات پر کبھی توجہ نہ کی ہو۔
دنیا کا میڈیا اس کے علاوہ کے قاسم سلیمانی کو علاقے کے اسٹراٹیجک مسائل کا ماسٹر مائنڈ (Brain regional strategic issues) کا نام دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی کوشش کرتا ہے کہ ان کی مذہبی زندگی کو بھی مخاطبین کے لیے منعکس کرے۔
اگرعراق کے جنگی میدانوں میں اس ایرانی کمانڈر کی لی گئی تصاویر پر ایک نگاہ ڈالیں تو انسان کو یہ یقین جائے گا کہ قاسم سلیمانی کا خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان و ایقان ہی ہے جو انہیں اس مقام و منزلت پر پہنچانے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔
قاسم سلیمانی کے ایک قدیمی ہمکار نے ’’ابنا‘‘ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا: حاج قاسم سلیمان میدان جنگ میں بھی باوضو رہتے تھے لیکن اس کے باوجود جونہی اللہ اکبر کی آواز بلند ہوتی تھی تو آستینوں کو الٹ کر تجدید وضو کرتے اور نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔

سلیمانی حقیقت میں ایک چلتی پھرتی درسگاہ ہے جو ظلم و ستم کا شکار ممالک میں سفر کرتی ہے اور قرآنی اعلان ’’فاستقم کما امرت‘‘ کے مطابق ظلم کے مقابلے میں استقامت کا درس دیتی ہے۔
بعض مغربی لکھاڑیوں نے جنرل قاسم سلیمانی کو حقیقی یا افسانوی شخصیات جیسے کارلا، نمسیس، رومن کمانڈر اور قیصر سوزو سے تقابل کیا ہے یہ ایسے حال میں ہے کہ ان تمام ہیرووں نے صرف جنگی میدانوں میں اپنا نام کمایا ہے۔ لیکن جنرل قاسم سلیمانی کو دوست اور دشمن سب فخر کے ساتھ ’’جنرل‘‘ کا خطاب دیتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ انہیں ایک متقی اور مومن شخص بھی تسلیم کرتے ہیں۔
جنرل قاسم سلیمانی اسلامی شریعت کے پابند، باہوش کمانڈر اور اسلام اور مسلمانوں کا درد رکھنے والے شخص ہیں۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
سامراء میں امن و سکون کو لوٹانے والے، آمرلی، جرف الصخر، طوزخورماتو اور جولاء کو دھشتگردوں سے آزاد کروانے والے صرف قاسم سلیمانی ہیں آج سب جان چکے ہیں کہ عراق میں داعش کے خلاف عالمی اتحاد کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹنے والے عملی میدان میں نظر نہیں آئے اگر عراق کو کسی نے بچایا ہے تو وہ صرف قاسم سلیمانی ہیں نہ امریکہ اور اس کے اتحادی۔
امامین عسکریین (ع) کے ایک خادم نے سامراء میں ہوئی جھڑپوں کے بعد ابنا کے نامہ نگار سے کہا: اس شہر میں ہونے والی تازہ بدامنیوں اور دھشتگردوں کے ساتھ جھڑپوں میں حاج قاسم سلیمانی خود موجود تھے اور ہمیشہ خدا سے مدد مانگنے اور ائمہ سے متوسل ہونے کے لیے حرم میں تشریف لاتے تھے۔
انہوں نے کہا: جنرل قاسم سلیمانی نے اس دوران حرم عسکریین (ع) کے سرداب کو رات گزارنے کا ٹھکانہ انتخاب کیا ہوا تھا۔
آخر میں ان جملوں پر غور کریں جو ولی امر مسلمین نے جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں کہے ہیں: ’’ آپ خود آقائے سلیمانی! ہماری نظر میں شہید ہیں، آپ زندہ شہید ہیں۔ جی، آپ بھی شہید ہیں۔ آپ متعدد بار میدان جنگ میں شہید ہو چکے ہیں‘‘۔
مقام شہادت یعنی اسلام کے تئیں وفاداری کا ثبوت، یعنی راہ خدا میں اپنی قربانی پیش کرنا، یعنی عشق الہی کے وادی میں کود جانا
رہبر انقلاب اسلامی کے اس کلام کے معنی یہ ہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی اس مقام و منزلت پر فائز ہیں جو ایک شہید کا مقام ہوتا ہے۔ آپ کا قاسم سلیمانی کو ’’زندہ شہید‘‘ کا لقب دینا اور یہ فرمانا کہ ’’ آپ کئی بار میدان جنگ میں شہید ہو چکے ہیں‘‘ اس بات کی علامت ہے کہ قاسم سلیمانی معنوی لحاظ سے کئی شہیدوں کے درجات کے حامل ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button