مضامین

ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپے کے بعد کراچی میں دہشتگردی ختم ہوجائے گی؟؟

عوامی رائے کے مطابق رینجرز نے 90 پر چھاپہ پار کے کراچی کے سب سے بڑے دھشتگردی کے قلعے کو فتح کرلیا ہے، کراچی کے تمام تر حالات کی ذمہ دار ایم کیو ایم ہی تھی۔
اگر واقعی ایسا ہے تو رینجرز کو یہ بات بھی یقینی بنانی ہوگی کہ کراچی کے حالات اب خراب نہیں ہونے چاھیئں۔ اب ٹارگٹ کلنگ بھی بند ہوجانی چاھیئے اور بھتہ خوری کا بھی خاتمہ ہونا چاہیئے۔
لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تب اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ کہانی درحقیقت کچھ اور ہے۔
۔
ایم کیو ایم سے ہمیں لاکھ اختلاف ہیں، ہم ایم کیو ایم کو ہی "اردو بولنے والوں” کی موجودہ تعلیمی، معاشی و سیاسی زبو حالی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں،
لیکن کیا 90 (جسے رینجرز "نوگوایریا” کہہ رہی ہے) پر چھاپے کے وقت رینجرز کو کسی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا؟ اگر کراچی کے سب سے بڑے قلعے تک پھنچنے میں رینجرز کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی تو کیا وجہ ہے کہ رینجرز یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے،
منگوپیر،
کنواری کالونی،
شیر پاؤ کالونی
یا
سہراب گوٹھ
جیسے نوگوایراز میں داخل ہونے میں ابھی تک ناکام ہے، جبکہ یہ بات کراچی میں رہنے والے عام افراد بھی جانتے ہیں کہ یہ طالبان و دیگر مذہبی دہشتگردوں کی پناہ گاہیں ہیں۔
۔
پاک رینجرز کو یہ بھی ایک اعتراض ہے کہ 90 کے اطراف بیرئرز (روکاوٹیں) لگائی گئی تھیں (ایم کیو ایم کو طالبان کی جانب سے حملوں کی دھمکی مل چکی ہے)، لیکن دوسری جانب انھیں بلاول ہاؤس کے سامنے کھڑی پوری کنکریٹ کی دیوار نظر نہیں آرہی اور نہ ہی سنی تحریک کے سربراہ یا عوامی نیشنل پارٹی سندھ کے صدر کے گھر کے باہر کا ماحول نظر آرہا ہے۔

دوسری جانب وفاقی وزیرِ داخلہ صاحب فرماتے ہیں کہ اسِ چھاپہ کے بارے میں وفاق کو پہلے اطلاع دی گئی تھی۔
کیا وزیرِ داخلہ صاحب یہ نہیں جانتے تھے کہ اگر 90 پر اس قسم کا کوئی آپریشن کیا گیا تو کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں حالات خراب ہونے کا خدشہ ہے؟ انہوں نے یہ بات جانتے ہوئے بھی آپریشن ہونے دیا۔
تو پھر لال مسجد (اسلام آباد) پر آپریشن کے معاملے میں وزیرِ داخلہ صاحب دوہرے معیار کا شکار کیوں ہیں؟ وزیرِ داخلہ صاحب کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر لال مسجد (اسلام آباد) پر آپریشن کیا گیا تو حالات خراب ہو سکتے ہیں۔

ایک سوال جو اہمیت رکھتا ہے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کراچی میں "آپریشن” کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے، جب بھی آپریشن کا نام استعمال ہوتا ہے تب ہی قانون حرکت میں آتا ہے۔ کیا آپریشن کے علاوہ تمام قانون کے محافظ سوتے رہتے ہیں؟ پاک رینجرز نوے کی دہائی سے کراچی میں ہے، آخر 10/15 سال بعد ہی آپریشن کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟
۔
سب سے اہم بات "حکومت و قانون نافذکرنے والے اداروں”کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ ایم کیو ایم کے بہانے وہ "اردو بولنے والے” پاکستانیوں کے ساتھ ایک بار پھر امتیازی سلوک اور تعصب کا شکار نہ ہوجائے۔

محترم قاری حضرات، اوپر لکھی گئی لمبی چوڑی تفصیل کا مقصد فقط "حکومت و قانون نافذکرنے والے اداروں” کے دوہرے معیارات کو واضح کرنا تھا، کراچی میں بسنے والے پاکستانی کئی جانب سے دہشتگردی کا شکار ہیں ، خواہ وہ ایم کیو ایم ہو، لیاری گینگ وار ہو، دیگر سیاسی جماعتیں کے عسکری ونگ ہوں یا مذہبی دہشتگرد۔ اس شہر میں بسنے والے لوگ ہر قسم کی بدامنی سے چھٹکارہ چاہتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button